تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     26-02-2017

’’مسالہ کچھ زیادہ ہو گیا‘‘

یہ 1978ء کے وسط کی بات ہے۔ رامے صاحب‘ پیر پگارا کی مسلم لیگ کو خدا حافظ کہہ کر اپنی ذاتی پارٹی 'مساوات پارٹی‘ کی داغ بیل ڈال چکے تھے۔ ایک دن اپنے ایک بیان میں جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ پر برس پڑے۔ تب ''آتش جواں تھا‘‘ اور جوشِ جوانی میں رامے صاحب کے خلاف ایک سخت سا مضمون لکھ ڈالا۔ جناب عبدالقادر حسن کے ہفت روزہ افریشیا کی ترتیب و تدوین کی ذمہ داری کلور کوٹ والے جمیل احمد رانا (مرحوم) کے سپرد تھی۔ انہوں نے اس پر ''آئینہ کیوں نہ دوں‘‘؟ کی سرخی جما دی جس سے مضمون کا تاثر دو آتشہ ہو گیا۔ چند روز بعد ایک تقریب میں رامے صاحب سے آمنا سامنا ہوا۔ انہوں نے ہمارا ہاتھ پکڑا اور اپنے ساتھ چائے کی میز کی طرف لے جاتے ہوئے کہا‘ ''میں نے وہ مضمون پڑھ لیا تھا‘‘ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے ''اس میں مسالہ کچھ زیادہ نہیں ہو گیا‘‘؟ اور یہ ملاقات دانشور سیاستدان سے ہماری دوستی کا آغاز بن گئی۔
کچھ عرصے بعد رامے صاحب امریکہ سدھار گئے۔ امریکہ پلٹ دوست بتاتے کہ وہاں وہ ایک وسیع و عریض پٹرول پمپ چلانے کے علاوہ امریکیوں کی نئی نسل کو تصوف پر لیکچر بھی دیا کرتے۔ وہ وطن لوٹے تو ان سے تجدیدِ ملاقات کی صورت نکل آئی۔ کوئی اور صحافتی مصروفیت نہ ہوتی... اور نواب زادہ صاحب بھی لاہور میں نہ ہوتے... تو ہم اشرف ممتاز (ان دنوں ''ڈان‘‘ سے وابستہ) کے ساتھ غالب روڈ (گلبرگ) کا رخ کرتے۔ رامے صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ اس میں ان کا قرآنی فلسفہ بھی ہوتا اور تصوف کے مسائل بھی‘ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف مزاحمت سمیت خطے کی صورت حال بھی ہوتی اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں رامے صاحب کی صوبائی وزارتِ خزانہ‘ پھر پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ اور اس کے بعد اسی دور میں قید و بند کے واقعات کا ذکر بھی کبھی یوں بھی ہوتا کہ شخصی اوصاف اور انسانی رویّوں کے حوالے سے انہیں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی نسبت‘ فوجی آمر ضیاء الحق کہیں بہتر نظر آتے۔ ایک ایسی ہی نشست میں وہ کہہ رہے تھے‘ ''آج پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو خمینی کی طرح راسخ العقیدہ اور کمال اتاترک کی طرح روشن خیال ہو‘‘ اور ضیاء الحق میں انہیں یہ دونوں اوصاف نظر آتے۔
رامے صاحب نے اپنی عملی زندگی کا آغاز تصنیف و تالیف سے کیا۔ قدرت نے مصوری کے اعلیٰ ذوق اور فنکارانہ صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔ ان کے آبأ لاہور کے معروف ناشرانِ کتب میں شمار ہوتے تھے۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کی کنونشن مسلم لیگ ان کی پہلی سیاسی محبت تھی؛ چنانچہ ان کی ذہانت و فطانت‘ تدبر و دانش اور ان کا ہفت روزہ ''نصرت‘‘ قوم کو فیلڈ مارشل کی بنیادی جمہوریت کی برکات و حسنات سے روشناس کرانے کے لیے واقف ہوا۔ تب جناب قدرت اللہ شہاب‘ جناب الطاف گوہر‘ جناب ممتاز مفتی اور پاکستان رائٹرز گلڈ سے وابستہ اکثر و بیشتر صاحبانِ قلم ایوب خاں کو ''ایشیا کا ڈیگال‘‘ بنانے پر کمربستہ تھے۔ فیلڈ مارشل کی حکومت میں وزارتِ خارجہ سے اخراج کے بعد بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی بنائی تو رامے صاحب انہیں ''قائدِ عوام‘‘ اور''فخرِ ایشیا‘‘ بنانے پر مامور ہوئے۔ اب ان کا قلم سوشلزم کو ''مساواتِ محمدی‘‘ ثابت کرنے میں مصروف تھا۔ ان کا دورِ ادارت روزنامہ ''مساوات‘‘ کا سنہری دور تھا۔
