تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     02-03-2017

کالے دھن کے لیے مودی کا شکریہ

نوٹ بندی کس بری طرح سے پِٹ گئی ہے اس کا پتا آج کے تازہ آنکڑے دے رہے ہیں ۔نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ نوٹ بندی سے کالادھن ختم ہوگا ۔نقلی نوٹ ختم ہوں گے اور دہشت گردوں کی جیبیں خالی ہو جائیں گی ۔ان تین مدعوں پر سرکار مات کھا گئی ہے ۔پانچ صوبوں میں ہو رہے چنائو میں اتنے زیادہ نقد نوٹ پکڑے گئے ہیں کہ کیش لیس انتظام کی ناک کٹ گئی ہے یا یوں کہیں تو بہتر ہوگا کہ مودی سرکار گنجی کیش لیس ہو گئی ہے ۔اتر پردیش میں 2012 ء کے چنائو میں جتنا کالادھن پکڑا گیا تھا ‘اس سے تین گنا زیادہ یعنی 109 کروڑ79 لاکھ روپیہ پکڑے گئے ہیں ابھی اتر پردیش میںووٹنگ ہونی باقی ہے ۔کوئی حیرانی نہیں کہ مارچ تک یہ رقم 300 کروڑ کا آنکڑا عبورکر لے گی۔پنجاب میں یہی رقم 2012 ء کے مقابلے اس بار پانچ گنازیادہ ہے ۔58 کروڑ کالادھن کے علاوہ کروڑوں روپے کی شراب کی بوتلیں پکڑی گئی ہیں‘یہی حال اتراکھنڈاور گوواکا ہے۔گووا میں اس چنائو میں پکڑا گیا کالادھن 60 لاکھ سے بڑھ کر سوادوکروڑ ہوگیا ۔یہ تو پکڑے گئے دھن کا حال ہے ‘ جو نہیں پکڑاگیا ‘ذرا اس کا اندازہ لگائیے ۔
نوٹ بندی پر سینہ چوڑا کر کے بولنے والی سرکار کے لیے یہ شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے ۔اگر مودی نے نوٹ بندی کو اس چنائو میں اپنے مخالفین کا گلا گھونٹنے کے لیے چلایا تھا تو یہ مان لیجئے کہ انہوں نے اور خود مودی کی بھاجپا نے نوٹ بندی کا گلا گھونٹ دیا ہے ۔ پورے بھارت کو ڈیجیٹل لین دین والا ملک بنانے کا دعویٰ کرنے والی سرکار اب پارلیمنٹ کا سامنا کس منہ سے کرے گی ؟آج تک سرکار اور اس کے اشاروں پر تھرکنے والا ریزروبینک یہ نہیں بتا سکا کہ انہوں نے کتنا کالادھن اگلوایا ہے ۔لوگوں نے اپنا سارا کالادھن سفیدکرکے سرکار کو چاروں کانے چت کر دیا ہے ۔اس سرکار نے دوہزار کانوٹ جاری کر کے لوگوں کو کالادھن جٹانے کی ترکیب کو دوگنا کردیا ہے۔اس چھوٹی شکل والے نوٹ کے لیے سبھی چناوی امیدوار مودی جی کا تہ دل سے شکریہ ادا کررہے ہیں۔
بھارت چین مذاکرات
خارجہ سیکرٹری جے شنکر نے چین کے لیڈروں اور افسروں سے وہاں جاکر جو مذاکرات کا سلسلہ قائم کیا ہے ‘اس سے بہتر طریقہ فی الحال کیا ہوسکتا ہے ؟اس وقت تنازع کے تین مدعے ہیں ۔پہلا ‘ جیش محمد کے سرغنہ مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کا بین اور اس پابندی کی چین کی مخالفت ‘دوسرا‘این ایس جی میں چین کا اڑنگا اور تیسرا ‘ پاکستانی قبضے والے کشمیر میں سے ہوکر سڑک بنانے کی چینی تجویز ۔ ان تینوں مدعوں پر جے شنکر نے چینی مذاکرات کرنے والوں سے کھل کر بات کی ہے اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر بھارت کی طرف داری کی حمایت کریں گے تو ان کا اپنا ہی بھلا ہوگا ۔ دہشت گرد جتنے بھارت کے لیے برے ہیں ‘اس سے بھی زیادہ چین کے 'گہرے دوست‘پاکستان کے لیے برے ہیں ۔پاکستان میں جتنے لوگ ہر ہفتے مر رہے ہیں ‘اتنے کس جنوب ایشیا کے ملک میں مر رہے ہیں ؟چین کے لیے دہشت گرد ی اور بھی زیادہ خطرناک ہے ‘کیونکہ علیحدگی پسندوں کا ایک ہی ہدف ہے ۔سنکیانگ صوبے کو ایفور کے نام سے الگ کرنا ۔چین ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف کمر نہیں کسے گا تو دہشت گرد آہستہ آہستہ بیجنگ ‘ شنگھائی اور کینٹن جیسے شہروں کو بھی اپنے نشانے پر لے لیں گے ۔ چینی دہشت گردوں کے ساتھ وسطی ایشیا کے پانچوں جمہوری ملکوں کے دہشت گرد اور مجرم بھی ایک ہو جائیں گے ۔وہ سنکیانگ میں چین کے ایٹمی اڈوں کو بھی اڑاسکتے ہیں ۔جے شنکر نے چینی لیڈروں سے یہ ضرور کہا ہوگا کہ 1963 ء میں کشمیر کے جس حصہ پر اس نے چین سے سمجھوتہ کر لیا تھا ‘وہ قانونی نظریہ سے اب بھی بھارت کا ہی ہے ۔اس پر سڑک بناکر چین بھارت کی خودمختاری پر زبردستی کرے گا ۔ جے شنکر کے ان دلائل کا چینیوں پر کتنا اثر پڑے گا ‘ کہنا مشکل ہے ‘کیونکہ بین الاقوامی سیاست کا اثر دلائل سے کم ‘ مقاصد سے زیادہ ہوتا ہے ۔جے شنکر نے چین کے ساتھ ہو رہی ایک طرفہ تجارت پر انگلی دھری ہے ۔بھارتی تاجروں کے لیے چینی بازاروں کو کھولنے کی اپیل بھی انہوںنے کی ہے۔ بھارت چین تہذیبی اور جنگی تعاون پر بھی بات ہوئی ہے ۔چین کو لے کر بھارت ڈونلڈ ٹرمپ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا ۔اس سے اسے بیچ کا راستہ نکالنا ہوگا لیکن چین کی پھیلائو والی پالیسی اور بھارت کی گھیرا بندی کے خلاف اسے خبردار رہنا ہوگا۔ 
مہاراشٹر میں کون جیتا :مودی یا پھڑن ویس؟
مہاراشٹر کے مقامی چنائو میں کون جیتا ‘یہ بھی کوئی سوال ہے ؟ سب کو پتا ہے کہ کون جیتا؟ممبئی اور ٹھانے میں شوسینا ‘باقی سبھی آٹھوں مقامات پر بھاجپا کی فتح ہوئی ہے ؟ممبئی میں بھی بھاجپا کی قوت تین گنا بڑھ گئی ہے۔پھر بھی یہ سوال کہ کون جیتا ؟کیوں ؟اس لیے کہ مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر پھڑن ویس نے اس غیر معمولی فتح اور عجیب جیت کا کریڈٹ خود کو نہیں دیا ہے تو کس کو دیا ہے؟وزیراعظم شری نریندر مودی کو دیا ہے ۔ان کی نوٹ بندی کی پالیسی کو دیا ہے ۔یہ کریڈٹ اس نظر سے تو ٹھیک ہے کہ ان چنائوں میں اگر بھاجپا شکست کھا جاتی تو کئی اخبار اور ٹی وی چینل اور اپوزیشن لیڈرسارا ٹھیکر امودی کا سر پھوڑتے ۔جب ہار کا ٹھیکرا مودی کے سر پر تو جیت کا سہرا مودی کے سر پر کیوں نہیں ؟
لیکن اصلیت کیا ہے؟یہ جیت حقیقت میں دیویندر پھڑن ویس کی ہے ۔یہ پھڑن ویس کی چالاکی ہے کہ انہوں نے اپنا سہرامودی کے سر پر باندھ دیا ۔ملک کی سیاست کا نمونہ ہی کچھ ایسا ہوگیا ہے ۔ لیڈروں کی خودمختاری ختم ہوگئی ہے ۔وہ پارٹیاں نہیں پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کے افسر بن گئے ہیں۔یوں تو پھڑن ویس ہوشیار قابل اور ذہین لیڈر ہیں ۔ان میں ملک کا وزیراعظم بننے کے امکانات بھی چھپے ہوئے ہیں ۔وہ جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں ان کی اصولی شخصیت اور کام کرنے کی صلاحیت کے سبب ہی تو یہ فتح ہوئی ہے‘اس کے ساتھ ساتھ ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ مہاراشٹر کے سبھی چناوی اضلاع میں شوسینا‘ نیشنل کانگریس پارٹی اور کانگریس سے چھوڑکر آئے لیڈر وں نے اپنی پارٹیوں کا سونپڑاصاف کردیا تو بھاجپا کو جیتنا ہی تھا ۔یہ ویسا ہی ہوا‘جیسا کہ آسام میں ہوا ۔ اسے مودی کی جیت کیسے کہا جاسکتا ہے ؟ارون جیٹلی کا یہ کہنا کہ نوٹ بندی کی جیت ہے ‘یہ بھی مذاق ہے ۔مقامی چنائوں کے مدعے بھی مقامی ہوتے ہیں ‘لیڈر بھی مقامی ہی ہوتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر ہی لوگ ووٹ دیتے ہیں ۔لوگوں کو پتا ہے کہ پونے ‘ناسک اور سانگلی کے چھوٹے چنائوں کوچلانے کے لیے مودی اور جیٹلی دلی چھوڑ کر وہاں نہیں آنے والے ہیں ۔اس چنائونے پھڑن ویس کا قد بھاجپا کے وزرائے اعلیٰ میں تھوڑا اونچاکردیا ہے ۔کیا یہ حقیقت مودی کے لیے مسرت کی بات ہوسکتی ہے ؟
مغربی لیڈروں کی زیادتی 
امریکہ اور یورپ کے ممالک میں وطن پرستی کے نام پر زیادتی ہو رہی ہے ‘اس کی تازہ مثالیں ابھی ابھی سامنے آئی ہیں ۔امریکہ کے کینساس شہر میں ایک گورے امریکی نے دو بھارتیوں پر گولیاں چلا دیں اور کہا کہ تم امریکہ سے بھاگ جائو۔ادھر پیرس میں فرانس کی لیڈر محترمہ لی پین نے کہا ہے کہ اگر وہ صدر بن گئیں تو وہ برقعے ‘ دوپٹے اوریہودی ٹوپی پر پابندی لگا دیں گی۔ہر فرانسیسی شہری پہلے فرانس کا باشندہ ہے ‘پھر کسی مذہب کا ممبر ۔چوبیس گھنٹے اپنی اس مذہبی پہچان کو ہلاتے رہنے کی کیا ضرورت ہے؟جب وہ مسجد یا چرچ میں جائے تب وہ اپنا مذہبی لباس پہنیں لیکن ہر جگہ اپنی مذہبی پہچان کو ظاہر کرنے کا کیا مطلب ہے ۔آپ کا مذہب اوپر ہے اور آپ کا ملک نیچے ہے ۔اس کے علاوہ ان پہچان والی نشانیوں کے سبب قومی اتحاد بھی کمزور پڑتا ہے ۔لوگوں میں اپنے الگ ہونے کے جذبات بھی پنپتے ہیں ۔لی پین کے یہ خیالات فرانس کے زیادہ تر عوام میں اس لیے بھی مقبول ہو رہے ہیں کہ فرانس کے مسلمان یاتوعرب ہیں یا افریقی ہیں اور دہشت گردی کے کئی خطرناک واقعے ہوچکے ہیں ۔یہ لوگ رنگ نسل سے اتنے الگ ہیں کہ اگر وہ داڑھی نہ رکھیں ‘ان کی عورتیں برقع نہ پہنیں اور وہ فرانسیسی بولیں تو بھی وہ الگ پہچانے جائیں گے ۔اس کے باوجود لی پین کی دلیل گورے لوگوں کو اس لیے پسند آ رہی ہے کہ وہ غیر ملکی نژاد کے فرانسیسی لوگوں کے سامنے الگ دکھائی پڑتے ہیں ۔یورپ اور امریکہ میں اب ایک ایسا سماج زور پکڑ رہا ہے ‘جو ایک رنگ ‘ایک زبان ‘ایک مذہب ‘ایک تہذیب اور ایک زندگی کے طریقہ کار پر زور دے رہا ہے ۔کیا یہی سچی جمہوریت ہے ؟ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ امریکی سماج بھی اسی ڈھرے پر چل پڑا ہے ۔ٹرمپ امریکہ اور اسکی اکانومی کو مضبوط بنانے کی بات کہیں تو اس میں کوئی ہرج نہیں لیکن اس کی تقاریر نے نفرت کا بازار گرم کردیا ہے ۔اسی لیے ایک گورے نے دوبھارتیوں کو عرب مسلم سمجھ کر ان پر قاتلانہ حملہ کردیا۔ٹرمپ اور لی پین کے اپنے اپنے دلائل ہیں اور ان میں تھوڑا بہت دم بھی ہے لیکن کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ مغربی لیڈر بھی ان حقیقتوں کوہی ختم کردیں ‘جن کی بنیاد پر جدید فرانسیسی اور امریکی سماج کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved