پاکستان کے سیاسی اور غیر سیاسی منظر پر پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) چھائی رہی، اس کا فائنل میچ لاہور میں ہونا ہے۔ اتوار کا دن اس کے لئے طے ہے۔ جناب نجم سیٹھی اس کے سربراہ ہیں اور ان کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے کرکٹ کو ایک طرح سے نئی زندگی بخش دی ہے۔ شہروں کی بنیاد پر کرکٹ ٹیمیں تشکیل دی گئیں۔ ان کے ''مالکان‘‘ ڈھونڈے گئے یا یہ کہہ لیجئے کہ پہلے مالکان میدان میں آئے، پھر انہوں نے ٹیمیں بنائیں۔ ابھر کر آنے والے کھلاڑی ان میں شامل کئے گئے۔ تجربہ کار قومی کھلاڑی بھی ان کی صف میں آ گئے... ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز... غیر ملکی کھلاڑیوں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں اور یوں یہ کہیے کہ ایک ملغوبہ تیار کر لیا گیا۔ اس کے لئے ''گلدستہ‘‘ کا لفظ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کہ اس میں ہر پھول اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہوئے اجتماعیت کا حصہ بن جاتا ہے۔ اس طرح نئے کھلاڑیوں کو سیکھنے اور آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے اور یہ ملا بھی ہے۔
عمران خان عرصہ دراز سے یہ بات کہتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان میں کرکٹ کو توانا کرنے کے لئے شہروں (یا صوبوں) کی بنیاد پر ٹیمیں تیار کی جانی چاہئیں۔ اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اس طرح جو جوش و خروش پیدا ہو گا، وہ کرکٹ کی گاڑی کے لئے ایندھن کا کام دے گا اور یہ فراٹے بھرنے لگے گی۔ اس نقطہء نظر کے مخالف بھی موجود ہیں۔ وہ مختلف نیم سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے ذریعے کھلاڑیوں کی سرپرستی جاری رکھنے اور اس میں نئی روح پھونکنے پر زور دیتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ جو کھلاڑی کسی ادارے کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے، اس کا پورا کیریئر محفوظ ہو جاتا ہے۔ کرکٹ تو وہ چند ہی سال کھیلنے کے قابل ہو گا، لیکن اس کے بعد بھی اس کی ملازمت جاری رہے گی (اور رہتی ہے یا رہتی رہی ہے) اس طرح اسے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے میں کوئی دشواری نہیں ہو گی۔ کروڑوں میں کھیلنے والے تو چند ہی کھلاڑی ہوں گے۔ ہر ایک پر تو قسمت کی دیوی یکساں طور پر مہربان نہیں ہوتی۔ ادارے البتہ بڑی تعداد میں کھلاڑیوں کو سمیٹ لیں گے۔ ایک زمانے تک پاکستان میں یہی ہوتا رہا ہے۔ کھلاڑیوں کو مختلف اداروں ہی نے پالا پوسا ہے، لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے یہ ذوق و شوق ماند پڑ چکا ہے اور اس کی وجہ سے قومی کرکٹ اور دوسرے کھیلوں کو بھی شدید نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ... ''پاسباں کعبے کو مل گئے صنم خانے سے‘‘... تو کرکٹ کے میدان میں بھی عمران خان صاحب کے تصور، تجویز یا مطالبے کو عملی جامہ پہنانے کی سعادت نجم سیٹھی صاحب کے حصے میں آ گئی۔
سیٹھی صاحب ایک پڑھے لکھے اور باوقار میڈیا پرسن ہیں۔ انہوں نے صحافت کے میدان میں بھرپور کردار ادا کیا اور عزت کمائی ہے۔ ان سے اختلاف کرنے والے بھی انہیں احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ بدقسمتی یا خوش قسمتی سے انہیں گزشتہ عام انتخابات سے پہلے پنجاب کی نگران حکومت کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا تھا۔ حکومت اور اپوزیشن یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)‘ دونوں ان کے نام پر متفق تھے۔ عمران خان صاحب اپنی تحریک انصاف کے ساتھ تیسرے بڑے فریق تھے۔ انہوں نے بھی ہنسی خوشی انہیں قبول کر لیا۔ یوں نجم سیٹھی صاحب نے اپنے مخصوص کھلے ڈھلے انداز میں وزارت اعلیٰ کی گدّی پر تشریف رکھ دی۔ انتخابات کے دن تک ان سے کسی فریق کو کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ اکاّ دکاّ اخبار نویس چٹکیاں لیتے یا گدگدیاں کرتے رہے۔ سیٹھی صاحب نے اس کے باوجود صبر و حوصلے سے کام جاری رکھا۔ حسب توفیق مسائل حل کرنے اور مطالبات ماننے میں لگے رہے۔ عمران خان صاحب کی فرمائشوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ جہاں انہیں کوئی شکایت پیدا ہوتی، وہاں وہ ازالہ لے
کر پہنچ جاتے، لیکن انتخابی نتیجہ حسب منشاء برآمد نہ ہوا تو خان صاحب جلال میں آ گئے۔ کسی نے ان کے کانوں میں پھونک دیا کہ سیٹھی صاحب نے 35 پنکچر لگوا ڈالے ہیں، یعنی 35 نشستوں پر دھاندلی کا ارتکاب کر ڈالا ہے۔ وہ دن جائے آج کا آئے، دونوں کے درمیان گرم اور سرد جنگ جاری رہتی ہے۔ سیٹھی صاحب نے ہتک عزت کا مقدمہ کر دیا تو خان صاحب نے ہنس کر اپنے الزام کو سیاسی قرار دے ڈالا۔ عدالت میں پیش ہونے پر وہ تیار نہیں ہیں اور عدالت یک طرفہ کارروائی پر تیار نظر نہیں آتی، اس لئے ابھی تک مقدمے کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا۔ بہرحال سیٹھی صاحب نے پی ایس ایل کا میلہ دبئی میں رچایا کہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں نے اسے ناممکن بنا دیا تھا تو پورے پاکستان ہی کی نہیں، دنیائے کرکٹ کی توجہ بھی حاصل کر لی۔ ہر طرف دھوم مچ گئی۔ پاکستانی شائقین خاص طور پر دیوانے ہو گئے اور مطالبہ ہونے لگا کہ کم از کم فائنل تو لاہور میں کرا دیا جائے۔ سیٹھی صاحب نے بھی ترنگ میں آ کر نعرہ لگا دیا کہ فائنل میچ لاہور میں ہو گا۔ پاکستان بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور ہر شخص کرکٹ میلے کا انتظار کرنے لگا... کئی دنوں سے دہشت گردی کی کوئی بڑی واردات لاہور میں نہیں ہوئی تھی، اس لئے راوی امن چین لکھ رہا تھا۔ اچانک ایک دن مال روڈ پر اسمبلی ہال بلڈنگ کے سامنے خود کش دھماکہ ہوا جو دو اعلیٰ پولیس افسران کی جان بھی لے گیا۔ اس پر یاس و قنوطیت کے بادل گھر گھر آئے اور تجزیہ نگار لمبی زبانوں کے ساتھ میدان میں آ گئے کہ یہ پی ایس ایل کے فائنل کو لاہور میں نہ ہونے دینے کے لئے اس دشمن کی سازش ہے، جو پاکستان میں عالمی کرکٹ کا انعقاد نہیں چاہتا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر باجوہ نے چھکا لگا دیا کہ فائنل لاہور ہی میں ہو گا۔
پاکستانی قوم نے دہشت گردوں کے چیلنج کو قبول کرنے کا ارادہ کر لیا۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بھی اس جذبے میں شریک نظر آئے۔ نجم سیٹھی اور کرکٹ لورز نے بھی دیوانگی سے توبہ کرنے سے انکار کر دیا اور اب یہ فائنل ہے کہ لاہور میں ہو رہا ہے۔ عمران خان صاحب خود پر قابو نہ رکھ سکے، انہوں نے اسے ایک بڑا رسک قرار دے دیا۔ چند روز بعد یہ کہہ گزرے کہ فوج لگا کر تو عراق اور شام میں بھی کرکٹ میچ کرایا جا سکتا ہے۔ ان کی بجائی ہوئی خطرے کی گھنٹی نے کئی غیر ملکی کھلاڑیوں کو بھی پاکستان آنے سے انکار کا حوصلہ دے دیا... آصف علی زرداری نے دھیمے لہجے میں اس حرکت کو ''رسکی‘‘ قرار دیا، لیکن لوگ اس قدر پُرجوش ہو چکے ہیں کہ تحریک انصاف بھی (پوری کی پوری) خان صاحب کے موقف کو قبول نہیں کر پا رہی، البتہ اس کے بعض رہنما بعض تبصرہ نگار اور بعض سابق کھلاڑی ابھی تک یہ رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ فیصلہ درست نہیں ہوا، اس میچ سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ حالانکہ جب فیصلہ ہو جائے تو پھر بحث کو جاری رکھنا ''خلط مبحث‘‘ قرار پاتا ہے۔ پاکستانی اہل (اور نااہل) دانش ور جانے کب بحث اور اختلاف کے وقت اور حدود سے آشنا ہوں گے، کب اپنے آپ کو یہ تعلیم دے سکیں گے۔ اب جبکہ سب تیاریاں مکمل ہیں تو منفی نکتے اٹھانے اور شوشے چھوڑنے کی ضرورت نہیں۔ اب تو دعا کرنی چاہئے کہ یہ گھڑی بخیر و خوبی گزر جائے کہ قومیں خوف کی کال کوٹھڑی میں قید ہو کر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ انہیں کھلے آسمان اور کھلی زمین پر خطروں کا سامنا کرنا اور دشمن پر جھپٹنا پڑتا ہے۔ پی ایس ایل کے فائنل کے بعد عالمی کرکٹ (پاکستان میں) بحال ہو یا نہ ہو، ہمارا لہو تو گرم ہو گیا ہے، اسے لہو گرم رکھنے کا اک بہانہ ہی سمجھ لیجئے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]