اب ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے : کل کلاں پاناما لیکس پر فیصلہ اگر وزیرِ اعظم کے خلاف صادر ہو گیا تو کیا ہوگا؟ جب زمین و آسمان ہی بدل جائیں گے توکرکٹ میچ پر اس ہیجان کی کیا توجیہہ پیش کی جائے گی ؟ابتلا کا مارا کوئی پاکستانی جب پوچھے گا ؎
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں
یہ میچ سب سے بڑا مسئلہ اور موضوع کیسے بن گیا؟ میرؔ صاحب نے کہا تھا : ؎
مسائل اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے
عمر بھر میرؔ صاحب کا مسئلہ روزگار رہا یا مجروح انا کو بچائے رکھنا۔ اپنے عہد کو میرؔ نے اس طرح بیان کیا ہے ؎
چور اچکّے‘ سکھ مرہٹے شاہ و گدا سب خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے‘ فقر ہی اک دولت ہے یہاں
ہمارا حال بھی یہی ہے۔ دنیا بھر کے آلام نے ہمیں تاک لیا ہے۔ اوّل روز سے بھارتی قیادت‘ نئے ملک کو تباہ و تحلیل کرنے پر تلی ہے۔ افغانستان کی امریکہ نواز انتظامیہ اس کی مددگار ہے۔ خود ملک کے اندر مذہب اور جہاد کی غلط تعبیر کرنے والے بعض عناصر قتل و غارت کے درپے ہیں۔ لوٹ مار ہے‘ سرمایہ ملک سے فرار ہو رہا ہے۔ سول ادارے تباہ ہو چکے۔ اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کسی کو اس بربادی کا احساس نہیں۔
ایسے میں قلم اور سیاست کے دھنی اپنی تمام توانائی‘ کرکٹ کے اس میچ پہ لگا رہے ہیں ، چند دن میں جو بھلا دیا جائے گا۔ دانش اس پہ بھگاری جار رہی ہے۔ فلسفے اس پہ تراشے جا رہے ہیں۔ سیاست اس پہ ہو رہی ہے۔ ؎
ریگِ رواں پہ نقش قدم اور کتنی دیر؟
ہم اور کتنی دیر‘ تُم اور کتنی دیر؟
میلے ٹھیلے بھی ہوتے ہیں‘ بسنت بہار‘ عید‘ تہوار کی تقریبات بھی مگر کتنے اہم؟ فیلڈ مارشل ایوب خان کے آخری دنوں میں ایئر مارشل اصغر خان تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی طرح نمودار ہوئے۔ خان صاحب کی مقبولیت کا نقطہ عروج تو خیر 1977ء کی تحریک تھی‘ جب کراچی میں آٹھ لاکھ شہریوں نے ان کا خیرمقدم کیا‘ دراں حالیکہ کسی جلوس اور جلسے کا اعلان تک نہ کیا گیا تھا مگر اس سے پہلے بھی وہ مقبول تھے بلکہ ایک اساطیری شخصیت۔ راز اس کا یہ تھا کہ پاکستان ایئر فورس کی تشکیل و تعمیر ان کے ہاتھوں میں ہوئی تھی۔ 1965ء کی جنگ میں‘ جس نے خیرہ کن کارنامے انجام دیئے تھے۔ ایک سیاستدان کی حیثیت سے خان صاحب نے جوبھی غلطیاں کیں‘ وہ اپنی جگہ ، المیہ یہ ہوا کہ ٹھیک اس وقت جب وہ مقبولیت کے عروج پر تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو نمودار ہوئے۔ مفلسوں کی محرومی اورقلق کا وہ ادراک رکھتے تھے۔ بھارتی عزائم کا بھی۔ افتادگان خاک کے جذبات کو انہوں نے الفاظ عطا کیے ۔بھارت کو للکارا تو پنجاب ان پر فدا ہو گیا۔ لاہور آئے تو عباس اطہر مرحوم نے سرخی جمائی۔ شہرِ ستمبر بھٹو پر نچھاور ہو گیا۔
رنجیدہ اصغر خاں نے کہا : یہ ایک تماش بین قوم ہے۔ ہوگی مگر سیاست دانوں اور دانشوروں کا‘ میڈیا کا کیا یہ فرض نہیں کہ اس کی تربیت کرے۔ قومی ترجیحات کو اجاگر کرتا رہے۔ افراد کی طرح اقوام کی بلوغت کا سفر بھی مرحلہ وار طے ہوتا ہے۔ یہ پختہ سڑک کا سیدھا راستہ نہیں ہوتا۔ تاریخ حادثات سے بنتی ہے۔ زندگی کو پروردگار نے تنوع اور کشمکش میں تخلیق کیا اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔ حادثات اور المیوں میں‘ ہر چیلنج میں مواقع پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہر سانحے میں ایک سبق۔ غور و فکر کرنے والوں کا کام یہ ہے کہ ان کی شناخت کریں۔ خود ادراک پائیں اور دوسروں کی مدد کریں۔ صحرا میں پڑی خاک کی طرح آندھی کا بگولا نہ بن جائیں۔
لاہور کے کرکٹ میچ پر‘ دونوں طرف سے زہر یلے تیربرسانے کا کیا جواز ہے ؟ آراء‘ مختلف اور متصادم سہی مگر نیتوں پر شبہ کیوں ؟ نجم سیٹھی ہوں یا عمران خاں ‘ کوئی بھی لاہور کو کیوں تڑپتا ہوا دیکھنا چاہے گا۔ رائے کے اختلاف کا مطلب یہ کیسے ہو گیا کہ کوئی عوام یا ملک کا دشمن ہے۔ مزاج بہت بگڑگئے ہیں ۔ اس قدر کہ کوئی عام سی بات بھی معمول کے لہجے میں نہیں کی جاتی۔
خود ترحمی پر مشتمل رومانی کہانیوں سے اکتا کر‘ لاہور کی فلمی صنعت نے تشدد اور بلند آہنگ مکالمے کی راہ لی۔ ولن کو ہیرو بنا دیا گیا۔ رفتہ رفتہ مبالغہ اور خون خرابہ اس قدر بڑھا کہ پوری کی پوری صنعت زمیں بوس ہو گئی۔ ساری صنعت کا بار ایک آدمی‘ سلطان راہی پر آ پڑا۔55برس کی عمر میں جو نوجوان ہیرو کا کردار ادا کرتا۔ ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہوا تو فلمی صنعت بھی دفن ہو تی گئی۔ ایک نوجوان کو‘ اس کی نقالی پر آمادہ کیا گیا۔ نیا آدمی غیر معمولی صلاحیت کا اداکار تھا۔ ایک نقال مگر کتنا دل نواز ہو سکتا ہے؟ ایک ہی کہانی کتنی بار دیکھی اور سنی جا سکتی ہے۔ کیایک رخی‘ سطحی اور تلخ پاکستانی سیاست‘ جس کی تہہ میں حصول اقتدار اور انتقام کے شدید جذبات کارفرما ہیں‘ پاکستانی فلمی صنعت کے سے المیے کی طرف نہیں بڑھ رہی؟
لاہور کے میچ پر سب سے پہلے ایک ٹی وی میزبان نے خدشات کا اظہار کیا تھا‘ جو خود بھی کرکٹ کا کھلاڑی ہے‘ سوشل میڈیا کا بھی۔ ایک نہیں‘ پورے نو عدد دلائل اس نے پیش کئے تھے۔ مرکزی نکتہ اس کا یہ تھا کہ دہشت گردی پر تلے بد نہاد دشمن کو ملحوظ رکھیے تو غیر ضروری طور پریہ بہت بڑا خطرہ مول لینے کے مترادف ہے ۔ قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے ۔ عمران خاں نے یہ بات بعد میں کہی ؛اگرچہ ظاہر ہے کہ اب زیادہ لوگ متوجہ ہوئے ۔ رائے مسترد کی جا سکتی ہے ۔خاص طور پر اس لیے کہ لڑاکا عورتوں کے مباحثے کی سی سیاست اورٹاک شوز کی ماری قوم تفریح کو ترس گئی تھی ۔ کرکٹ ہی واحد راہِ فرار ہے ۔ بسنت کا انعقاد ممکن نہیں ۔ دوسری عوامی سرگرمیاں ناپید ۔ ایسے میں میڈیا نے ہیجان پیدا کر کے ساری قوم کو ایک مشغلے کی طرف مزید متوجہ کر دیا ۔ میچ کا انعقاد اگر خلق چاہتی ہے تو ضرور ، خوب اور بہت خوب ، مگر فضا میں زہر گھولنے سے کیا حاصل ؟ ارشاد ہوا کہ پاکستانی قوم نے خوف زدہ ہونے سے انکار کر دیا۔ بجا ارشاد مگر یہ تو ایک پہلو ہے ۔ زیادہ اہم یہ ہے کہ جن اداروں ، پولیس ، عدلیہ اور انتظامیہ کی یہ ذمہ داری ہے ، کیا اپنا فرض وہ ادا کر رہے ہیں ؟ پولیس وہی نکمّی ، عدالت وہی بے نیاز، انتظامیہ کے وہی لچھّن ۔ الزام یہ کہ عمران خاں خون خرابے سے خوش ہوں گے ۔لاحول ولا قوۃ الا باللہ۔انکشاف یہ کہ براہِ راست بات کر کے اس نے غیر ملکی کھلاڑیوں کو روکنے کی کوشش کی ،سفید جھوٹ!
سارا بوجھ فوج پر ڈال دیا گیا ۔ چیف آف آرمی سٹاف سے فوجی دستے فراہم کرنے کی التجا کی گئی اور بیان جاری کرنے کی بھی ۔ سکول بند پڑے ہیں ۔ راستوں پر پہرے بٹھا دئیے گئے اور بعض کو عام آدمی کے لیے ممنوع قرار دے دیا گیا۔ آٹھ اضلاع کی پولیس لاہور طلب کر لی گئی ۔ کوئی حساب لگائے تو پتہ چلے ۔ اندازہ یہ ہے کہ اخراجات آمدن سے زیادہ ہوں گے ۔ بد ذوقی کی انتہا یہ کہ ٹکٹ لیگی لیڈروں کو دئیے گئے کہ اپنے حامیوں کو بیچیں ۔ خدشہ یہ تھا کہ تحریکِ انصاف کے نوجوان نواز شریف کے خلاف نعرہ بازی کریں گے ۔ منصوبہ یہ بنا کہ میاں صاحب کے حق میں شور و غوغا ہو ۔ ؎
بے دلی ہائے تمنا کہ عبرت ہے نہ ذوق
بے بسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دین
سٹیڈیم میں نعرے نواز شریف کے خلاف لگنا چاہئیں اور نہ حق میں ۔کھیل کو کھیل ہی رہنے دو، غیر ملکیوں کی موجودگی میں خود کو تماشاکیوں بناتے ہو ؟
اب ایک سوال ذہن میں ابھرتا ہے : کل کلاں پاناما لیکس پر فیصلہ اگر وزیرِ اعظم کے خلاف صادر ہو گیا تو کیا ہوگا؟ جب زمین و آسمان ہی بدل جائیں گے توکرکٹ میچ پر اس ہیجان کی کیا توجیہہ پیش کی جائے گی ؟ابتلا کا مارا کوئی پاکستانی جب پوچھے گا : ؎
دل کے ٹکڑوں کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں
کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں ہے کہ نہیں