بھٹو دور میں وہ پنجاب کی وزارتِ خزانہ اور وزارتِ اعلیٰ تک پہنچے۔ اختلافات ہوئے تو پیر پگارا کی مسلم لیگ میں چلے آئے اور اس کے چیف آرگنائزر قرار پائے (تب ملک میں یہی مسلم لیگ تھی‘ جو متحدہ حزب اختلاف میں سرگرم تھی اور بھٹو کی ڈٹ کر مخالفت کر رہی تھی) بھٹو اقتدار کا سورج نصف النہار پر تھا۔ یہ حزبِ اختلاف کے لیے تو کڑا دور تھا ہی‘ پارٹی کے ''باغیوں‘‘ کے لیے اس سے بھی سخت تر تھا۔ (آزاد کشمیر میں دلائی کیمپ) ایسے میں بھٹو صاحب کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا بلاشبہ غیر معمولی دل گردے کا کام تھا۔ ع
''ان ہی کا کام ہے یہ‘ جن کے حوصلے ہیں زیاد‘‘
جنابِ رامے یہ غیر معمولی کام کر گزرے اور اس کی پاداش میں قید و بند کی صعوبتیں بڑی ہمت اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیں۔
پانچ جولائی 1977ء کو بھٹو صاحب پرائم منسٹر ہائوس سے رخصت ہوئے تو رامے صاحب کو اذنِ رہائی ملا۔ ''چُھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا‘‘۔ کچھ عرصے بعد انہوں نے مساوات پارٹی کی داغ بیل ڈالی۔ پھر ایک طویل عرصہ امریکہ میں گزار کر واپس آئے تو (1986ء میں) غلام مصطفی جتوئی کے ساتھ مل کر نیشنل پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ضیاء الحق کی رحلت کے بعد اس مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی جس کی قیادت فدا محمد خاں کے پاس تھی۔ کچھ یاد پڑتا ہے کہ نواز شریف صاحب اس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ وزیر اعظم محمد خاں جونیجو کی برطرفی کے بعد‘ ضیاء الحق کے آخری دنوں میں مسلم لیگ دو دھڑوں میں بٹ گئی تھی۔ گجرات کے چودھریوں سمیت کئی مسلم لیگی‘ جناب جونیجو کی زیر قیادت دوسرے دھڑے سے وابستہ تھے۔ ضیاء الحق کی رحلت کے بعد نومبر 1988ء کے انتخابات میں بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے مقابلے کے لیے‘ مخالف عناصر اسلامی جمہوری اتحاد کی چھتری تلے جمع ہوئے‘ تو دونوں مسلم لیگیں بھی متحد ہو کر ''داخلِ میخانہ‘‘ ہو گئیں۔ (جنرل حمید گل کو اسے اپنا برین چائلڈ قرار دینے میں کوئی عار نہ ہوتی)۔ رامے صاحب آئی جے آئی میں مسلم لیگ کے کوٹے سے لاہور کی ایک صوبائی نشست کا ٹکٹ بھی حاصل نہ کر پائے تو پیپلز پارٹی میں لوٹ گئے۔ 1990ء کے الیکشن میں لاہور کے ایک صوبائی حلقے سے جنرل ضیاء الحق کے چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر انوارالحق سے سات ہزار ووٹوں سے شکست کھائی۔ 1993ء میں قسمت نے یاوری کی اور رامے صاحب ایک اور حلقے سے سترہ‘ اٹھارہ سو ووٹوں کی اکثریت سے پنجاب اسمبلی کا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔
بے نظیر صاحبہ کے دوسرے دور میں رامے صاحب پنجاب اسمبلی کے سپیکر بنے۔ (جناب حامد ناصر چٹھہ نے اپنی اٹھارہ نشستوں کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ اچک لی تھی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں نواز شریف کی مسلم لیگ کا راستہ روکنے کے لیے محترمہ نے یہ مہنگا سودا قبول کر لیا تھا) نہایت طاقتور حزبِ اختلاف کی موجودگی میں ایوان کی کارروائی کو چلانا بلاشبہ ایک چیلنج تھا۔ حالت یہ تھی کہ وزیر اعلیٰ منظور وٹو کبھی ایوان میں آتے تو ''لوٹا لوٹا‘‘ کے نعروں میں کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی۔ قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کمر درد کے علاج کے لیے لندن میں مقیم ہوئے‘ تو ان کے جانشین‘ چودھری پرویز الٰہی کی زیر قیادت حزب اختلاف نے حکومت کو ٹف ٹائم دینے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ انعام اللہ نیازی نے تو ایک دن وزیر اعلیٰ کے مائک پر پلاسٹک کا لوٹا بھی رکھ دیا تھا۔ (ایوان سے باہر نکلتے ہی انہیں اسمبلی کی سیڑھیوں پر گرفتار کر لیا گیا) جناب رامے اس جہانِ فانی میں 75 سال گزار کر‘ عالمِ جاودانی کو سدھار گئے تو یوں لگا کہ ہم اگلی شرافت کے ایک اور نمونے سے محروم ہو گئے ہیں۔ ع
اب پیدا کہاں ایسے پراگندہ طبع لوگ!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved