شام تک ہماری کسی نے خبر نہ لی۔ نہ کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کا فون آیا نہ یہاں سے کوئی فون گیا ۔میں نے یاد دہانی تو کرائی بیدی صاحب کے والد بیمار ہیں چل کے پوچھ لینا چاہیے۔ سُنی ان سُنی کر دی سب نے۔ مغرب کے قریب قریب بیدی صاحب تشریف لائے‘ کہنے لگے مجھ سے‘ میں نے آپ کی کتابیں دیکھی ہیں خصوصاً ''بیاضِ مبارک‘‘ آپ کے والد بڑے صاحبِ ذوق تھے۔ میں بھی آپ کے پڑوس میں زمیندار تھا۔ ریاست بہاولپور سے ملحق دیپالپور پنجاب میں میرے والد کی اکتیس ہزار ایکڑ زمین تھی لیکن یہاں تو میرے پاس صرف اٹھارہ ایکڑ ہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ تک بیدی صاحب موٹر چلاتے ہوئے گیان دھیان میں مصروف رہے۔ سوار ہونے سے پہلے خبردار کر دیے گئے تھے ہم سب ‘کہ صاحب ہم سے بات نہ کیجیے۔ اختر فیروز سگریٹ سلگانے پر مصر تھے مگر باز رکھے گئے ۔ بعضے بعضے سکھ تو سگریٹ پی بھی لیتے ہیں مگر اکثریت نفور ہے‘ کنور صاحب بھی سگریٹ نہیں پیتے۔ غالب انسٹی ٹیوٹ دو تین شاندار عمارتوں کا مجموعہ ہے‘ کچھ حصے کرائے پر چڑھے ہوئے ہیں ایک خاصا بڑا خوبصورت کمرۂ اجلاس ہے جسے مختلف ادارے اور لوگ کرائے پر لے کر استعمال کر سکتے ہیں۔ کتب خانہ ہے‘ کتب خانے میں اتنی گنجائش بھی ہے کہ چھوٹی موٹی ادبی نشستیں بھی برپا کی جا سکیں۔ ایک حصہ غالبی عجائب گھر پر مشتمل ہے۔ یہ عجائب گھر
بڑی نادر چیزوں کا امین ہے۔ ایک کمرے میں غالب اور ہمعصرانِ غالب سجائے گئے ہیں۔ مشاعرے کا سماں ہے۔ غالب غزل سرا ہیں‘ ذوق مومن اور صہبائی کے درمیان ہم بھی سج گئے اور تصویر اتر گئی۔ غالب مرحوم کا چوغہ اور ہڈی کا بنا ہوا بحالت برہنگی ایک مجسمہ ایک مورتی سنگتراشی کا شکار ۔ یہ دو چیزیں تو غور سے دیکھ سکے‘ باقی چیزیں سرسری نظر سے گزریں۔ چائے بسکٹ مٹھائیاں میز پر چن دیے گئے تھے مہمان بھی تشریف لا چکے تھے۔ بعد میں سیر دیکھ لیجیو‘ چل چلائو لگ گیا۔ اِدھر اُدھر پوچھا تو بتایا گیا‘ جی ہاں وہ رہے مالک رام ‘ میں نے اپنا نام بتایا‘ تپاک سے ملے‘ جان گئے ''محفلے دیدم‘‘ از حیرت شملوی کی رسید نہ دینے پر معذرت اور اپنی ناسازئی مزاج کا ذکر کرتے رہے۔ میں مالک رام سے ہمکلام تھا کہ رئیس صاحب بھی آ گئے۔ آپ سے ملیے مالک رام ہیں‘ فرمایا زندہ غالب ہیں‘ یہ خوب کہہ گئے رئیس صاحب مالک رام بھی محظوظ ہوئے۔ مالک رام اور جگن ناتھ آزاد بصیغۂ راز گفتگو پنجابی میں کرتے رہے۔ پنجابی اور غیر پنجابی‘ ایک تنائو دلی میں یہ بھی ہے۔ کھانے پینے کے بعد کتب خانے میں نشست ہوئی۔ حاضری برائے نام پچیس تیس سامعین میں سے اٹھا کر کنور صاحب نے مجھے بھی سامنے مہمان شعرا کی صف میں لے جا کر بٹھایا۔ صدارت کر رہے تھے سابق مرکزی وزیر سفید ریش سرخرو سلیم حسن صاحب۔
مالک رام وغیرہ کی تقریروں کے بعد صادقین نے رُبا عیات سے محفل کو گرمایا۔ کنور صاحب اپنی پسند کی ایک رباعی صادقین سے ضرور سُنتے ہیں‘ ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎
میں صاحبِ اولاد بھی ہو سکتا تھا
بچوں کی والدہ ہی پیدا نہ ہوئی
صادقین نے خوب داد وصول کی۔ میں نے دیکھا آزاد داد دینے میں خاصے بخیل ہیں۔ بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ وہ داد محض دلجوئی کے لیے نہیں دیا کرتے‘ ایسا لگا منہ پھولا ہوا ہو جیسے ۔ جل ککڑے اور سازشی ہوں جیسے۔ لیکن یہ تو میرے وساوس تھے۔ بڑی محبت کے اقبالی ہیں وہ تو جگن ناتھ آزاد سے ان کی تازہ تصانیف کا ذکر آیا۔ خرید تو میں لیتا‘ دستخط کون کرتا اس پر آزاد خود کتابیں فراہم کر دینے پر آمادہ ہو گئے۔ صرف آمادہ ہی نہیں ہوئے ہمارے غیاب میں چندن گیٹ ہائوس آئے اور بپاسِ خاطر نہ سہی میری ہی تحریک تھی‘ ہم چاروں کے لیے دو دو نسخے کارکن مہمان خانہ کے حوالے کر گئے۔ آزاد کے لکھے ہوئے خاکوں کا مجموعہ ''آنکھیں ترستیاں ہیں‘‘ کے لیے واقعی آنکھیں ترس جاتیں اگر وہ عطا نہ فرماتے خاکہ نگاری میرا من لبھاتا کھاجا ہے۔ بزعم خود ہم بھی تو خاکہ نگار ہیں۔ جی لگا کر سبھی خاکے پڑھے گئے۔ ہزار حیف کہ آزاد سے میں اپنی بیاض پر کچھ لکھوا نہ سکا۔ بات کہاں سے کہاں پہونچی ۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی نشست کا اختتام رئیس صاحب پر ہی ہونا تھا۔ کوئی قطعہ وغیرہ تو نہیں ایک آدھ غزل سنا کر بیٹھ گئے۔ انسٹی ٹیوٹ کے نقیب ماہنامہ ''غالب‘‘ کے چار شمارے ہم چاروں کو دیے گئے۔ یہ کتاب نما رسالے وصول کرتے وقت میں نے بھی مطبوعات ِ حیرت شملوی اکادمی کا پلندہ انسٹی ٹیوٹ کے کتب خانے کے لیے پیش کر دیا۔ چاروں ''غالب‘‘ مجھ سے میرے پیارے پروفیسر جمیل اختر خاں نے چھین لیے ۔زبردستی کا ہی سہی اس سے اچھا تحفہ ان کے لیے اور کیا ہو سکتا تھا۔ غالب ہی کیوں‘ پروفیسر تو جگن ناتھ آزاد کی ایک کتاب بھی لے گئے ۔نام کسی سے پوچھوں تو یاد آئے۔ کنور صاحب نے غالب انسٹی ٹیوٹ کے خزانے سے ساڑھے سات سو روپے اختر اور رئیس صاحب کی جیبوں میں ٹھنسوائے۔ پیسے کچھ کم پڑ رہے تھے وہ کمی خواجہ حسن ثانی نظامی کی جیب ہلکی کر کے پوری کی گئی۔ یہ کوئی مشاعرہ تو نہ تھا‘ استقبالیے کا معاوضہ یہاں دیکھا۔ کنور صاحب کی کرامت۔ پاک ہند پریم سبھا کے راگ رئیس اور اختر نے یہاں بھی الاپے۔ اختر فیروز تو فرماتے ہیں ہم ہندوستان سے پاکستان آنے والوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ حُسنِ طلب اور چیز ہے۔ یہ تو بھونڈا پن تھا۔ جو غزلیں کل سنی تھیں وہی آج سُنا دیں ۔رئیس صاحب نے استقبالیے میں ہماری خبر رساں ایجنسی پی پی کے نمائندے بھی تھے۔ سوٹ بوٹ کسے ہوئے۔ کنور صاحب نے کار سے اترتے ہی کہا آپ یہ قومی لباس پہن کر آئے ہیں۔ ہمارے خبر رساں ادارے کے یہ حضرت جھیپنے ویپنے قطعاً نہیں۔ غالب انسٹی ٹیوٹ کی کتاب الآراء پر اختر فیروز اور محمود صاحب کو لکھتے دیکھا تو میں نے بھی لپک کر اپنا رعب گانٹھ ہی دیا ہم بھی تو آخر ہیں۔ بھاگا دوڑی کا سماں تھا۔ اس لیے میں یہ نہ پڑھ سکا رئیس صاحب نے کیا لکھا۔ میں نے تو یہ لکھا کہ درگاہ نظام الدین اولیاؒ اور مقبرہ امیر خسرو نہیں‘ میرے قلب و نظر کی راحت کا سامان مزارِ غالب پر ہُوا۔
غالب انسٹی ٹیوٹ میں یہ تقریب سرسری رہی۔ کنور صاحب کی موٹر میں سڑکوں سڑکوں ہوتے ہوئے گلزار زتشی کے محلے میں گئے۔ گلزار رہنمائی کیا چاہتے تھے۔ کنور صاحب چمک کر بولے‘ گلزار! میں 1942ء سے دلی کی خاک چھان رہا ہوں مجھے سب راستے معلوم ہیں‘ کنور صاحب گلزار کی صلاحیتوں کے قائل ہیں البتہ بے اعتدالیوں سے نالاں ہیں ۔ دونوں حریف اوپری دل سے مدّاحانہ منافقانہ مکالمہ کرتے رہے۔ کنور صاحب ہمیں کار سے اُتار کر چلے گئے۔
آج کا مطلع
مت سمجھو وہ چہرہ بھول گیا ہوں
آدھا یاد ہے‘ آدھا بھول گیا ہوں