پوں پوں کی آوازیں مسلسل آ رہی تھیں۔ ہارن کافی دیر سے بج رہا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ سواری بس روانہ ہوا ہی چاہتی ہے۔
اُدھر ٹکٹوں والی کھڑکی پر ہجوم تھا۔ قطار بنانے کا تو خیر کیا سوال تھا‘ یہی غنیمت تھا کہ کھڑکی کی سلاخیں مسافروں کے ہاتھوں میں نہیں آئی تھیں۔ کھڑکی کے اُس طرف بیٹھنے والا بابو ٹکٹ دے کر رقم وصول کرتا‘ ریزگاری گنِ کر بقایا واپس کرتا اور مسافر اُس طرف کا رُخ کرتا جہاں ہارن مسلسل بج رہا تھا۔
ابھی بہت سی نشستیں خالی تھیں۔ کنڈیکٹر دروازے پرکھڑا‘ چادر ہلا ہلا کر مسافروں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔۔۔۔ ''چیچہ وطنی‘ چیچہ وطنی‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سانگھڑ‘ کراچی سے جانے والے بیٹھ جائیں۔ جلدی کریں‘ سب سے پہلے ہماری ہی سواری جائے گی‘‘۔
ڈرائیور کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ ایک تہائی نشستیں ابھی تک خالی تھیں۔ اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا۔ اس نے لمبی لمبی زلفیں کندھوں پر بکھیری ہوئی تھیں اور ایک عجیب سی چوگوشیہ ٹوپی پہن رکھی تھی جس کی دیواریں بلند تھیں۔ یوں وہ کسی پرانے زمانے کا ایسا مسافر لگتا تھا جو شاہراہ قراقرم کے کسی قافلے کا رکن تھا اور گھوڑے فروخت کرنے سیدھا تبریز جا رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کالے رنگ کا زنبیل نما بیگ تھا اور دوسرے ہاتھ میں ایک خوبصورت چھڑی۔ وہ مسافروں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور السلام علیکم کہا۔ اس کے بعد اس نے پوری تاثیر کے ساتھ اُس منجن کے فوائد پر جامع تقریر کی جس کی شیشیاں اُس کے زنبیل نما بیگ میں تھیں۔ اُس نے تفصیل سے بتایا کہ جو لوگ اس کا منجن باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں ان کے دانت بڑھاپے میں بھی اخروٹ توڑ لیتے ہیں۔ شیشی کی اصل قیمت پچاس روپے تھی مگر مسافروں کے لیے خاص ڈسکائونٹ تھا۔ وہ فقط تیس روپے دے کر شیشی خرید سکتے تھے اور دو شیشیاں اکٹھی خریدنے کی صورت میں قیمت صرف پچیس روپے فی شیشی تھی۔ پچھلی سیٹ سے ایک چُگی داڑھی والا مجہول مسافر اُٹھا اور تین شیشیوں کے لیے آواز دی۔ تین چار مسافر اور بھی تھے جنہوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ڈسکائونٹ پر منجن خریدا۔ کوئی پون گھنٹے بعد یہ چُگی داڑھی والا مجہول مسافر نیچے اتر گیا اور ایک سائیڈ پر بنے ہوئے کھوکھے پر اُسی شخص سے جا ملا جو منجن بیچ رہا تھا۔ اس کی چائے کے پیسے منجن فروخت کرنے والے بابے ہی نے ادا کیے۔
خدا خدا کر کے ڈرائیور والی کھڑکی سے ایک شخص اندر آ کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ اس کے ہونٹوں میں سگریٹ تھا۔ اس نے گرم چادر لپیٹ رکھی تھی اور سر پر چار خانے والا چیتھڑا نما رومال باندھ رکھا تھا۔ پیچھے مُڑ کر اس نے دیکھا اور پھر خاصے تحکمانہ لہجے میں کنڈیکٹر سے پوچھا کہ کیوں بھائی چلیں‘ پچھلے دروازے سے لٹکے ہوئے کنڈیکٹر نے نسوار زدہ تھوک دُور گراتے ہوئے بلند آواز میں کہا: ''جانے دیں ڈبل ہے‘‘۔
ڈرائیور نے گیئر بدلا اور طیارہ رن وے پر دوڑنے لگا۔ ابھی ٹیک آف نہیں ہوا تھا کہ ایک طرف سے تین مسافر دوڑے دوڑے رن وے پر آ گئے اور ہاتھوں سے جہاز روکنے کا اشارہ دیا۔ ڈرائیور نے بریک لگائی۔ کنڈیکٹر نے چیخ کر پوچھا کہاں جانا ہے؟ دو سواریوں نے سانگھڑ اور ایک نے توڑ کراچی جانا تھا۔ جہاز آہستہ ہوا مگر بالکل رُکا نہیں۔ اسی آہستہ چلتے جہاز میں کنڈیکٹر نے تینوں سواریوں کو بازئوں سے پکڑ کر اندر کیا اور چیخا۔۔۔ ''ڈبل ہے‘‘ ، جہاز پھر رن وے پر دوڑنے لگا۔
چیچہ وطنی میں صرف دس منٹ رکنا تھا مگر جہاز کے پہیوں میں ہوا کم تھی۔ ہوا بھرنے والا چائے پینے کھوکھے پر گیا ہوا تھا۔ بیس منٹ اس نے انتظار کرایا اور پھر کہیں جا کر نمودار ہوا۔ ابھی دو ٹائر رہتے تھے کہ وہ ایک ٹیوٹا کار کی ہوا چیک کرنے لگ گیا۔ جاتے وقت جہاز کے کنڈیکٹر نے پچاس روپے کا نوٹ اس کی جیب میں ڈالا۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کوئی سواری نہ تھی۔ جہاز پہلے ہی پانچ گھنٹے لیٹ تھا چنانچہ ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے آپس میں مشورہ کر کے طے کیا کہ ٹوبے نہیں اتریں گے۔ وہاں کے مسافر ویگن کے ذریعے سانگھڑ پہنچ کر یہی طیارہ پکڑ سکتے تھے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر نے یہ باہمی مشورہ اپنی اپنی سیٹوں ہی پر بیٹھ کر کیا تھا۔ اس لیے مسافر پروگرام کی اس تبدیلی سے آگاہ ہو چکے تھے۔ کسی نے اعتراض نہ کیا۔
سانگھڑ میں ڈرائیور نے جہاز عین اُس ڈھابے کے سامنے اتارا جو اس کا پسندیدہ تھا۔ یہاں کی چکن کڑاہی اور چنے کی دال کا وہ دلدادہ تھا۔ کنڈیکٹر نے اعلان کیا کہ جہاز یہاں ایک گھنٹہ رکے گا۔ مسافر کھانا کھا لیں اور ظہر پڑھ لیں۔ کچھ مسافر رفع حاجت کے لیے دور کھیتوں میں نکل گئے۔ کچھ نے مسجد کا رُخ کیا۔ زیادہ تعداد اُن افراد کی تھی جو کھانا کھانے بیٹھ گئے۔
ایک کے بجائے دو گھنٹے ہو گئے۔ کنڈیکٹر نے آرام سے کھانا کھایا۔ ٹرک ڈرائیوروں اور اس ایئر لائن کے ڈرائیوروں کی عیاشی کھانا ہی تو ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ اُس کیفے ڈی پھونس پر رکتے ہیں جہاں روٹیاں تازہ ہوں اور دال اور کڑاہی گوشت لاجواب ہو۔ کھانا کھانے کے بعد اس نے ایک پیالی کڑک چائے کی پی اور ساتھ سگریٹ بھی!
سانگھڑ سے چلنے لگے تو معلوم ہوا کہ سواریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، نشستوں سے کہیں زیادہ۔ کچھ کم وزن مسافروں کو دوسرے مسافروں کی گود میں کھپایا گیا۔ پھر بھی جو بچ رہے ان میں جاندار ہٹے کٹے اشخاص کو کارگو والے حصے میں ٹھونسا گیا۔ پھر بھی سات مسافر بچ رہے۔ ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی آنکھوں آنکھوں میں جو کانفرنس ہوئی اس کے نتیجہ میں یہ فیصلہ ہوا کہ ان مسافروں کو نشستوں کے درمیان واقع گلی نما جگہ پر کھڑا کر دیا جائے۔ چنانچہ یہی کیا گیا۔ جہاز ہچکولے کھاتا تو یہ مسافر بیٹھے ہوئے مسافروں پر گرتے مگر فوراً سنبھل جاتے۔
اُسی شام حیدرآباد میں ڈرائیور کے بھانجے کا ولیمہ تھا۔ اس نے طیارہ کراچی سے پچاس میل پہلے سپر ہائی وے پر ہی اتار دیا۔ ڈرائیور سیٹ پر کنڈیکٹر کو بٹھایا اور خود حیدرآباد جانے والی بس میں سوار ہو گیا۔ کنڈیکٹر کو بہت زیادہ تجربہ تو نہ تھا مگر جوں توں کر کے جہاز اس نے کراچی رن وے پر اتار ہی لیا۔
پس نوشت: تین دن پہلے معلوم ہوا کہ کراچی سے مدینہ منورہ جانے والے قومی ایئر لائن کے طیارے میں سات مسافروں نے کھڑے ہوکر سفر کیا۔ یہ جان کر کالم نگار پر جو وجد طاری ہوا یہ کالم اسی عالمِ وجد کا نتیجہ ہے۔
ڈرائیور نے گیئر بدلا اور طیارہ رن وے پر دوڑنے لگا۔ ابھی ٹیک آف نہیں ہوا تھا کہ ایک طرف سے تین مسافر دوڑے دوڑے رن وے پر آ گئے اور ہاتھوں سے جہاز روکنے کا اشارہ دیا۔ ڈرائیور نے بریک لگائی۔ کنڈیکٹر نے چیخ کر پوچھا کہاں جانا ہے؟ دو سواریوں نے سانگھڑ اور ایک نے توڑ کراچی جانا تھا۔ جہاز آہستہ ہوا مگر بالکل رُکا نہیں۔ اسی آہستہ چلتے جہاز میں کنڈیکٹر نے تینوں سواریوں کو بازئوں سے پکڑ کر اندر کیا اور چیخا۔۔۔ ''ڈبل ہے‘‘ ، جہاز پھر رن وے پر دوڑنے لگا۔