جاڑے ابھی تک آئے بھی نہیں تھے کہ رخصت بھی ہو گئے بلکہ ع
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی
دھوپ صبح کو تو اچھی لگتی ہے مگر چند روز تک باقاعدہ کاٹنے کو دوڑے گی۔ ہاں اگر ایک آدھ بارش ہو جائے تو خنکی چند دن اور بھی ٹھہر سکتی ہے۔ بسنت منائی تو نہیں گئی تاہم من چلے پابندی کے باوجود پتنگیں اڑاتے بھی رہے اور پکڑے بھی جاتے رہے۔ بہار کی آمد آمد ہے‘ سو اسی کو غنیمت سمجھتے ہیں۔ اسٹرس کا پھل ابھی پوری طرح اُترا بھی نہیں تھا کہ نئے پھول بھی نکل آئے۔ ہیں‘ گویا یہ واحد پودا ہے جو سال بھر پھلتا پھولتا رہتا ہے۔
''دنیا‘‘ کے سنڈے میگزین میں فن و ادب کا مسالہ کچھ زیادہ ہی لگ گیا جو اپنی جگہ نہایت خوش آئند ہے یعنی یٰسین حمید اور عثمان پیرزادہ کا انٹرویو اور کرشن چند کی تحریر اور پھر سب سے بڑھ کر ادبی اداروں کے حوالے سے صہیب مرغوب کا مضمون۔ مزید یہ کہ 'ڈانسنگ گرل واپس کرو‘ والا مضمون اور دنیائے سخن میں علی اکبر ناطق کی دو خوبصورت نظمیں۔ ناطق کا ناول ''نولکھی کوٹھی‘‘ بھی اس میں قسط وار شائع ہوتا رہا ہے لیکن اس کی آخری قسط چھپنے سے رہ گئی جس میں اس ناول کا کلائمکس تھا اور پتا چلتا کہ بوڑھا جو اس کا ہیرو تھا‘ ہے کون۔ یہ قسط بھی ضرور چھپنی چاہیے۔ علی اکبر ناطق جو اوکاڑہ کے یعنی اپنے گرائیں بھی ہیں، کل ملنے کے لیے بھی آئے۔ تقریب ملاقات یہ بھی رہی کہ
راجوری، جموں کشمیر سے عمر فرحت کی ادارت میں شائع ہونے والے ایک نہایت سمارٹ رسالے ''فہیم‘‘ کے دو شمارے بھی لائے‘ ایک میرے اور ایک اقتدار جاوید کے لیے۔ ٹائٹل پر ناطق کی تصویر ہے اور اندر اس کے گوشے میں ایڈیٹر کا مضمون جو بالخصوص تعارفی ہے‘ کے علاوہ موصوف کا ایک افسانہ بعنوان ''چونے کا گڑھ‘‘ اور چار نظمیں۔ رسالے کی سرپرست ہمارے دوست شمس الرحمن فاروقی ہیں اور اعزازی مدیر شاعر ڈاکٹر لیاقت جعفری۔ میری دو غزلیں ہیں اور اقتدار جاوید کی دو نظمیں۔ حصہ نثر میں ''شوخی و بذلہ سنجی و آزادگی‘‘ کے عنوان سے گوپی چند نارنگ کا مضمون ہے جس میں غالبؔ کی شوخی و ظرافت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ''ساختیات کا بنیاد گزار‘‘ کے عنوان سے عتیق اللہ کا مضمون ہے جس میں ساسیٔر کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے جبکہ ابوالکلام قاسمی نے اردو کی جدید نظم میں 'خیر کا تصور‘ کے موضوع پر مضمون باندھا ہے۔ اس کے بعد محمد حمید شاہد کا مضمون بعنوان اردو افسانے کا ''مابعد الطبیعاتی آہنگ‘‘ درج ہے جبکہ انتخاب حمید خاں میں عتیق اللہ کے شعری سفر کی ثقافتی جہتیں پر بات کی گئی ہے۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر کے مضمون کا عنوان ہے ''معاصر نظم‘ نو آبادیات اور روایت کی بازیافت‘‘۔ اس کے علاوہ صلاح الدین درویش نے 1857: تناظرات‘ مسائل اور اُردو ناول کو موضوع بنایا ہے جبکہ عمران فرحت کا قاضی افضال حسین سے گفتگو ہے۔ ''باب سخن‘‘ کے زیرعنوان احمد مشتاق، عتیق اللہ، رفیق راز‘ جینت پرہار‘ عرفان
ستار‘ ضیاء المصطفی ترک‘ لیاقت جعفری اور اظہر اقبال کی غزلیں اور نصیر احمد ناصر، خلیل مامون‘ جینت پرہار‘ سلیم نگار‘ عادل رضا منصوری اور امتیاز نسیم ہاشمی کی نظمیں ہیں۔ علاوہ ازیں نئے نام کے زیرعنوان مہندر کمارثانی اور سید طیفور اشرف کی دو دو غزلیں ہیں اور ہمدم کاشمیری کے ''ورق سادہ‘‘ پر فضیل جعفری کا تبصرہ۔ آخر میں ''نامے‘‘ کے عنوان سے نیر مسعود‘ خاکسار‘ انتظار حسین‘ فضیل جعفری‘ نصیر احمد ناصر‘ مرزا حامد بیگ‘ کرشن کمار طور‘ محمد حمید شاہد اور ہمدرد کاشمیری کے خطوط‘ البتہ میرا خط نہیں ہے کیونکہ میں ایڈیٹر کے نام خط وغیرہ نہیں لکھتا۔ یہ ''تفہیم‘‘ کے گزشتہ شمارے پر میرا کالم تھا۔
حصہ غزل میں سے کچھ منتخب اشعار دیکھیے:
ایک قطرے کو چھیڑنے کے لیے
کیسی کیسی ہوائیں آتی ہیں
(احمد مشتاق)
صبح دم دھوپ کی ہتھیلی پر
لفظ کا اک گلاب مہکا تھا
ابھی ساتھ چلتی تھی کاغذ کی نائو
ابھی صرف اُس کا دُھواں رہ گیا
(جینت پرمار)
ہر ایک گام اہانت پہ شُکر واجب ہے
ملامتی ہیں‘ ملامت پہ شُکر واجب ہے
عطا ہوئی ہے‘ وگرنہ کسی کو کم ہے نصیب
ہم اہل دل کو محبت پہ شُکر لازم ہے
اُس دلارام کی رفاقت میں
ہجر تہوار سا منایا تھا
(ضیاء المصطفیٰ ترک)
ایک کونپل سجائی اچکن میں
ایک خنجر قبا میں رکھا گیا
مشتہر کی گئیں دعائیں بہت
اور اثر بددُعا میں رکھا گیا
(لیاقت جعفری)
کچھ عرصہ پہلے ہم نے اسی کالم میں علی اکبر ناطق کو پیش آنے والے ایک المیے کے حوالے سے لکھا تھا کہ ان کی حقیقی بڑی بہن کو ان کے شوہر نے پہلے ایک دو کروڑ کا بیمہ کرایا اور پھر نہایت بیدردی سے اُسے قتل کر دیا تاکہ بیمے کی رقم ہضم کر سکے۔ یہ دیپالپور کا واقعہ بلکہ سانحہ ہے جہاں اس وقوعے کا پرچہ درج ہوا، تفتیش ہوئی، جس دوران وہاں کے اے ایس پی مسٹر وہاب نامعلوم وجوہ کی بناء پر اسے خراب کرنے کے درپے ہو گئے۔ اے ایس پی کوئی پروموٹی نہیں ہیں بلکہ سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے ڈائریکٹ تعینات ہوئے ہیں‘ اس لیے اس عہدے کے ساتھ ایک انفرادیت اور وقار بھی وابستہ ہے۔ اگر مدعی فریق کی شکایت درست ہے تو یہ ان کے لیے نہایت نامناسب بات ہے۔ کیونکہ مدعی اگر سچا ہو تو پولیس کو ویسے بھی مدعی فریق کا ساتھ دینا چاہیے۔ علی اکبر ناطق ہمارے ملک کے نامور شاعر، افسانہ و ناول نگار ہیں اور یہ اُن کا ذاتی کیس ہے۔ مقدمہ سی آئی اے اوکاڑہ کے پاس ہے۔ ضلع کے ڈی پی او رانا فیصل بہت اچھی شہرت کے مالک ہیں جبکہ واقعہ پوری طرح کھُل کر سامنے آ چکا ہے۔
اگلے روز ایک فون آیا۔ نحیف سی آواز تھی۔ میری دانست میں یہ گلزار بخاری تھے۔ میں نے ان سے معذرت کی کہ کلیات بشیر بدر جو میں نے عادتاً اُن سے لی تھی اور واپسی کے لیے اُن کے گھر کا پتا بھی دریافت کیا تھا جو انہوں نے میسج کر بھی دیا لیکن کہیں ڈی لیٹ ہو گیا۔ اُن سے عرض کیا کہ ایڈریس براہ کرم دوبارہ عنایت کریں تاکہ کتاب کسی کے ہاتھ روانہ کر سکوں۔ جب ایڈریس آیا تو وہ کراچی کا تھا اور محبی سلیم کوثر کا۔ میں بیحد شرمندہ ہوا۔ اُنہیں فون کر کے معذرت کی تاہم ان کا کہنا تھا کہ یہ میرے لیے باعث عزت ہے کہ آپ سے دوبارہ بات ہو گئی۔ اللہ میاں ان دونوں نہایت عمدہ شاعروں کو علالت سے نجات دلائے اور صحت کاملہ عطا کرے۔ سلیم کوثر نے ایک نہایت عمدہ اور حسب حال شعر بھی سنایا۔ ذرا دیکھیے:
ٹھیک ہو جائوں گا میں‘ اس لیے بیمار ہوا
آج کا مقطع
کچھ بھی نہیں بچا، ظفرؔ
نکلی چِٹی رڑی ہے