کانگریس کی قیادت والی پچھلی متحدہ ترقی پسند اتحاد حکومت نے 2005ء میں بھارت کی سب سے بڑی اقلیت، مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے جسٹس (ریٹائرڈ) راجندر سچرکی قیادت میں اعلیٰ سطحی کمیٹی تشکیل دی تھی، جس نے تقریباً ایک سال کی عرق ریزی کے بعد17نومبر 2006ء کو 403 صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ مع 76سفارشات وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پیش کی۔ رپورٹ پیش کرنے کی تقریب میں وزیر اعظم کے دفتر کے سبھی افسر اور قومی سلامتی کے مشیر موجود تھے، البتہ کابینہ کے سیکرٹری بی کے چتر ویدی کی غیر حاضری سبھی کو کھٹک رہی تھی۔ بعد میں اکثر افسروں نے دبے لفظوں میں بتایا کہ بیوروکریسی کے سرتاج چتر ویدی اس رپورٹ کے مندرجات سے ناخوش ہیں۔ اس کا برملا اظہار انہوں نے اگلے روزکمیٹی کے آفیسر آن اسپیشل ڈیوٹی سید ظفر محمود کو بلا کر کیا۔ محمود صاحب جب انہیں پریزنٹیشن دے رہے تھے، تو وہ ہر نکتے پر کوئی اعتراض کر کے اسے رد کر دیتے اور آخر میں کہنے لگے ایک سیکولر ملک میں سرکاری وسائل کسی ایک فرقہ پر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔
2006ء میں ہی بھارت میں پہلی بار وزارت اقلیتی امور قائم ہوئی ۔ وزارت کے پہلے سیکرٹری ایم این پرساد کا واسط کابینہ کے دو سیکرٹریوں بی کے چتر ویدی اور کے ایم چندر شیکھر سے پڑا۔ دونوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس رپورٹ کو نافذ کروانے کے لیے اپنا خون خشک نہ کریں چونکہ 2002ء کے گجرات فسادات سے خوف زدہ مسلمان یکجا ہوکر 2004ء میں کانگریس کو دوبارہ اقتدار میں لائے تھے، اس لئے دل بہلانے کے لئے ان کوکوئی کھلونا دینا ضروری تھا۔ سیکرٹری صاحب کو بتایا گیا کہ سچر کمیٹی، اس کی سفارشات اور ان کے نفاذ کا خوب ڈھول بجنا چاہیے، مگر چھوٹی موٹی اسکیموں کے سوا عملی نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔ محمود صاحب کے بقول افسر شاہی نے من موہن سنگھ کی نیک نیتی اور مسلمانوں کی زندگی کو بہتر بنانے سے متعلق ان کی لگن کو ناکام بنادیا۔ غیر ضروری پبلسٹی نے زمینی سطح پر حالات دگرگوں کر دیے۔ اس کا ادراک بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں ہوتا ہے، جہاں اس وقت پانچ مرحلوںکے انتخابات جاری ہیں۔گزشتہ حکومت کی طرف سے اقلیتوںکی ترقی کی کاغذی سکیموں اور سچر کمیٹی کی سفارشات کی بے انتہا پبلسٹی نے ایک طرف ہندو اکثریتی طبقے میں یہ احساس پیدا کیا کہ مسلمانوں نے ان کے اور حکومتی وسائل پر قبصہ کر لیا ہے اور دوسری جانب مسلم بستیوںکی حالت زار اور کسمپرسی عیاں ہے۔
کانگریس یا دیگر ریاستی حکومتوں نے زبانی جمع خرچ اور مسلمانوں کو ہندو اکثریت کے نظروں میں مزید معتوب و مغضوب بنانے کے سوا کچھ نہیںکیا۔ بریلی کے مسلم اکثریتی علاقہ شامت گنج کی تقریباً چار لاکھ آبادی کے لیے صرف ایک بینک اور چار آے ٹی ایم ہیں۔ یہ علاقہ زردوزی کے لئے مشہور ہے۔ علی گڑھ کے جو علاقے تالے بنانے کے گڑھ سمجھے جاتے ہیں مگر ان میںکوئی بینک ہے نہ پوسٹ آفس۔ البتہ ان دونوں علاقوں میں تین چار پولیس اسٹیشن اورکئی درجن پولیس پوسٹیں قائم ہیں۔ دیو بندکے معروف وکیل ندیم اختر نے راقم کو بتایا کہ مسلمانوںکی سیاسی حالت اس قدر ناگفتہ بہ ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پتا ہے کہ مسلمان ان کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیتا اس لئے اسے ان کی کوئی پروا نہیں، اس کے لیڈروں کی کوشش ہوتی ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم اور ہندو ووٹ یکجا ہو۔ ادھر سیکولر پارٹیوںکو معلوم ہے کہ مسلمان کہاں جائے گا، ووٹ تو بہرحال انہی کو ملنا ہے، اس لئے وہ بھی ان کے سماجی اور اقتصادی مسائل کو حل نہیں کرتے۔
موجودہ انتخابات کی کوریج کے دوران محسوس ہوا کہ اتر پردیش میں مسلمانوں میں تعلیم و ترقی کے بجائے سکیورٹی کا احساس زیادہ ہے جوایک خطرناک علامت ہے۔ اگرچہ بھارتی مسلمانوںکو مسئلہ کشمیرکے حل کے حوالے سے خدشات لاحق رہے ہیں مگر ان کو یہ فکر بھی لاحق رہتی ہے کہ اگر کشمیر الگ ہوا تو ان کے لئے ملکی سطح پر منفی اثرات مرتب ہوںگے۔اکثریتی آبادی انہیں ملک دشمن، فرقہ پرست اور علیحدگی پسندوں کے طور پر دیکھے گی۔ اس طرح وہ (بھارتی مسلمان) غیر محفوظ ہوکر رہ جائیںگے۔ غرض مسلمانوںکی غالب اکثریت جموں و کشمیر کے سیاسی مسئلے کو عدل وانصاف سے زیادہ اس کے خود پر پڑنے والے اثرات کے نقطہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔ حتی کہ کبھی یہ خدشہ بھی لاحق ہونے لگتا ہے کہ مسئلہ کشمیر حل ہونے کی صورت میں انہیں ہندو انتہا پسندوں سے زیادہ کہیں بھارتی مسلمانوں کی قیادت سے شدید ترین مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیر میں نوجوانوں کی مزاحمت اور اس کو دبانے کے لئے پیلٹ گنوں کے استعمال کے باعث بصارت سے محرومی کی جو تصویریں سامنے آئیںانہوں نے بھارت کے مسلمانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ متعدد علاقوں کا مسلمان نوجوان سوال پوچھ رہا ہے کہ نہتے مظاہرین کے ساتھ ایسا برتائو صرف کشمیر میں ہی کیوں؟ جبکہ ملک کے دیگر علاقوں میں اسی مدت کے دوران پر تشدد ہجوم پرکبھی پیلٹ گنوںکا استعمال نہیں ہوا۔
اب یہ اہم سوال مسلمانوں کے سامنے ہے کہ کیا وہ سیکولر پارٹیوں کا دامن تھامے رکھیں، جنہیں ان کی تعلیم و ترقی سے کوئی دلچسپی نہیں اور جو ان کو صرف ووٹ بینک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ کیرالا واحد صوبہ ہے جہاں مسلمانوںکی اپنی سیاسی جماعت ہے اور چونکہ اس صوبہ میں مخلوط حکومت ہی اقتدار میں آتی ہے، اس لئے یہ حکومت میں شریک بھی رہتی ہے۔ یہاں مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی صورت حال خاصی بہتر ہے، مگر شمالی بھارت یا کسی دوسرے صوبے میں ایسی سیاسی جماعت بنانا فی الحال ناممکن ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ہندو خوف کی نفسیات میں مبتلا ہوکر فرقہ پرست جماعتوں کا دامن تھام کر مسلمانوں کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔ معروف مصنفہ ارون دھتی رائے کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے بھارت میں ''مظلوموںکا اتحاد‘‘ قائم کرنے کا وافر موقع ہے کیونکہ مسلمانوںکی طرح دلت اور قبائلی بھی موجودہ نظام کا شکار ہیں۔ اس طرح کا کوئی اتحاد بھارت میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔
مسلمانوں کے لئے دوسرا حربہ یہ ہے کہ منفی ووٹ دینے کے بجائے بی جے پی اور دائیں بازوکی دیگر جماعتوں میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھائیں۔ مگر بقول پروفیسر اختر الواسع اس میں سب سے بڑی رکاوٹ بی جے پی خود ہے جس نے شدت پسند ہندو نظریات کو اپنا محور بنایا ہوا ہے اور اس میںاقلیتوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بے جے پی کی پچھلی اوتار یعنی بھارتیہ جن سنگھ، بھارتی سیاست میں 50 کی دہائی سے لے کر 80 تک دائیں بازو کی اہم جماعت تھی جس کے اعلیٰ عہدوں پر کئی مسلمان بھی براجمان تھے۔ اندرا گاندھی کے خلاف 1977ء کے انتخابات میں مسلمانوں اور دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید عبداللہ بخاری نے جن سنگھ کے امیداروں کے حق میں مہم چلاکر جتا بھی دیا۔ بقول اخترالواسع 1984ء میں اندرا گاندھی کی ہلاکت کے بعد صرف دو لوک سبھا سیٹوں تک سمٹنے سے بی جی پی میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی اور اس نے ہندو شدت پسندی کو گلے لگا کر رام مندرکی تحریک کو ہوا دے کر مسلمانوںکو معتوب و مغضوب بناکر ووٹ بٹورنے کا کام کرنا شروع کر دیا۔
مودی حکومت کے بنتے ہی گھر واپسی،لو جہاد،گئو کشی جیسے نعروں کے ساتھ بی جے پی نے اپنی مہم شروع کردی، اقلیتوں کوعام طور پر اور مسلمانوں کو خاص طور پر نشانہ بنانا شروع کردیا۔ دلتوںکو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انہیں مارا پیٹا گیا اور ان کی حیثیت پر سوالات اٹھاگئے۔ اب اس الیکشن میں وزیر اعظم نریندر مودی نے شمشان اور قبرستان کا مسئلہ کھڑا کرتے ہوئے واضح طور پر ہندو مسلم قضیہ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ قبرستان کی اراضی وقف ہوتی ہے، اسے تجاوزات سے بچانے کے لئے چار دیواری ریاستی حکومت کرارہی ہے، اس کو شمشان سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔
ملی کونسل کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر منظور عالم کے بقول وزیر اعظم اس طرح کے بیانات دے کر مسلمانو ں اور دیگر طبقوں کے درمیان دوری پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بے جے پی کے سربراہ امیت شاہ نے بھی کہا ہے کہ ان کی حکومت بننے پر ذبح خانہ بند ہوںگے۔ بہرحال وقت کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم مودی اوران کی پارٹی کے لیڈرز اپنے ضمیر سے سوال کریں کہ کیا 20 کروڑ مسلمانوں کو خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھ کر وہ بھارت کو ایک سپر پاور بنانے کا خواب پورا کر سکیںگے؟ مسلمان لیڈروں کو بھی اپنے اندر جھانک کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا سیکولر پارٹیوں کا دم چھلہ بن کر وہ قوم کا بھلا کرسکیں ہیں؟کیا ابھی وقت نہیں آیاکہ ایک متبادل سٹریٹیجی تیار کرنے پر سنجیدہ غور و خوض کیا جائے؟