تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-03-2017

کرکٹ اور دہشت گرد

بظاہر وہ ایک عام سے دن کا آغاز تھا، صبح سویرے گھر سے نکل کر میں اپنے دفتر پہنچا، معمول کے مطابق کسی نے میرے ہاتھ میں چائے کا کپ دیا اور میں اسٹوڈیو میں جا کر اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گیا۔ اس وقت میں جس ٹی وی چینل کے لیے کام کرتا تھا، وہاں میری پیشہ ورانہ ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ صبح آٹھ بجے کے ایک پروگرام میں بطور تجزیہ کار شرکت کروں۔ جب میں کیمرے کے سامنے بیٹھ چکا تو مجھے بتایا گیا کہ اس پروگرام کی میزبان پارس خورشید (جو شادی کے بعد پارس جہانزیب ہوچکی ہیں اور بڑے ٹی وی اینکرز میں شمار ہوتی ہیں) کسی وجہ سے کراچی دفتر میں نہیں پہنچ سکیں، اس لیے پروگرام کا آغاز آپ ہی کریں گے۔ اس اچانک صورتحال نے مجھے کچھ بدمزہ سا کردیا، چندلمحوں بعد میرے کان میں کراچی بیٹھے پروڈیوسر کی آوا ز آنا شروع ہوئی: ''چار ، تین ، دو ، ایک، بسم اللہ حبیب بھائی‘‘ اور حبیب بھائی نے پروگرام کا آغاز کردیا۔ 
نصف پروگرام گزر چکا تھا کہ اچانک فائرنگ کی آواز سنائی دینے لگی، ساؤنڈ پروف سٹوڈیو میں فائرنگ کی آواز آنے کا مطلب یہ تھا کہ فائرنگ بہت قریب اور بڑی شدت سے ہو رہی ہے۔ میں آن ایئر تھا، اس لیے اسٹوڈیو کے کنٹرول روم میں بیٹھے ساتھیوں سے بات نہیں کر سکتا تھا۔ صحافی کے طور پر میرا تجسس مجھے باہر جانے پر مجبور کر رہا تھا اور سامنے پڑے کیمرے نے مجھے زنجیر میں باندھ رکھا تھا۔ اس کیفیت میں پانچ سیکنڈ بھی نہیں گزرے ہوں گے کہ میرے کان میں لگے آلے میں ایک ساتھی کارکن کی خوف میں ڈوبی آواز آئی: ''سر، باہر فائرنگ ہو رہی ہے، باہر آجائیں ‘‘۔ میںنے یہ سن کر ٹی وی دیکھنے والوں کو مخاطب کرکے 
کہا: '' ناظرین ، میں فائرنگ اور ہلکے دھماکوں کی آواز سن رہا ہوں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بڑا واقعہ درپیش ہے، مزید معلومات کے لیے مجھے ایک بریک لینا ہوگی‘‘۔ یہ کہہ کر میں اسٹوڈیو سے بھاگتا ہوا باہر نکلا اور اپنے کمرے کی کھڑی سے باہر دیکھا تو دوکلاشنکوف بردار ایک بس کی طرف لپک رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ وہ بس تک پہنچتے، اچانک بس حرکت میں آئی اور سیدھی قذافی اسٹیڈیم کے گیٹ کی طرف دوڑنے لگی۔ کسی طرف سے ایک راکٹ فائر ہوا لیکن بس حرکت میں ہونے کی وجہ سے یہ راکٹ اس کو چھوئے بغیر چند انچ کے فاصلے سے گزر کر ہمارے دفتر کے ساتھ والی عمارت کے قریب جا گرا۔ میں نے یہ واقعہ دیکھا اور اسٹوڈیو کی طرف لپکا تاکہ یہ خبر نشر کر سکوں۔ اس وقت تک مجھے یہ علم نہیں تھا کہ اس بس میں کون لوگ سوار تھے، وہ تو مائیکروفون لگانے کے دوران مجھے ایک ساتھی رپورٹر نے بتایا کہ جو بس قذافی اسٹیڈیم کی طرف گئی ہے اس میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی تھے جو پاکستانی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلنے آئے تھے۔ آپ کو یاد آگیا ہوگا کہ میں جس صبح کی بات کر رہا ہوں وہ 3 مارچ 2009ء کی صبح تھی اور دہشت گردوں کا یہ حملہ لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کے چوک میں ہوا تھا۔ یہ وہی صبح ہے جس کے واقعات نے پاکستانی کرکٹ پر وہ رات مسلط کردی جس کی سیاہی آٹھ سال گزرنے کے بعد بھی کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ 
اس واقعے کے چند گھنٹوں کے اندر اندر سری لنکن ٹیم اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر اپنے وطن چل دی، بالکل اسی طرح جیسے میں نے8 مئی 2002ء کو نیوزی لینڈ کی ٹیم کو کراچی سے اپنا دورہ نامکمل چھوڑ کر جاتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس دن بھی صبح سویرے کراچی کے دو بڑے ہوٹلوں کی درمیانی سڑک پر کھڑی ایک بس میں دھماکا ہوا تھا جس میں گیارہ فرانسیسی بحری تکنیک کار ہلاک ہوئے تھے۔ ان کی بس سے چند قدم کے فاصلے پر وہ بس کھڑی تھی جس نے نیوزی لینڈ کے کھلاڑیوں کو ٹیسٹ میچ کھیلنے کے لیے اسٹیڈیم لے جانا تھا۔ میں اس وقت کراچی میں ایک ادارے سے وابستہ تھا اور اس دھماکے کی کوریج کے لیے کچھ تاخیر سے پہنچا تھا۔ مجھے وہاں کھڑے دیگر صحافیوں اور پولیس اہلکاروں سے معلومات لیتے تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کسی نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ والے پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ اس پریس کانفرنس میں نیوزی لینڈ کی ٹیم کا منیجر اور پی سی بی کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر منور رانا موجود تھے۔ نیوزی لینڈ کا منیجر دھماکے کی وجہ سے سے کچھ خوفزدہ تھا اور لرزتی ہوئی آواز میں اپنی واپسی کا اعلان کر رہا تھا۔ بریگیڈیئر منور رانا کے چہر ے پر مایوسی چھائی ہوئی تھی، انہوں نے کہا کہ ہم نے تو پورے ملک میں سکیورٹی کا بہترین بندوبست کیا تھا مگر اس ایک واقعے نے سب کچھ تباہ کردیا۔کسی نے پوچھا کہ تین ماہ بعد آسٹریلیا کی ٹیم نے دورہ کرنا ہے، کیا وہ دورہ کرے گی؟ بریگیڈیئر رانا کا جواب تھا: ''اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے‘‘۔ اس جواب سے ہر صحافی سمجھ گیا کہ آسٹریلیا کا دورہ اب خواب و خیال کی بات ہے۔
اس وقت پاکستان نے بڑی کوشش سے دنیا بھر کو یقین دلایا تھا کہ نیوزی لینڈ کے کھلاڑی دہشت گردی کا ہدف نہیں تھے بلکہ فرانسیسی انجینئر تھے۔3 مارچ 2009ء کو سری لنکن ٹیم کو نشانہ بنا کر شاید دہشت گردوں نے یہ پیغام دیا تھا کہ سات برس پہلے بھی ان کا نشانہ کرکٹ ٹیم ہی تھی اور یہ پیغام پوری دنیا کے کرکٹ کھیلنے والے ملکوں نے پوری وضاحت کے ساتھ سمجھ کر پاکستان کو کرکٹ کا نوگو ایریا قرار دے دیا تھا۔ 
سری لنکن ٹیم وہ آخری غیر ملکی ٹیم تھی جو بڑی کوششوں کے بعد پاکستان کھیلنے کے لیے تیار ہوئی تھی۔ اس وقت سری لنکا کو یہاں لانے کے لیے ہم نے انہیں یاد دلایا تھا کہ 1987ء اور 1992ء میں دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے آپ کے ہاں بھی انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوگئی تھی مگر پاکستان نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا تھا۔ سری لنکا نے اس احسان کا بدلا چکایا اور اپنی ٹیم پاکستان بھیج دی، وہ بھی اس شرط پر کہ ہم کھلاڑیوں کو سربراہِ ریاست کی سکیورٹی دیں گے۔ 2015ء میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے زمبابوے کرکٹ بورڈکی 
کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہاں کے کھلاڑیوں کو اپنی طرف سے فی کس اضافی ساڑھے بارہ ہزار ڈالر کا لالچ دے کر لاہور میں کھیلنے کے لیے بلا لیا تھا مگر عین وقت پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے سکیورٹی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے ایمپائر بھیجنے انکار کردیا تھا۔ اس طرح پاکستان زمبابوے کے یہ میچ کہنے کی حد تو انٹرنیشنل تھے مگر حقیقت میں ان کی حیثیت نمائشی میچوں سے زیادہ نہ تھی۔ ان میچوں میں بھی پاکستانیوں کی بھرپور دلچسپی نے دہشت گردوں کو پیغام دیا کہ وہ ان سے ڈر کر کرکٹ نہیں چھوڑ سکتے۔ زمبابوے کے دورے کے دوران بھی ایک خود کش دھماکے نے ثابت کردیا کہ ہمارا دشمن کرکٹ کو پاکستان کا وہ اسٹریٹیجک اثاثہ سمجھتا ہے جس کی تباہی سے یہ ملک تباہ کیا جاسکتا ہے، اسی لیے اس کی تباہی کے لیے وہ ہر کوشش کرگزرتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کرکٹ اس قوم کی ثقافت کا ایک جز بن چکی ہے اور اس قوم کو متحد رکھنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ 
یہ کھیل جس شوق سے یونیورسٹی والے کھیلتے ہیں اسی خضوع سے مدرسے والے بھی اس میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ اپنی سازشیں کر رہا ہے، ہمیں اپنی کوششیں جاری رکھنی ہیں۔ پی ایس ایل انہی کوششوں کی ایک کڑی ہے کہ اگر ہمارے ہاں انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے سے لوگ ڈرتے ہیں تو ہم اپنی کرکٹ کو انٹرنیشنل بنا کر دہشت گردوں کو شکست دیں گے۔ ہم نے لاہور میں پاکستان سپر لیگ کا فائنل کھلانے کا اعلان کرکے دشمن کو بتا دیا ہے کہ اس نے 2002ء سے کرکٹ کو نشانہ بنا کر ہمارے خلاف جو سازش شروع کی تھی ہم اسے پندرہ سال بعد اپنے اتحاد کے ذریعے ناکام بنانے جا رہے ہیں۔ سپر لیگ کا فائنل میچ دراصل دہشت اور عزم کے درمیان فائنل میچ ہے اور یہ میچ ہمارا عزم جیت چکا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved