بارڈر ایریا کمیٹی کے خط نمبر 17408 مورخہ 24 دسمبر 2014ء کے تحت محکمہ ریونیو (کینٹ) حکومت پنجاب نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو بی آر بی نہر سے متصل بیدیاں کے علاقے میں مروجہ فوجی اور حکومتی قوانین کے تحت زرعی زمین کی الاٹمنٹ کی جو حسب ضابطہ معمول کی کارروائی تھی لیکن دو سال بعد اچانک اس الاٹمنٹ کی خبر کو بعض حلقوں نے سنسنی خیز رنگ دیا ۔ سوال یہ نہیں کہ زرعی زمین کیوں الاٹ کی گئی بلکہ یہ کہ کیا یہ الاٹمنٹ سکینڈل کے زمرے میں آتی ہے یا پھر اس ایشو کو اچھالنے کے پیچھے بعض افراد کے اپنے مذموم مقاصد تھے؟
جن لوگوں نے جنرل صاحب کو الاٹ کی جانے والی بیدیاں کی زرعی زمین کے معاملے کو نمک مرچ اور بارہ مصالحے کا رنگ دینے کی کوشش کی‘ ہو سکتا ہے انہیں بھی لاہور کی کسی سکیم میں دو چار رہائشی پلاٹ الاٹ کئے گئے ہوں۔ اگر ایل ڈی اے کا ریکارڈ سامنے لایا جائے تولاہور کی بیشتر سرکاری رہائشی سکیموں میں قومی خدمات انجام دینے والوں کو نہیں بلکہ اپنے منظور نظر اور حاشیہ نشینوں میں دو کنال سے دس مرلے کے پانچ ہزار پلاٹ بانٹے گئے۔ اگر کسی میں ہمت ہے تو اس حقیقت کی تردید کرے کہ 6 اگست 1990ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کی مرکز میں حکومت ختم ہونے سے ایک رات پہلے ایل ڈی اے کی سکیموں میں موجود پانچ کنال، تین کنال، دو کنال، ایک کنال، دس اور پانچ مرلے کے کئی ہزار پلاٹ اپنی پارٹی کے ایم این ایز، ایم پی ایز، سینیٹرز، مرکزی و صوبائی وزرا کے علاوہ دوستوں اور حاشیہ نشینوں کو الاٹ کیے گئے تھے۔
جنرل راحیل کو تو بطور آرمی چیف اور بطور جنرل ایک قانون کے تحت زمین الاٹ کی گئی ۔ یہ زمین ان کی ریٹائر منٹ پر دی گئی لیکن کیا اسے سکینڈل بنا کر اچھالنے والے لوگ یہ بتانا پسند فرمائیں گے کہ انہوں نے اپنی حکومت ختم ہونے سے ایک رات پہلے یہ تمام الاٹمنٹس کس اصول اور ضابطے کے تحت کیں؟ پی پی پی کے لیڈر غلام عباس کی طرف سے سپریم کورٹ میں نواز دور میں پلاٹوں کی الاٹمنٹ کے خلاف دائر کی جانے والی 22 برس پرانی رٹ پٹیشن کی آج بھی سماعت شروع ہو جائے توان کی یہ زمین اس پہاڑ کے سامنے رائی کے ذرے کے برا بر دکھائی دے گی۔
جنرل راحیل کو دو سال قبل فوجی قاعدے اور قانون کے تحت الاٹ کی گئی زرعی زمین کی خبر اچھالنے والے اگر یہ بھی بتا دیتے تو کتنا اچھا ہوتا کہ یہ پاکستانی فوج کا واحد چیف ہے جس نے قاعدے قانون کے تحت ملک بھر کی ڈیفنس ہائوسنگ سکیموں میں خود کو ملنے والے تمام کمرشل اور رہائشی پلاٹوںکو اپنے پاس رکھنے یا انہیں بیچ کر بینک بیلنس بڑھانے کی بجائے انہیں پاک فوج کے شہداء کے فنڈ میں دے دیا۔ لیکن یہ سب کچھ جان بوجھ کر گول کر دیا گیا۔ در اصل اس مہم کے پیچھے وہ لوگ تھے جو مل جل کر ان سے اپنا اپنا حساب چکانے کی گھٹیا کوشش کر ر ہے تھے۔ ان میں وہ صاحب بھی پیش پیش تھے جن کے ہاتھوں ہزاروں سے زیادہ لوگوں کے اربوں روپے لٹ چکے ہیں۔
ایک اور صاحب نے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اس زمین کی الاٹمنٹ کی خبر پھیلا کر اس ''نیک‘‘ کام میں اپنا حصہ بھی ڈالنے کی کوشش کی۔ کیا آج تک کسی نے ان صاحب سے پوچھنے کی ہمت کی ہے کہ جناب والا سابق آرمی چیف کو تو زرعی زمین کا یہ ٹکڑا پاکستان سے وفاداری اور عسکری خدمات کے انعام کے طور پر فوج کے قاعدے اور قانون کے مطابق الاٹ کیا گیا ہے، لیکن آپ کو خصوصی خدمات کے اعتراف کے طور پر اب تک جو کچھ ملا اس کے بارے میں آپ کب بتائیں گے کہ اس کے پیچھے اصل راز کون سے تھے؟
فوج کے افسروں اور جوانوں کو زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ کوئی بریکنگ نیوز نہیں تھی۔ یہ نہ تو کوئی خلاف قانون بات تھی نہ ڈھکی چھپی یا راز کی بات تھی۔ ملک کے تمام ادارے اور ہر فرد جانتا ہے کہ 69 برسوں سے پاکستان کی فوج میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ملکی سرحدوں سے متصل پانچ کلومیٹر کے علا قے میں سابق فوجیوں کو زرعی زمینیں الاٹ کی جا تی ہیں۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس سے قبل کسی بھی سابق آرمی چیف کو الاٹ کی گئی زرعی زمینوں کی خبروں کو کبھی نہیں اچھالا گیا لیکن جنرل صاحب کو الاٹ کی جانے والی زرعی زمین کوآسمان سر پر اٹھا لیا گیا جبکہ انہیں یہ الاٹمنٹ 2014ء میں ہو چکی تھی اور اس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ یہ زمین صرف اور صرف زرعی مقاصد کے لئے ہی استعمال میں لائی جا سکتی ہے اور چونکہ یہ ملکی سرحدوں کے قریب واقع ہے اس لئے اسے کسی بھی وقت دفاعی اور فوجی مقاصد کے لئے استعمال میں لایا جا سکے گا۔ اگر کوئی جا کر اس زمین کو دیکھے تو وہ حیران ہو گا کہ اس کا چوتھائی حصہ اتنا بنجر اور ویران ہے کہ اسے سدھارنے کے لئے کافی محنت اور وقت درکار ہو گا۔
سابق آرمی چیف کی ریٹائر منٹ پر زمین کی الاٹمنٹ کے حوالے سے یہ مہم چلائی کہ انہوں نے پنجاب حکومت کی جانب سے پیش کیا گیا زرعی زمین کا ہدیہ قبول کر لیا ہے۔ کاش بے ہنگم انداز میں ایسا کرنے والے یہ لوگ قاعدے قانون کا بھی مطالعہ کر لیتے کہ یہ پنجاب حکومت کا ہدیہ نہیں بلکہ پاکستان بننے سے اب تک سابق فوجیوں کے لئے ملکی سرحدوں سے متصل زرعی زمینوں کی الاٹمنٹ کی روایت ہے۔ چٹخارے لینے والوں میں سے کسی نے اس خبر کو مرچ مسالحہ کیوں نہیں لگایا کہ پنجاب حکومت نے چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب کو ان کی تنخواہوں، الائونسز اور دوسری تمام مراعات کے علا وہ اب انہیں بالترتیب چار لاکھ اور پونے چار لاکھ روپے ماہانہ الائونس دینے کا حکم جاری کیا ہے۔ اس نوازش نامے کے تحت سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکر ٹری کو بھی تین لاکھ روپے ماہانہ سپیشل الائونس ملے گا۔ حکومت پنجاب کے جاری کردہ ایک حکم نامہ نمبرso(b&a)2-1/2017 dt:2-1-2017 کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ان کو ایک ڈرائیور، اردلی کی خدمات فراہم کرنے کے علاوہ کسی حد تک بجلی، گیس اور پٹرول کی سہولت بھی مفت ملتی رہا کرے گی۔