اپنی خستہ حالی اور پاکستان کی خوشحالی کا اعتراف نہ کرتا تو کیا کرتا۔ یاران سفر دُور سبزے پر جا کر پڑ گئے۔ میں نے کئی پہلوئوں سے تصویریں اُتاریں۔ اشوک کی لاٹھ بھی قطب کے سائے ہی میں ہے۔ تصویری کارڈ باب الداخلہ پر بک رہے تھے، بہت معمولی قسم کے۔ میں نے نہیں خریدے۔ ہندوستان کی مشکل یہ ہے کہ ملکی تشہیر کے لیے جتنے رنگین کارڈ تاریخی اور تفریحی مقامات کے اردگرد بکتے ہیں اور سیاح خرید خرید کر اپنے دوستوں اور بچوں کو بھیجا کرتے ہیں وہ سب کارڈ مسلمانوں کی تعمیر کردہ عمارتوں اور باغات وغیرہ کے عکاس ہیں۔ میں نے وہاں یہ بھی سُنا‘ تاج کے زیر سایہ دیال باغ اور درگاہ خواجہ غریب نوازؒ کے پڑوس میں ایک مندر تعمیر کیا جا رہا ہے تاکہ توجہ ایک مرکز سے ہٹ کر ہندو تعمیر کی طرف منعطف ہو جائے۔ دیال باغ گزشتہ پینتیس برس سے زیر تعمیر ہے اور یہ وہم ہندو میں بھی عام ہے، وہ کسی طرح بن کر بگڑ جاتا ہے۔ تاج محل کے روحانی تصرفات میں اسے بھی شمار کیا جانے لگا ہے۔ قطب مینار کے احاطے سے نکل کر سفید مشروب سربند بوتلوں میں پیا۔ ذائقہ اس کا ہندوستانی تھا اس لیے دوسری بوتل پینے کی ہمت ہی نہ پڑی۔ واپسی پر ایک دستکاری مرکز میں گھسے، وہاں کوئی غیر معمولی چیز نظر نہیں آئی۔ بٹوے اور لکڑی کے مجسموں کی بہتات کے علاوہ ایک جیتی جاگتی مورتی کے درپے ہو گئے یہ لوگ۔ وہ بہرحال دکانداری کے فرائض میں پیش پیش رہی۔ شرمائی تو وہ نہیں، لجا لجا کر رہ گئی۔ بوڑھے اور ریشہ خطمی ہوئے۔ دیکھ لیا خوش کام ہوئے اب چل نکلو۔ یہ دیکھ وہ دیکھ خاصا وقت ضائع کیا گیا تب محمود صاحب نے ایک نقرئی طشتری خریدی۔ دیوی کے اردگرد کچھ بھوت بھی لگے ہوئے تھے۔ ہتھ پھیریوں کا موقع ہی کیا تھا ورنہ چوکنے والے نہیں تھے یہ بزرگ۔ رئیس ایسی حرکتوں کو دیکھ دیکھ کر خوب لطف لیتے ہیں‘ بھڑکاتے بھی رہتے ہیں۔ بیچاروں میں اب رکھا ہی کیا ہے۔
ہاں قطب مینار تو ہم بعد میں گئے پہلے درگاہ نظام الدین اولیاؒ پر حاضری دی۔ ہندوستان میں کیا بڑی کیا چھوٹی کوئی درگاہ سرکاری تحویل میں نہیں لی گئی۔ وہاں کا مسلمان غالباً سرکاری عمل دخل برداشت بھی نہیں کرتا اس لیے انتظامات تو ناقص ہونا ہی تھے۔ رات کی بارش کے اثرات صبح دس بجے بھی موجود تھے۔ گندے پانی کے اخراج نے جل تھل ایک کر کے رکھے تھے۔ چھوٹے چھوٹے گندے ہوٹلوں کی بھرمار طے کر کے پہلے امیر خسروؒ اور پھر نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کے مزارات پر حاضری کا لطف اس لیے غارت ہوا کہ متوسلین قدم قدم پر اصرار کرتے ہیں یہاں نذرانہ اس صندوق میں ڈالیے۔ کیا نذر پیش نہ کیجیے گا۔ دس قدموں کے راستے میں مسلسل کانوں میں یہی آوازیں گونجتی رہیں۔ اولیاء اللہ کے نام پر جو لوگ پیٹ پال رہے ہیں یہ سب مرنے والوں کی خیروبرکت ہی ہے اور اس پر ناک بھوں چڑھانا کم ظرفی ہی ہو گی لیکن بھائی میاں جو آتا ہے وہ ایک خاص تاثر لے کر آتا اور لے جاتا ہے۔ نذر نیاز کے اصرار و تکرار نے مجھے بے لطف کر دیا۔ میں کسی کیفیت سے کیا دوچار ہوتا طبیعت اُکھڑ سی گئی اور میں کچھ دیے لئے بغیر خالی الذہن پلٹ کر غالبؔ کے مزار پر آیا۔ غالبؔ کا جیتے جی پرسان حال نہ تھا اب قبر پر کون دُھونی رمائے گا۔ سب سے الگ تھلگ مزاج تھا۔ اب بھی تن تنہا پڑے یکتائی کے مزے لوٹ رہے ہیں یہاں مزے سے۔ میں نے مرزا کی روح کو ثواب بھی پہنچایا، دل کی کلیاں بھی کھلیں‘ کچھ تصویریں بھی اتاری گئیں۔ لوح مزار ملاحظہ فرمائیے:
یاحی یاقیوم
رشکِ عُرفی و فخرِ طالب مُرد
اسد اللہ خان غالبؔ مُرد
کل میں غم و اندوہ میں باخاطر محزوں
تھا تربت استاد پہ بیٹھا ہوا غمناک
دیکھا جو مجھے فکر میں تاریخ کی مجروحؔ
ہاتف نے کہا گنجِ معانی ہے تہِ خاک
ضرورت باقی ہے کہ نظام الدین اولیاؒ کے اطراف و اکناف کا حُلیہ ٹھیک کیا جائے۔ خوش منظر ہونا چاہیے یہ علاقہ۔ اس طرف متولیوں کو توجہ دینی ہو گی۔ سرکار دربار سے بھی سرپرستی یقیناً ہو گی۔ ہندو مسلمان دشمن سہی لیکن صوفیا کا گرویدہ اب بھی ہے۔ لاکھ نکل بھاگے گرفت اب بھی کوئی مانے نہ مانے ہمارے پیشوائوں کی خاصی مضبوط ہے اور یہ میں نے جانا ہمیشہ رہے گی۔ خواجہ حسن نظامی کو کون نہیں جانتا۔ آسان لکھنے کی طرح غالبؔ کے بعد انہوں نے خوب ڈالی۔ سینکڑوں مضامین بیسیوں کتابیں لکھیں۔ متعدد رسالے نکالے۔ ڈھیر لگا دیئے لکھ لکھ کر۔ درگاہ نظام الدینؒ سے نسبت خاص تھی۔ خواجہ حسن نظامی کے صاحبزادے خواجہ حسن ثانی نظامی سے تعارف رئیس صاحب کے اعزاز میں انجمن ترقی اردو کی طرف سے دیئے گئے استقبالیے میں ہوا۔ یہ ہمارے بڑے بھائی کے ہم جماعت نکلے۔ نام سنتے ہی گلے لگا لیا۔ ارے آپ تو ہمارے چھوٹے بھائی ہیں‘ کہاں ہیں مہدی شاہ‘ وہ تو ہمیں بھول گئے، دیکھیے ہم نے نہیں بھلایا۔ میں نے رئیس صاحب کو بتایا لیجیے یہ تو ہمارے شناسا نکلے۔ اسے کچھ خوشدلی سے نہیں سنا گیا۔ خواجہ صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی سے بھی تعارف کرایا۔ خواجہ صاحب ہی کی جیپ میں ہم کلاں محل ڈاکٹر خلیق انجم کے گھر گئے۔ خواجہ صاحب خلیق انجم سے تو کہہ رہے تھے تشریف لائیں گے مگر بعد میں معلوم ہوا خلیق انجم صاحب نے رئیسی قافلے کو کلاں محل پہنچانے کی ذمہ داری تو خواجہ صاحب پر ڈال دی لیکن خواجہ صاحب کو تو نہیں اُن کے مُریدوں کو نظرانداز کر آئے تھے۔ خواجہ حسن ثانی نظامی دلی کے مسلمانوں میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ بیحد پیچیدہ نہیں چیدہ شخصیتوں میں شمار ہوتے ہیں‘ کیوں نہ ہوتا‘ درگاہ نظام الدینؒ کے متولی‘ بہت پیارے مقرر اور ادیب۔ رئیس صاحب سے بچھڑنے کے بعد (یہ بچھڑنے کا قصہ آگے آتا ہے) میں ایک دن پھر درگاہ جا پہنچا تھا۔ آگے چل کر عرض کروں گا۔
قطب مینار اور دستکاری مرکز سے نکل کر اختر فیروز کا حکم تھا اوکھلے چلو‘ جمنا کے کنارے ایک بند باندھا گیا ہے، وہاں چلو۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ اور مزار ڈاکٹر ذاکر حسین کو دور دور سے دیکھتے ہوئے ہم نے خاصی جستجو کے بعد جمنا کا ایک ایسا کنارہ ڈھونڈ نکالا جسے تھوڑا بہت تفریحی مقام بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ میرا خیال تھا راہ چلتے گاڑی رکوا کر اختر فیروز دو بیئر کی بوتلیں اور ایک بوتل وسکی خرید لائے ہیں‘ کہیں آگے چل کر کام دیں گی۔ ہر شام کو پینے والوں کو ذخیرہ کرنے کی فکر ہر وقت دامن گیر رہتی ہے مگر یہ کیا ایک بجا ہے دوپہر کا، جمنا کا کنارہ، کھلے بندوں، سکھ اور پنجابی ہندو کی دیکھا دیکھی کیوں، یہ تو نیت یہی باندھ کر چلے تھے۔ ایک درخت کے تنے سے ٹک کر لگ کر مسافروں نے اپنے اور بوتلوں کے منہ کھول دیئے۔ منہ تو میرا اور محمود صاحب کا بھی اس حرکت پر کھلے کا کھلا رہ گیا تھا۔ بڑی کڑوی ہے، بڑی گندی ہے، یہ کہتے کہتے رئیس پوری بوتل بیئر کی ڈکار گئے۔ لاری چلانے والے کی بھاگ دوڑ سے کچھ کچے پکے آلو بھی مل گئے تھے۔ نہ پینے کا وقت نہ پلانے کا سمے۔ آہا ہا ہا دیکھو کیسی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ کیسی آزادی ہے‘ کوئی محتسب نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اب اس عالم میں رئیس صاحب سے بحث کون کرتا۔ تصویر جو اُتری ہے دیکھا جا سکتا ہے۔ رئیس صاحب ایک عیار بڑھیا کا حلیہ پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پی کر اُٹھے تو ایک خوبرو مزدور لڑکی کا سامنا ہوا۔ اختر فیروز نے آوازے ہی نہیں کسے پیچھا بھی کیا۔ مبادا جوتے بیگار میں ہم پر بھی پڑیں۔ میں تو غیر متعلق بن کر ایک طرف کو نکل گیا۔ لیکن رئیس دھت نہ بھی ہوتے تب بھی شہہ دینے میں کبھی پیچھے نہیں رہتے۔
اوکھلے سے ہماری گاڑی گاندھی سمادھی پر آ کر رُکی۔ چھٹی کا دن۔ سیاحوں کے علاوہ دیہاتیوں کی بھی خوب چہل پہل۔ سبزہ ہی سبزہ۔ درمیان میں ایک سیاہ پتھر کا جبوترا۔ شیشے کی مُنی سی الماری میں راکھ۔ آگ بھی روشن۔ پُر فضا جگہ تھی۔ قائداعظم کے مزار کے اطراف و اکتاف کی خزاں رسیدگی یاد آئی۔ ایک تصویر یہاں بھی میں نے اُتاری۔ سہ پہر ہو چکی تھی۔ اس دوران میں ناخدا کو کھانے تک کا نہیں پوچھا گیا۔ وہ ہمیں تلک مارگ پر اتار کر بھاگا۔ شام تک ہماری کسی نے خبر نہ لی...
آج کا مطلع
نہ جانے کس طرح کے سفر میں پڑے ہوئے ہیں
کہ ایسے لگتا ہے جیسے گھر میں پڑے ہوئے ہیں