4 مئی1985ء کا واشنگٹن پوسٹ سامنے رکھیں تو امریکہ کی بھارت سے گہری دوستی، فوجی اور ایٹمی ٹیکنالوجی کی فراہمی کے علاوہ عرب ممالک کو بھارت سے قریبی معاشی تعلقات قائم کرنے کی خواہش سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ اس کے بعد بش اور اوباما کے آٹھ آٹھ سال کے دوران ان کے تعلقات میں پیشرفت اور اب ٹرمپ کا پیار و محبت اور نریندر مودی کو دورہ امریکہ کی دعوت پر بھی کوئی حیرت نہیں ہو گی۔ واشنگٹن پوسٹ کے 4 مئی 1985ء کے شمارے میں امریکہ کے انڈر سیکرٹری پالیسی برائے وزارت دفاع فریڈ اکلے کی رپورٹ دیکھ کر اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ فریڈ اکلے کا شمار امریکہ کی نیشنل سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ہمہ وقتی تھنک ٹینک کے طور پر ہوتا ہے۔ جب یہ رپورٹ فائنل کی جا رہی تھی تو اس وقت کے امریکی صدر ریگن خود کو پاکستان اور جنرل ضیاء الحق کا قریبی دوست کہنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔ ستم دیکھیے کہ جب افغانستان پر روسی یلغار پاکستان اپنے سینے پر روک رہا تھا، عین اسی وقت امریکی انڈر سیکرٹری کی ٹیم پاکستان کے سب سے بڑے دشمن بھارت کو فوجی لحاظ سے اس قدر طاقتور بنانے کی پلاننگ کر رہی تھی کہ وہ ایشیاء کی مضبوط ترین قوت بن جائے۔ جس بھارت کو ایشیا کی سپر پاور بنانے کی پلاننگ کی جا رہی تھی وہ افغانستان پر سوویت قبضے کا سب سے بڑا حامی تھا اور وہ امریکہ سمیت اقوام عالم کے97 ممالک کے اتحاد کے مقابلے پر روسی کے جی بی کے ساتھ ڈٹ کرکھڑا تھا۔ امریکی کانگریس اور سینیٹ کے 27 ری پبلیکن اور ڈیمو کریٹ ارکان مشتمل دو علیحدہ گروپ اگلے چند دنوں میں بھارت کے دورے پر آنے والے ہیں۔ ان میں سے 19امریکی قانون سازوں پر مشتمل ایک گروپ نئی دہلی اور حیدر آباد کا دورہ کرے گا جبکہ 8 ارکان کا دوسرا گروپ نئی دہلی اور بنگلور جائے گا جو بھارت کے فوجی اور سول حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں امریکہ اور بھارت کے مابین سٹریٹیجک تعلقات کو مزید بہتر بنانے کا جائزہ لے گا۔
اس سے پہلے2013ء میں امریکی قانون ساز اداروں کے21 ارکان نے بھارت کا دورہ کرتے ہوئے سائوتھ ایشیا میں امریکہ اور بھارت کو درپیش نئے چیلنجز کا سامنا کرنے اور اس کا سدباب کرنے کے لئے تفصیلی گفتگو کی تھی۔ اس وفد میں کانگریس کے ہائوس ڈیموکریٹک وہپ Steny Hoyer اور Dana Rohrabacher جیسی پاکستان دشمن شخصیات شامل تھیں جو بلوچستان کی آزادی کے لئے بی ایل اے کے دہشت گردوںکو ہر قسم کی مدد دینے کی کھلے عام باتیں کرتے اور اس مقصد کے لئے سیمینار منعقد کرواتے رہے ۔ دورہ بھارت کے بعد ان ارکان کی رپورٹ کے بعد ہی بارک اوباما نے اپنی اعلیٰ سظحی ٹیم کے ہمراہ بھارت کا دورہ کیا اور وزیر اعظم نریندر مودی سے مذاکرات کیے۔
بتیس برس قبل امریکہ کا انڈر سیکرٹری برائے دفاع اپنی ایسٹیبلشمنٹ سے کہہ رہا تھا کہ ''اگر امریکہ، بھارت کو جدید فوجی ہتھیار بنانے کی اتنی ٹیکنالوجی دے دے کہ وہ اس قدر طاقتور فوجی قوت بن جائے کہ اگلی صدی کے آغاز میں وہ عالمی استحکام کے لئے ایک بڑا کردار ادا کرنے کے قابل بن جائے تواس سے امریکہ کے طویل المیعاد دفاعی مفادات کو بے انتہا فائدہ پہنچے گا‘‘۔ کیایہ بات ہمارے حکمرانوں اور پالیسی ساز اداروں کی نظروں سے اوجھل تھی؟ فریڈ اکلے کی اس رپورٹ کی روشنی میں National Directive Of India کے نام سے حکم نامہ خاص پر امریکی صدر رونالڈ ریگن نے دستخط کر دیے جس کے تحت بھارت کو بڑے پیمانے پر دفاعی ٹیکنالوجی منتقل کرنے کا آغاز ہو گیا۔ بد قسمتی سے یہ وہ وقت تھا جب اس ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اپنے اقتدار کے دوام کے لئے امریکہ کی جھولی میں گری ہوئی تھیں اور انہیں خطے کے ارد گرد ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں خبر لینے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ اس وقت ایک جانب دونوں پارٹیوں میں اقتدار کی میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلنے کے لئے امریکہ سے گزارشات کرنے اور تابعداری کا یقین دلانے کا عمل جا ری تھا اور باری ملنے پر ملک کے وسائل کو جی بھر کر لوٹنے کا مقابلہ ہو رہا تھا۔
1987ء میں ہی امریکی وزیر دفاع کیپسین وائن برجر کانگریس کو بتا رہا تھا کہ ہائی ٹیکنالوجی کے سازو سامان کے لئے بھارت سے تین ہزار درخواستیں موصول ہوئی ہیں، جن میں سے92 فیصد کی منظوری دی جا چکی ہے اور امریکہ بھارت کو ایک ارب بیس کروڑ ڈالر کی ٹیکنالوجی فروخت کر چکا ہے۔ بد قسمتی دیکھیے کہ امریکہ آج بھی پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں مونگ پھلی کے دانے سے تشبیہ دیتے ہوئے اسی کے مطابق سلوک کرتا ہے، سوائے ان چند لمحوں کے جب اسے اپنے مفا دات کے لئے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنا نا ہوتا ہے۔ شرم ناک بات یہ ہے کہ جب کبھی امریکہ کے اعلیٰ حکام میں سے کوئی بھارت یا کسی دوسرے ملک سے آتے جاتے ہوئے چندلمحوں کے لئے پاکستان میں رکتا ہے تو ہماری وزارت خارجہ سمیت حکمران خوشی سے بغلیں بجانا شروع کر دیتے ہیں۔ میں نے اوپر جو کچھ بیان کیا ہے یہ کوئی راز کی بات نہیں نہ ہی کسی سے سنی سنائی ہیں بلکہ جب بھی کوئی چاہے امریکی اخبارات اور ریکارڈ سے ملاحظہ کر سکتا ہے۔پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری وزارت خارجہ ان سب باتوں سے لا علم رہی ہو۔ 1985ء میں ہی امریکہ کے تمام تھنک ٹینک اس بات پر متفق ہو چکے تھے کہ بھارت ایشیا میں ایک ایسی طاقت بن سکتا ہے جو عالمی ایجنڈے میں امریکہ کی حسب منشا کردار ادا کر سکے گا اور 1995ء سے2005ء تک بھارت ایک ایسی فوجی اور معاشی طاقت بن جائے گا جس کے ساتھ ہم مل جل کر بالکل اسی طرح کام کر سکیں گے جس طرح ہم اپنے نیشنل سکیورٹی کے معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے یورپ اور سائوتھ ایشیا کی دوسری بڑی طاقتوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔
یہ اقتباسات کسی انتہا پسند مذہبی یا لسانی تنظیم کے منشور سے نہیں بلکہ جیسا کہ شروع میں لکھا امریکہ کے انتہائی معروف اور ہمہ وقت مصروف رہنے والے انڈر سیکرٹری فریڈ اکلے کی 4 مئی 1985ء کے واشنگٹن پوسٹ میں لکھی جانے والی تحریر سے لیا گیا ہے۔ اگر آج کے پاک چین تعلقات، گوادر پورٹ اور CPEC کے تناظر میں امریکہ کی بھارت پر آئے روز ہونے والی نوازشات دیکھیں اور چین کے جنوبی سمندری علا قوں میں تائیوان کے ساتھ بھارتی عمل دخل کا جائزہ لیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ فریڈ اکلے کی اسی رپورٹ پر عمل کیا جا رہا ہے جس کی ابتدا سابق امریکی صدر بش نے اپنے دورہ بھارت کے دوران اسے سول نیوکلیئر سپلائی گروپ میں شمولیت کی نوید دی تھی اور پھر سابق صدر بارک اوباما نے اپنے دوسرے دورہ بھارت میں اس کی تجدید کی۔
بھارت اور امریکہ کے مابین Long Term Strategic Interests پالیسی تیار کرنے والے فریڈ اکلے1985ء کی رپورٹ پر عمل در آمدکا آغاز بش کی صدارت کے آخری سالوں میں کیا گیا اور یہ وہ وقت تھا جب امریکہ جنرل مشرف کو القاعدہ کے خلاف استعمال کرنے کے بعد ایک طرف اس سے چھٹکارہ حاصل کر رہا تھا تو دوسری جانب بھارت کے لئے سول نیو کلیئر ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ کے انبار لگا رہا تھا۔