تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     01-03-2017

جیلانگ

غالبؔ نے کہا تھا ع
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
یہاں مقدور ہوتا تو جیلانگ کے ساحل پر‘ ایسٹرن بیچ روڈ کے کنارے‘ سب سے اوپر کی کسی منزل پر ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ خریدتا‘ باقی شب و روز وہیں گزارتا اور ظفر اقبال کی زبان میں کہتا ع
انہی رواں دواں لہروں پہ زندگی کٹ جائے
ریاست وکٹوریہ کے اس دوسرے بڑے شہر کا کیا ہی کہنا! خوبصورتی اگر کوئی لفظ ہے تو یہیں بنا ہو گا۔ گھروں کے گرد لکڑی کی چار دیواریاں! ان کے اوپر سنہری اور سرخ سیبوں کے جُھنڈ! مکانوں میں کمروں اور صحنوں کے درمیان لکڑی کے بڑے بڑے چبوترے ! ان چبوتروں پر معصوم من موہنے چھپر! چھپروں کے اوپر انگور کی سبز بیلیں! بیلوں پر لٹکتے گُچھے! قصبے پر چھائی ہوئی ایک بسیط خاموشی ! جیسے ہر مکین کو معلوم ہے کہ کرخت کھردری آواز میں بات کی تو شہر بُرا منائے گا‘ اور سب سے بڑھ کر جیلانگ کا بیچ! چٹا گانگ کے کاکسس بازار سے لے کر روم کے ساحل تک کتنے ہی سمندری کنارے دیکھ ڈالے مگر جیلانگ کے ساحت کی گرفت ہی اور ہے۔ بڑی شاہراہ اور پانی کے درمیان سڑکیں ہیں اور سبزہ زار۔ سامنے سمندر ہے‘ بحرالکاہل کا وہ حصّہ جو آسٹریلیا کے جنوب میں پڑتا ہے! فضا مصفّیٰ‘ ہوا ایسی کہ معشوقوں کی زلفوں میں راستہ بنائے۔ لہریں چاندی کی بنی ہوئیں! ان کے اوپر آسمانی پرندے نیچی پروازیں کرتے ہوئے ! کنارے کے سبزہ زار خلقِ خدا سے اٹے ہوئے مگر شاید ہی کوئی دو آنکھیں ایسی ہوں جو سامنے سمندر کو نہ دیکھ رہی ہوں۔ سمندر ! جس کے اس پار جزیرے ہیں۔ سمندر! جس کے سینے پر کشتیاں‘ سٹیمر اور جہاز ہیں! خودکشی کر لینے والا شاعر‘ ثروت حسین کہ یارِ عزیز تھا‘ یاد آ گیا ؎
آنکھوں میں سوغات سمیٹے اپنے گھر آتے ہیں
بجرے لاگے بندرگاہ پر سوداگر آتے ہیں
گندم اور گلابوں جیسے خواب شکستہ کرتے
دور دراز زمینوں والے شہر میں در آتے ہیں
شہزادی! تجھے کون بتائے تیرے چراغ کدے تک
کتنی محرابیں پڑتی ہیں‘ کتنے در آتے ہیں
دنیا بھر سے سیاح آ کر جیلانگ کے چرنوں کو چھوتے ہیں۔ اس کی لہروں کی آغوش میں اپنے غموں کا مداوا پاتے ہیں۔ اس کی ٹھنڈی‘ ریشمی ریت پر دراز ہو کر تیرتے ہوئے ابر پاروں کو دیکھتے ہیں‘ ان سے اپنی کہانیاں بانٹتے ہیں اور دکھ شیئر کرتے ہیں۔ جن کی استطامت ہو‘ کنارِ آب پر بنے ہوئے گھروں میں کچھ دن گزار کر آرزوئوں کو سرخ رو اور آلام کو نگوں سر کرتے ہیں ؎
بنی ہوئی ہیں کنارِ دریا پہ خواب گاہیں
کُھلے ہوئے ہیں وصال کے در سفر کی جانب
دو مقامات اس کے علاوہ تھے جہاں جی چاہا کہ زندگی وہیں گزار دی جائے! ایک ان میں سے خیوا اور ارگنچ کے جڑواں شہر ہیں۔ ارگنچ کے ایک چوک پر محمد الخوارزمی کا مجسمہ ہے جس نے نویں صدی میں الجبرا کو تبدیل کر کے رکھ دیا اور دوسرے چوک پر جلال الدین خوارزم شاہ کا مجسمہ جو اس وقت کے عالمِ اسلام میں چنگیز خان کو للکارنے والا واحد مسلمان حکمران تھا! اسی کی برسی پر ازبک حکومت نے بین الاقوامی کانفرنس میں مضمون پڑھنے کے لیے مدعو کیا تھا۔ فارسی ادب جیحوں کے ذکر سے بھرا پڑا ہے۔ عامی اسے آمو کہتے ہیں! ارگنچ جیحوں کے کنارے آباد ہے۔ ہوا بے مثال ہے۔ پانی‘ آبِ حیات سے ایک آدھ آنچ ہی کم! پھل ایسے کہ ششدر کر دیں اور لوگ ایسے جیسے کسی سیارے سے اُترے ہوں۔ جیحوں کے کنارے یہ قلم کار چلتا جاتا تھا اور شعر تھے کہ ابر پاروں‘ درختوں‘مکانوں کی سبز پوش چھتوں سے اتر اتر کر لفظوں میں ڈھلتے تھے ؎
اس خاک کی دنیا سے جدا اُس کی ہوا تھی
کیا حسن تھا خوارزم میں کیا اس کی ہوا تھا
آنکھوں سے کہ تھا دل سے نکلتا ہوا جیحوں
تھا خون رگوں میں کہ بپا اس کی ہوا تھی
منظر کو تو جیسے بھی ہوا جھیل گیا تھا
جس نے مجھے مارا بخدا اس کی ہوا تھی
کیا بخت تھا چلتا تھا میں جیحوں کے کنارے
چُھوتی تھی بدن کو جو ہوا‘ اُس کی ہوا تھی
کیا تخت تھا پانی پہ بچھا تھا مری خاطر
کیا زلف تھی ‘ کیا زلف کُشا اس کی ہوا تھی
میوے تھے کہ رخسار تھے وحشت تھی کہ لب تھے
یا وقت کوئی اور تھا یا اس کی ہوا تھی
دوسری جگہ جہاں آباد ہونے کے لیے دل مچلا کینیڈا کا چھوٹا سا‘ ننھا منا جزیرہ‘ وکٹوریہ ہے جو بی بی سی(بیوٹی فُل برٹش کولمبیا) کا دارالحکومت ہے۔ اس صوبے کا بڑا شہر تو وینکوور ہے مگر صوبائی حکومت وکٹوریہ کے جزیرے میں ہے۔ کنارے سے فیری چلتی ہے جو بحرالکاہل کا سینہ چیرتی وکٹوریہ کے ساحل پر آ لگتی ہے۔ پورا جزیرہ خوابیدہ ہے! سویا ہوا اور رنگین خوشنما خواب دیکھتا! اس قدر سکون اور خاموشی ہے اور اس درجہ دھیما پن اور دھیرا پن ہے کہ کسی اور ہی سیارے کا گماں ہوتا ہے۔ محاورہ یہ ہے کہ وکٹوریہ میں یا تو نوبیاہتا جوڑے آتے ہیں یا بوڑھے ! یعنی
Newly Wed and Nearly Dead!
دنیا بھر سے صاحبِ استطاعت ریٹائرڈ حضرات کھنچے چلے آتے ہیں! ایک خوبی شہر کی یہ ہے کہ جہاں چلے جائیں‘ محسوس ہوتا ہے جیسے باغ میں پھر رہے ہیں!
جیلانگ پلٹتے ہیں۔ اس کی عمر ایک سو اسی برس ہے(خود آسٹریلیا بھی اتنا بوڑھا نہیں۔ دو سو تیس سال پہلے اس کا وجود ہی نہ تھا) جیلانگ کی ایک صفت یہ ہے کہ ساحل ‘ شہر کا مرکز اور ریلوے اسٹیشن سب ساتھ ساتھ ہیں گویا وہی حال ہے جو ضمیر جعفری نے اومان کا بتایا تھا ؎
اک طرف پہاڑی ہے اک طرف سمندر ہے
اس کے بعد جو کچھ ہے بس انہی کے اندر ہے 
ٹرین پر بیٹھیں تو ایک گھنٹے میں میلبورن کے سٹی سنٹر میں پہنچا جا سکتا ہے۔ مشہور و معروف ڈِیکن یونیورسٹی نے جیلانگ میں ''واٹر فرنٹ کیمپس‘‘ قائم کیا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب جیلانگ اُون کے لیے جانا جاتا تھا۔ اس وقت اُون کا ذخیرہ کرنے کے لیے بڑی بڑی عظیم الجثہ عمارتیں بنتی تھیں۔ ایسی ہی عمارتوں کا ایک جھنڈ جو انیسویں صدی میں تعمیر ہوا تھا۔ اب ''واٹر فرنٹ کیمپس‘‘ ہے۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار طلبہ کے اس کیمپس میں سوا تین سو تعداد پروفیسروں کی ہے۔
جیلانگ کے ساتھ وابستہ ایک دلچسپ واقعہ کا ذکر ضروری ہے۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں‘ آسٹریلیا ابتدا میں برطانوی مجرموں کے لیے آباد کیا گیا تھا۔ گویا یہ ان کا ''کالا پانی‘‘ تھا۔ ''جرائم‘‘ مضحکہ خیز ہوتے تھے۔ ایک چودہ سالہ نوجوان ولیم بک لے کو کپڑے کا تھان چرانے کے جرم میں پکڑا گیا اور بحری جہاز میں لاد کر آسٹریلیا بھیج دیا گیا۔ یہ جہاز1803ء میں جیلانگ کے علاقے میں لنگر انداز ہوا۔ ولیم بک لے اور کچھ دیگر قیدی جہاز سے بھاگ نکلے۔ ان کا تعاقب کیا گیا۔ کچھ تعاقب کرنے والوں کی فائرنگ سے مر گئے اور کچھ روپوش ہو گئے۔ بہرطور‘ سرکار کے کاغذوں میں بک لے مردہ قرار دیا گیا۔
یہ سارا علاقہ آسٹریلیا کے اصل باشندوں اَیبورِجنی قبیلوں سے بھرا ہوا تھا۔ یہ مردے کو قبر میں دفن کرنے کے بعد قبر پر نیزہ رکھ دیتے تھے۔ ایسی ہی ایک قبر سے بک لے نے نیزہ اٹھا لیا اور اسے چھڑی اور ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے لگ گیا۔ اس کا سامنا کچھ قبائلی عورتوں سے ہوا جنہوں نے نیزے کو پہچان لیا۔ عقیدہ ان کا یہ تھا کہ مردہ کسی دوسرے وجود میں دوبارہ ظاہر ہوتا ہے۔ بک لے کو ان عورتوں اور ان کے قبیلے نے اپنے مرے ہوئے رشتہ دار کا مقدس نعم البدل سمجھا۔ اس کا استقبال کیا اور اسے اپنا لیا۔بک لے بتیس برس ایبو رجنی قبیلوں کے ساتھ رہا۔ وہ معزز ترین فرد سمجھا جاتا اور قبائلی لڑائی جھگڑوں میں ثالثی کا کردار ادا کرتا۔ سب اس کی بات مانتے۔ ان 32 برسوں میں وہ ایبورِجنی زبان اچھی طرح سیکھ گیا اور قبائلی ہتھیاروں کا بھی ماہر ہو گیا۔پھر وہ اس زندگی سے اکتا گیا اور برطانوی حکومت کے نمائندوں کے سامنے پیش ہو گیا۔ قد اس کا چھ فٹ پانچ انچ تھا۔ حد درجہ بدصورت تھا۔ ابروئوں کا چھجہ تھا جیسے آنکھوں کو ڈھانپنے ہی والا تھا۔ ماتھا تنگ تھا۔ آنکھیں چھوٹی تھیں۔ بال عجیب سے تھے۔ چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ دیکھنے میں ڈاکو لگتا تھا۔ جب وہ حکومتی نمائندوں کے پاس آیا تو اس نے کنگرو کی کھال اوڑھی ہوئی تھی اور ایبو رجنی ہتھیاروں سے مسلح تھا۔ تعارف کرایا تو کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔ آخر کار بازو پر کُھدا ہوا ٹیٹو (Tattoo) دکھایا جو اس کے نام کے شروع کے حرفوں ڈبلیو اور بی پر مشتمل تھا۔ بک لے کو بھاگنے کے جرم پر ریاست نے معاف کر دیا۔ وہ طویل عرصہ تک مقامی قبائل کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے سرکاری ترجمان کے طور پر کام کرتا رہا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved