تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     02-03-2017

’’سمندر بات کرتا ہے‘‘ از افضال نویدؔ

غزلوں کا یہ مجموعہ ہمارے پسندیدہ شاعر افضال نوید کی تخلیق ہے، جسے بُک ہوم لاہور نے چھاپا اور اس کی قیمت800 روپے رکھی ہے۔ انتساب پیاری بیٹی ماورا کے نام ہے۔ دیباچے غلام حسین ساجد‘ سعادت سعید اور امجد اسلام امجد نے تحری کیے ہیں۔ اندرونی فلیپ طارق ہاشمی اور فیصل ہاشمی کے قلم سے ہیں۔ کل 189غزلیں اور ضخامت 320 صفحات ہے۔ ٹائٹل دیدہ ذیب اور گٹ اپ عمدہ۔ طارق ہاشمی لکھتے ہیں:
تمثالیت شاعری کے اعلیٰ اوصاف میں شمار ہوتی ہے مگر اس کا ادراک بہت کم تخلیق کاروں کے وجدان کا حصہ بنا ہے۔ کائنات کا مشاہدہ اور تحیّر کے اظہار کی روایت افضال نوید کی غزل کا خاصہ ہے اور اس حیرانی کے اظہار کے لیے وہ جس نوع کی تمثالیں بناتا ہے وہ تسکین کے بجائے ایک نئی حیرت کا در کھول دیتی ہیں۔
یہ امر ذہن نشین رہے کہ حیرت دو طرح کی ہوتی ہے، ایک لاعلمی کی اور دوسری علم ہو جانے کے بعد کی۔ پہلی حیرت کم درجے کی ہے اور علم ہو جانے پر ختم ہو جاتی ہے، لیکن دوسری حیرت اپنی کوئی حد و انتہا نہیں رکھتی۔ افضال نوید کے شعروں میں یہ دوسری حیرت فراواں دکھائی دیتی ہے اور وہ اس کا اظہار عجیب و غریب تمثالوں کے ذریعے کرتا ہے جن میں کائنات کے ساتھ ساتھ ماورائے کائنات کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں نیز وہ حسّی ادراک بھی ایک منفرد پیکر میں دکھائی دیتا ہے جو تخلیق کار کی باطن کی حیرت کو کھولتا ہے...
اوسلو سے ہمارے عزیز دوست فیصل ہاشمی جونظم کے نہایت عمدہ شاعر ہیں‘ ان کی رائے میںافضال نوید ہمیشہ نامعلوم
حقائق کی جستجو میں سرگرم رہتے ہیں اور پہچان میں آنے والی دنیا کو لمحہ لمحہ رقم کر رہے ہیں۔ ان کی نئی شاعری کو کسی ایک زمانی ترتیب میں رکھ کر دیکھنا ممکن نہیں ہے، وہ اپنے اس سفر میں آزاد ہیں۔ بڑھتے‘کم ہوتے فاصلے ان کی ذات کے اندر سے ابھر کر شش جہات میں پھیل جاتے ہیں اور ایسی شعری کائنات میں ہمہ وقت ڈھل رہے ہیں جو اپنے خدو خال سے رہائی پا کر بے کرانی کی آزادی کا مزہ چکھ رہی ہے اور دیکھا جائے تو جدید شاعری نے شاعری یا فن پارے کی اسی آزادی یا خود مختار ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
افضال نوید کا تاریخ‘ عمرانیات‘ تہذیب‘ مذہب اور موسیقی کا مطالعہ بہت وسیع ہے ۔ مطالعے کی اسی وسعت کی وجہ سے وہ اپنی فکر کے جھرمٹ میں اپنے معاصرین سے الگ بھی ہیں اور آگے بھی... پس سرورق ترقی پسند اور زبان ساز شاعر ڈاکٹر سعادت سعید کا تحریر کردہ ہے جو ان کے دیباچے ہی سے ایک اقتباس ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
سمندر سے ہم کلامی آسان کام نہیں ہے۔ یہ دعویٰ غزل گو شاعرکو کائناتی سلاسل میں متحرک ہونے کا ادراک مہیا کرتا ہے۔ اس سلسلے میںاسے اپنے لفظوں میں اپنا خون بند کرنا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں اس کا عرق ریز ہونا اظہر من الشمس ہوتا ہے۔ یوں اسے اپنی شاعری میں نئے الفاظ کے استعمال سے زبان کی نئی چاشنی سے سابقہ پڑتا ہے۔ افضال نوید نے شاعر کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ اس کے الفاظ دل کی گہرائیوں سے اُٹھ کر قارئین تک پہنچیں۔ ان کے اندر کا شاعر کسی اندازِ سخن کو نہیں بھولتا کہ وہ لفظوں کے پر شور جزیروں کی سیر کرتے رہتے ہیں۔ یہی نہیں ان کے ادراک کی پچکاری رنگوں اور رُتوں کے آمیزے سے جا بجا گلناریاں کرنے کی اہل ہے... پروفیسر غلام حسین ساجد جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ نقاد بھی ہیں‘ کی رائے میں:
کہا جاتا ہے کہ ادب کا کام مسرت پیدا کرنا ہے۔ یہ کچھ ضروری نہیں مگر ادب کا کام ہیبت‘ بیزاری اور تھکن پیدا کرنا یقیناً نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ افضال نوید کی غزل قاری کی طبیعت میں اُکتاہٹ پیدا کرتی ہے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ یہ قاری کو ترفع‘ بہجت اور مسرت سے کم کم ہی ہمکنار کرتی ہے کیونکہ اس کے کسی ایک شعر کا بھی پہلی قرأت میں کُھلنا ممکن نہیں۔ یہ غزل ایک ایسا فکری تجربہ ہے جو کیفیت اورمعنویت ہر لحاظ سے تجریدیت کے پردے میں ملفوف ہے اور اس سے حظ اٹھانے کے لیے ایک خاص نوع کی تربیت کی ضرورت ہے جو دو چار دنوں کی کاوش اور رغبت سے وجود میں نہیں آتی... ہمہ صفت موصوف ہمارے دوست امجد اسلام امجد کی رائے میں:
ان کی شاعری میں کہیں کہیں فارسی الفاظ اور تراکیب کا غلبہ ہے جبکہ بعض الفاظ بھی معنی کے اعتبار سے قدرے مبہم انداز میں استعمال ہوئے ہیں مگر عمومی سطح پر ان کے مضامین جدید اور تخلیقی نیز اظہار رواں دواں اور ابلاغ کے تقاضوں کو پورا کرتا دکھائی دیتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ وہ اپنے اظہار کی آزادی اور جدّت پسندی کو یہیں تک محدود رکھے کہ اس سے آگے کا راستہ دشوار گزار اور خطرناک ہونے کے ساتھ ساتھ بہت حد تک بے سمت بھی ہے...
یہ اقتباسات اس لیے پیش کئے گئے ہیں کہ یہ شاعری ایک اوسط درجے کے قاری کے بس کا روگ نہیں ہے بلکہ بقول جناب غلام حسین ساجد اس سے حظ اٹھانے کے لیے ایک خاص نوع کی تربیت کی ضرورت ہے جسے حاصل کرنے میں کئی سال بھی لگ سکتے ہیں۔ میں نے تو یہ تربیت حاصل کرنا شروع کر دی ہے‘ قارئین کے لیے صلائے عام ہے کیونکہ عام بلکہ خاص قسم کا قاری غزل کو لطف اندوز ہونے کے لیے پڑھتا ہے‘ ریاضی کا کوئی پیچیدہ سوال حل کرنے کے لیے نہیں۔ غالب نے بھی زیادہ تر مشکل پسندی اور مشکل گوئی ہی سے کام لیا تھا لیکن حوالہ اس کے عام فہم اشعار کا ہی دیا جاتا ہے۔ مضمون پیچیدہ بھی ہو تو بھی اسے آسان فہم الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ یہ بھی نہیں کہ یہ شاعری صرف شعرا ہی کے لیے تخلیق کی گئی ہو کیونکہ انہیں بھی پہلے ایک خاص قسم کی تربیت سے گزرنا ہو گا۔ پھر‘ اس میں پچاس سے زائد زبان و بیان کی غلطیاں بھی ہیں۔ یہ نہیں کہ شاعراس علم سے نابلد ہے بلکہ محض اس کی لاپروائی کا نتیجہ ہیں۔ اب ان کی تمثالی شاعری کے کچھ نمونے پیش خدمت ہیں:
مُنہ پر دُھندلکا کُہرۂ ابیض پہ آ پڑا
سانسوں کا کوندا لپکا تو دم جھلملا پڑا
لایعنی معنی خیزیاں آنگن سے دُھل گئیں
بادل کا اصل بھیگ کے لا منتہا پڑا
گندم نے رودِ رگ میں گھلاوٹ بلا کی کی
غیر مکاں تھا شیشہ مے سے بسا پڑا
اجرام آگ سے ہوئے بے جا تو شام تھا
معدن دھنک سے سانچۂ گُل میں دُھلا پڑا
مرکز میں سر گلال سے عکسِ پریدہ تھا
جتنا دماغ کھینچ سکا خوش نما پڑا
پائوں بھی بے زمینی پہ تحلیل ہو گئے
دل پر بھی ایک میکدۂ سر پھرا پڑا
دینے لگا تھا چہروں کو لو خلیہ ریڑھ کا
تودے میں تھا مزارِ دُھواں کش دبا پڑا
پریاں دھنک دھنک سے اُٹھیں جب میں ابرسا
کیاری پہ یاسمیں کی قلم باندھتا پڑا
لہریں ہوائیں لیتی رہیں ناشناسی کی
اپنی ہی آگ سے من و تو تلملا پڑا
کُرّوں کی آتمائوں کے دروازے کھول کھول
پارینہ پا تھا آنکھ کے اندر اٹا پڑا
سطحیں ہزارہا تہہِ اسرار میں بچھا
پائوں کے واسطے ہی رہا راستہ پڑا 
مانع تھی قیدِ جسم کو پہچانِ رُخ نویدؔ
دستک ہوئی تو دیکھ لیا گھر کُھلا پڑا
آج کا مقطع
سکندر نے‘ ظفر‘ مر کر تہی دستی کا اِک ناٹک رچایا تھا
یہاں لاکھوں کروڑوں زندہ انسانوں کے دونوں ہاتھ خالی ہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved