تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     01-03-2017

میدان جنگ سے کرکٹ کے کھیل تک (پہلی قسط)

آخر کار نجم سیٹھی نے پاک بھارت جنگوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے، پنجاب کی انتظامیہ کواس بھوت پھیری میں مبتلا کر ہی لیا کہ ''ہمیں دہشت گردوں نے للکارا ہے۔ اس لئے ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اگر لاہور میں فائنل رائونڈ کے لئے مقابلہ نہ ہوا‘ تو یہ اہل لاہور کی سبکی ہو گی۔‘‘ کرکٹ بہت سے لوگوں کا ذریعہ آمدنی ہے۔ پاکستان میں انٹرنیشنل میچوں کا تعطل ، کرکٹ کے خوانچہ فروشوں کے لئے تنگی کے دن تھے۔ وہ پاک بھارت مقابلے بازی کے جذبے کو استعمال کرتے ہوئے، دونوں حکومتوں اور برسراقتدار طبقوں کو گھیر کے، اس مقابلے میں اتارنے پر بضد تھے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقوں نے اپنے اپنے عوام کو لوٹنے کے لئے باہمی محاذ آرائی کا ماحول پیدا کیا۔ بھارتی لیڈروں کی وہ نسل جو تقسیم ہند کے تصورات کے زیراثر کشمیر کے تنازعہ کے حل کی جستجو میں تھی‘ انہیں جال میں پھنسا کر جنگ میں الجھا دیا گیا۔ اگر آپ یاد کریں‘ تو کشمیر کا جھگڑا آسانی سے مذاکرات کے ذریعے طے ہو سکتا تھا۔ بھارتی قیادت اس کے لئے تیار تھی۔ لیکن پاکستان کے حکمران طبقے بڑی بیتابی سے کشمیر کے تنازعے کی آگ بھڑکا کر، ہندومسلم تنازعات کی روشنی میں دونوں ملکوں کے درمیان جنگی ماحول اور کشیدگی پیدا کرنے کے درپے تھے۔ کشیدگی کی اس تھیوری میں امریکہ اور بھارت کے حکمران طبقوں کو مچھلیاں پکڑنے کے آسان طریقے دکھائی دیئے اور انہوں نے اس پر عمل بھی کیا۔ دلی اورکراچی کی حکومتیں(تب پاکستان کا دارالحکومت کراچی میں تھا) کشمیر کا معاملہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کے حق میں تھیں۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان دونوں ہی یہ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنا چاہتے تھے۔ یہی صورتحال بھارت میں کانگریسی قیادت کی تھی۔ لیکن دونوں ملکوں کے انتہاپسند ، بیتابی سے جنگ کا ماحول پیدا کرنے کے خواہش مند تھے۔ پاکستان کے حکمران طبقوں نے پہل کی اور پاک فوج کے کمانڈروں کو ورغلایا کہ وہ کشمیر پر قبضہ کرنے کی ترکیب آزمائیں۔ اگر آپ کو یاد ہوتو قائد اعظمؒ کو مشورے دیئے گئے تھے کہ کشمیر پر بزورقوت قبضہ کر کے، پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے۔ 
اس وقت کی سیاسی قیادت پرامید تھی کہ مذاکرات کے ذریعے کشمیر میں استصواب رائے پر اتفاق رائے کر لیا جائے گا۔ اس کے امکانات بھی تھے۔ لیکن اس وقت کی فوجی قیادت ہر قیمت پر بھارت کے ساتھ محاذ آرائی چاہتی تھی۔ چنانچہ چند کمانڈروں نے سیاسی قیادت کی رضا اور منشا کے بغیر قبائلیوں کو ورغلا کر ، کشمیر میں داخل کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے موجودہ آزادجموں کشمیر میں بغاوت کر کے جہاد کشمیر کا نعرہ لگا دیا۔ قبائلی اور فوج کے ماضی کے باغی افسران سے مل کرمہاراجہ کے زیراثر علاقوں میں مداخلت شروع کر دی۔جن قبائلیوں کے بارے میں بتایا جا رہا تھا کہ وہ مجاہدین اسلام ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کرنے گئے ہیں، ان کے اہداف دوسرے تھے۔ انہوں نے یہ دیکھے بغیر مہاراجہ کے زیرکنٹرول علاقوں پر قبضہ کیا ، جہاں مہاراجہ کی پولیس اور نیم فوجی دستے مزاحمت کے لئے دستیاب تھے۔ جن قصبوں اور دیہات پر قبائلی مجاہدین نے قبضے کئے۔ وہاں پر انہوں نے اندھادھند لوٹ مار کی اور یہ دیکھے بغیر کہ نشانہ ہندو ہیں یا مسلمان؟ نہتی آبادیوں میں اندھادھند لوٹ مار مچائی۔ ان کا قیمتی سامان لوٹا اور ان کی جوان بیٹیاں اغوا کر کے، پاکستان پہنچانا شروع کر دیں۔ ان دنوں جن لوگوں نے ''جہاد کشمیر‘‘ کا مشاہدہ کیا، وہ راوی ہیں کہ راولپنڈی 
کے راجہ بازار میں بھارت سے آئے ہوئے سامان اور لڑکیوں کی باقاعدہ نیلامی ہوا کرتی تھی۔ جو بڑی بولی دیتا، وہ نیلامی کا مال حاصل کر لیتا۔ پاکستان کے سابق اعلیٰ فوجی افسران براہ راست امریکیوں کے ساتھ رابطے میں آ گئے اور انہوں نے تیز رفتاری سے نئے محاذ کھول کر کشمیر کے مہاراجہ کے زیراثر علاقوں پر قبضہ جمانا شروع کر دیا۔ وہ بھاگتا ہوا دلی گیا اور وہاں کے حکمرانوں کوتیار کیا کہ وہ ریاست پر کنٹرول قائم کریں۔ مہاراجہ نے دلی کے حکمرانوں کو دعوت دی کہ وہ کشمیر پر فوری قبضہ کر کے، اس مسئلے کا حل نکالیں۔ مہاراجہ جو ریاست کو خودمختار رکھنے کے حق میں تھا، بھارتی قیادت کی جانب سے فوجی مداخلت قبول کرنے پر تیار ہو گیا۔ دوسری طرف مجاہدین کا قوم پرست گروپ سری نگری کے ہوائی اڈے تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ مہاراجہ نے حالات اپنے قابو سے باہر ہوتے دیکھ کر، بھارتی قیادت سے فوری مداخلت کی درخواست کی اور یوں بھارت نے اپنی ایئرفورس کے دستے بلاتاخیر سری نگر کے ہوائی اڈے پر اتار دیئے اور اس کے ساتھ ہی بھارتی فوجوں کی آمد شروع ہو گئی۔ جس کے بعد مہاراجہ بھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس کے بعد شطرنج کی بساط پر مہرے تیزی سے پوزیشنیں بدلتے گئے۔ پاکستان کی فوجی قیادت ایک طرف امریکیوں کے ساتھ رابطے میں تھی، دوسری طرف سیاسی قیادت پر بھی دبائو ڈال رہی تھی کہ وہ کشمیر میں مداخلت کا فیصلہ کریں۔ ایک طرف کشمیر پر فوجی قبضے کے حامی پاکستان کی سیاسی قیادت پر دبائو ڈال رہے تھے۔ دوسری طرف بھارت کے انتہاپسند، کانگریسی قیادت کو مجبور کر رہے تھے کہ وہ کشمیر پر قبضہ جمائیں۔ 
پاکستانی فوج کشمیر پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔ جبکہ بھارت کی بنی بنائی فوج مہاراجہ کا تعاون حاصل ہونے پر تیزی کے ساتھ کشمیر پر قابض ہوتی گئی۔ امریکہ کو جب راولپنڈی کی طرف سے آمادگی کے اشارے ملنے لگے‘ تو ماسکو کی قیادت بھی حرکت میں آئی اور اس طرح دو بڑی طاقتوں کے درمیان کش مکش کے سائے برصغیر پر گہرے ہونے لگے۔ بعد کی کہانی دردناک بھی ہے اور طویل بھی۔ طویل اس لئے کہ یہ ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ ابھی اور نہ جانے کتنا انسانی خون اس قضیئے کی نذر ہو گا؟ تقسیم کے وقت کسی کے ذہن میں یہ نہیں تھا کہ دونوں نئے ملک ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں الجھیں گے۔ لیکن سازشی افسروں اور دونوں ملکوں کے حکمران طبقوں کے مفادات کے باعث جنگ میں پھنستے چلے گئے۔ بھارت جس کے ماسکو کے ساتھ پہلے ہی سے دوستانہ تعلقات تھے ، اسے واشنگٹن سے بھی تعاون کا اشارہ مل گیا اور یوں اقوام متحدہ میںایک نئے عالمی کھیل کا آغاز ہوا۔ سلامتی کونسل میں سوویت یونین اور امریکہ نے مل کر پاکستان کے خلاف ایک بھیانک ڈرامہ کھیلا، جو ابھی تک ختم ہونے میں نہیں آیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ ایک بات واضح ہوتی گئی کہ کشمیر میں جنگ کے ذریعے پاکستان اور بھارت نے جن جن علاقوں پر قبضے کئے تھے، دونوں کی رضامندی سے اقوام متحدہ نے فائربندی کے نام سے ایک مستقل سرحد قائم کر دی۔ جسے بدلنا اب نہ کشمیری عوام کے اختیار میں رہ گیا ہے۔ نہ ہمارے۔ بھارت اپنی فوجی طاقت میں اندھادھند اضافہ کرتا ہوا، اب اس پوزیشن میں آ گیا ہے کہ جب چاہے کشمیر کی موجودہ سرحدوں کو مستقل کر دے۔ مگر جیسے جیسے پاکستان کے داخلی بحران میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، بھارت کے عزائم بھی بدلنے لگے ہیں۔ تادم تحریر وہ مقبوضہ کشمیر پر اپنے قبضے کی وجہ سے بہتر پوزیشن میں ہے۔ لیکن تاریخ جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے، اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر کو فوجی طاقت کے ذریعے بھارت سے آزاد کرانے میں کامیابی کی پوزیشن میں نہیں آیا۔ فی الحال اس کا امکان بھی نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے ظالم حکمران طبقے،مقبوضہ کشمیر میں جدوجہد آزادی کے لئے قربانیاں دینے والے مظلوم عوام سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ مگر حقائق کچھ اور ہیں۔ پاکستان میں قومی یکجہتی مدتوں سے بحرانوں کی لپیٹ میں رہتی ہے اور آج بھی یکجہتی میں اضافے کے امکانات زیادہ روشن نہیں ہیں۔(جاری)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved