تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     03-03-2017

پہل کاری

پہل کاری ، اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا : شوق میری سواری ہے ۔پہل کاری کے بغیر ، ایک بڑے initiativeکے بغیردلدل کے پار ہم اُتر نہیں سکتے ، سرفراز نہیں ہو سکتے ۔ 
فوجی عدالتوں کے ذریعے دہشت گردی کو محدود کرنے کا ‘ تھوڑا سا امکان ہے ،پیپلزپارٹی اس کی راہ میں کھڑی ہے۔ دوسروںنے بھی مزاحمت کی مگر تحریک انصاف نے کھل کر اب حمایت کر دی ہے۔ اپنے تحفظات پرایم کیو ایم وزیرِ اعظم سے بات کرنے کی آرزومندہے۔ زرداری صاحب ڈاکٹر عاصم کی رہائی چاہتے ہیں، جن پر 452ارب روپے کی بے قاعدگیوں کا الزام ہے۔ تمام لوگ اپنی ترجیحات کے اسیر ہوتے ہیں۔ کیا ان میں سے دہشت گردی کا خاتمہ بھی کسی کی ترجیح ہے؟
مولانا فضل الرحمن نے فوجی عدالتوں کو مذہبی انتہا پسندی تک محدود کرنے کی مخالفت کی ۔ آخری تجزیے میں‘ ان کی بات درست ہے۔ اللہ اور رسولؐ کے نام پر قتل و غارت بدترین سہی مگر کیا لسانیت اور علاقائیت کے نام پر جائز ہے؟ اگرچہ الطاف حسین سے مراسم عملاً ختم نہیں ہوئے، فاروق ستار گروپ کے بعض لیڈر اعلانیہ یہ کہتے ہیں کہ لندن اور پاکستان کی ایم کیو ایم ایک ہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ الطاف حسین‘ پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے۔ ان کی تازہ تقریر سے آشکار ہے کہ زمینی حقائق کااب انہیں ادراک نہیں۔ فوجی قیادت کو انہوں نے گالی دی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل نوید مختار کا نام لے کر۔ اسی پر بس نہیں‘ فرمایا کہ میجر سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک‘ پاک فوج کے افسروں کی اکثریت کذب بیانی میں مبتلا ہے ۔ کراچی کا کشمیر سے موازنہ کیا اور یہ کہا کہ پاک فوج ‘ زیادہ ظلم ڈھاتی ہے۔ ایک بار پھر ملک توڑنے کی دھمکی دی۔کہا کہ دنیا میں دوسری طاقتیں بھی کارفرما ہیں۔
ارشاد کیا کہ ڈیورنڈ لائن ختم ہونے والی ہے اور پختونستان وجود میں آ کر رہے گا۔یہ ایک مرتے ہوئے آدمی کی آخری چیخ ہے ۔ پاک افغان سرحد ختم ہوگی اور نہ پاک فوج کے افسر جھوٹے ہیں۔ ساری دنیا ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرتی ہے۔ دو ملکوں کے درمیان دیوار کیا ‘ گاہے لکیر بھی نہیں ہوتی ۔سرحد کی تقدیس مگر مسلّمہ ہوتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ پاکستان کو محتاج اورکمزور رکھنے کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان کی تزویراتی اہمیت کے پیش نظر‘ وہ اس ملک کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے آرزو مند رہتے ہیں۔ وسطی ایشیا اور افغانستان کا جو واحد راستہ ہے‘ باایں ہمہ‘ پاک افغان سرحد کو وہ مانتے ہیں۔ اس کا انکار پنڈورا باکس کھول دے گا‘ دنیا ‘ جس کی متحمل نہیں ۔ ایسا ہو تو بنیادی اصول ہی ٹوٹ جائے گا۔ دنیا کے کتنے ہی خطے زیرو زبر ہوجائیں گے ۔ 2400کلو میٹر طویل پاک افغان سرحد پر قلعہ نما چوکیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ بلوچستان میں لگ بھگ ایک ہزارکلو میٹر طویل خندق کھودی گئی ہے۔ پوری سرحد کی بندش ضروری نہیں‘ نگرانی ہر کہیں درکار ہے۔ سمگلروں اور دہشت گردوں کے لیے تاکہ مشکلات بڑھتی جائیں ۔
دونوں ملکوں کی سلامتی کے لیے یہ لازم ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی تعاون نہیں کر رہے۔افغانستان سے جاری دہشت گردی کو وہ نظر انداز کرتے ہیں ۔ نئی اور بڑی وجہ پاک چین تجارتی راہداری ہے۔ اسے بہرحال انہیں ہضم کرنا ہو گا۔ تاریخی عمل نئے حقائق کو جنم دیتا ہے ۔ انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت ایسی ہے کہ کوئی اس سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ پچھلی صدی کے آخری عشرے میں‘ امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا تھا۔ بعدازاں اس پر وہ پچھتائے تھے۔ پاکستانی فوج یہ بات سمجھتی ہے کہ وہ ایک جدید ادارہ ہے، مطالعہ ‘ بحث مباحثہ اور غورو فکر جس میں جاری رہتا ہے‘ سیاستدان کم کم۔ خوف اور ہیجان میں مبتلا‘ سطحی انداز فکر وہ رکھتے ہیں؛ جیسے کہ افغان مہاجرین کو مستقلاًبرقرار رکھنے کے حق میں ان کے بیانات ،شتابی سے پاک افغان سرحد کھولنے کا مطالبہ ۔
جہاں تک ممکن ہو، افغان عوام کی سہولت کا خیال رکھنا چاہئیے ۔ ہزاروں افغان بچے‘ ہر روز سرحد عبور کر کے پاکستانی سکولوں میں پڑھنے آتے ہیں۔ بے شمار کے روزگار کاپاکستان پر انحصار ہے۔ قبائل کی باہمی رشتہ داریاں ہیں؛ چنانچہ سرحد کھلی رہنی چاہیے۔ سوال دوسرا ہے ‘ امریکہ کی سرپرستی میں مقتدر‘ افغانستان کی بھارت نواز انتظامیہ‘ پاکستان کو اگر بلیک میل کرنا چاہے۔ اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن جائے۔ اگر اس کے پناہ یافتہ دہشت گرد آرمی پبلک سکول میں قتلِ عام کریں تو کیا وقتی دبائو بھی نہ ڈالا جائے؟
ریفرنڈم کرا لیا جائے‘ کم از کم اسّی فیصد پاکستانی عوام فوج کے حق میں ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ یہ فقط دستور نہیں‘ جس نے ملک کو متحد رکھا‘ عملی طور پر یہ پاکستانی افواج ہیں۔ دہشت گردوں کا اسی نے مقابلہ کیا۔ کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم براہ راست ملوث تھیں۔ عمران خان اور نواز شریف دہشت گردوں سے مذاکرات کے حامی تھے۔ جنرل کیانی کے دور میں ،میاں محمد نواز شریف نے سوات اورجنوبی وزیرستان میں کارروائی کی اعلانیہ مخالفت کی تھی۔ سیاستدان اکثر جذباتی سطح پر سوچتے ہیں یا مفادات اور ردعمل پر فیصلے کرتے ہیں۔
تو کیاسیاسی جماعتوں سے نجات حاصل کر لی جائے؟ ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کر دیا جائے؟ گزشتہ مارشل لائوں سے کیا حاصل ہوا؟ کامیاب حکمرانی‘ طاقت نہیں‘ فطری اصولوں کے مطابق ہوتی ہے۔ آزادی میں آدمی کی بہترین صلاحیت بروئے کار آتی ہے؛ اگرچہ ڈسپلن بھی اتنا ہی اہم ہے ۔ ڈسپلن مگر سیاسی‘ نظریاتی اور فکری تربیت سے جنم لیتا اور پختہ ہوا کرتا ہے۔ اکیسویں صدی میں سیاسی پارٹیوں کے بغیر‘ کاروبار حکومت چلانا دیوانے کا خواب ہے۔دوسری طرف ہماری جماعتیں سیاسی پارٹیوں کی تعریف پر پوری نہیں اترتیں۔ محدود مقبولیت کی جماعت اسلامی کے سوا باقاعدہ الیکشن کسی پارٹی میں نہیں ہوتے ۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی میں انتخابات کبھی نہ ہوئے۔ تحریک انصاف کے دھاندلی کی نذر ہو گئے۔ کارکنوں کی تربیت ہی نہیں کی اوراس کا ارادہ بھی نہیں۔ کپتان کا خیال ہے کہ ایک طوفان اٹھا کر وہ اقتدار میں آ جائے گا...فریبِ نفس! 
ملک تبھی مستحکم ہو گا‘اقتدار جب مکمل طور پرسیاسی پارٹیوں کے ہاتھ میں ہوگا‘ مگر وہ حقیقی سیاسی پارٹیاں ہوں گی۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی کو اپنی جمہوری تشکیل کرنا ہو گی یا وہ کوڑے دان میں ڈال دی جائیں گی۔ میڈیا ‘ سیاسی کارکنوں، دانشوروں اور دوسرے فعال طبقات کو اس پر اصرار کرنا ہو گا۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے اور ہنگامی حالات میں منتخب حکومت کی امداد۔ مستقلاً کوچہ و بازار میں وہ نہیں رہ سکتی۔ ایسا ہوا تو دیمک اسے چاٹ جائے گی۔
فوجی عدالتیں مسئلے کا حل نہیں ۔ سٹیرائڈ کا استعمال ہنگامی طور پہ ہوتا ہے۔ بلند آواز کے ساتھ ایک سوال وفاقی حکومت سے پوچھا جانا چاہیے دو سال قبل فوجی حکومتیں قائم کرتے ہوئے:عدالتی نظام کو بہتر بنانے کا جو وعدہ اس نے کیا تھا‘ اس کا کیا ہوا؟ آغاز کار ہی کیوں نہ ہو سکا؟ اس سے زیادہ تعجب خیز یہ ہے کہ وکلاء برادری اور میڈیا اس پر کیوں خاموش رہے؟ کیا فوج نے دہشت گردی کے خاتمے کاٹھیکہ لے رکھا ہے؟
سیاسی پارٹیاں تنگ نظری اور مفاد پرستی کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت فاٹا کو پختون خوا کا حصہ بنانے میںمتامّل ہے۔ اس وقت جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں، اسی موضوع پر کابینہ کا اجلاس ہونے والا ہے۔ اگر اس تجویز کو مسترد کر دیا جائے تو وہ طوفان کے بیج بوئے گی۔ قبول کیا تو یہ ایک کارنامہ ہو گا۔ بظاہر التوا کا امکان نظر آتا ہے ۔ ہر زمانے میں کم کوش اور ناکردہ لوگوں کا یہی طرزِ عمل ہوتا ہے۔
دو بڑے نفسیاتی مسائل ہیں۔ ذہنی طور پر ہم ماضی میں زندہ ہیں۔ بہترین سرزمین‘ غیر معمولی ذہانت مگر ہم ہیجان اور ردعمل میں مبتلا رہتے ہیں۔ علم اور اعتدال نہ ہو تو عقل کوئی دولت نہیں ۔ 
ہمارا عہد بے شمارچیلنج اور اتنے ہی امکانات لے کر آ رہا ہے۔ ان سے ہمیں عہدہ برا ٓہونا ہے۔ دانش و بصیرت ، احتیاط اورتحمل کے ساتھ۔پہل کاری ، اللہ کے آخری رسولؐ نے فرمایا تھا : شوق میری سواری ہے ۔پہل کاری کے بغیر ، ایک بڑے initiativeکے بغیر دلدل کے پار ہم اُتر نہیں سکتے ، سرفراز نہیں ہو سکتے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved