پورے برصغیر میں اس سڑتے ہوئے سرمایہ دارانہ سماجی و معاشی نظام کی وجہ سے سماجوں میں ایک بے چینی، تعفن اور کراہت جنم لے چکی ہے۔ اس کا اظہار مختلف شکلوں اور واقعات میں ہوتا ہے۔مودی کی قیادت میں بی جے پی کی اکثریتی حکومت آنے کے بعد ہندوستان میں تنگ نظر وطن پرستی کی نعرے بازی مزیدزہریلی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس کی وزارت عظمیٰ کے دوران جب بھی ہندو انتہاپسند کسی احتجاجی آواز کو متشدد طریقے سے کچلتے ہیں تو پولیس اور ریاستی ادارے اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان گنت ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جن سے نفرتیں مزید بڑھی ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے گائے کا گوشت کھانے کے ملزم مسلمان کو مار کر قتل کرنے سے لے کر پاکستانی اداکاروں پر پابندی لگانے کے ثقافتی جبر تک، سب اسی ہندوتوا ٹولے کی کارستانیاں ہیں۔
ایک حالیہ واقعے نے نئے تنازعے کو جنم دیا ہے۔ دہلی یونیورسٹی کی بیس سالہ طالبہ اور ایکٹوسٹ گرمہر کور نے یونیورسٹی کیمپس میں بی جے پی کے طلبہ ونگ 'اکھل بھارتیہ ودھیارتھی پریشد‘ (ABVP) کے تشدد پر تنقید کی۔ کچھ عرصہ پہلے اس نے پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے پیغام کی ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی جس میں اس نے کہا، ''میرے والد کو پاکستان نے نہیں بلکہ جنگ نے قتل کیا۔‘‘ اس پر ہندو بنیاد پرستوں نے اُس کے خلاف انتہائی گھٹیا اور زہریلی مہم شروع کر دی ۔گرمہر کے مطابق ABVP کی جانب سے اسے بلادکار کی دھمکیاں دی جارہی ہے۔ منگل کو گرمہار دہلی یونیورسٹی کیمپس میں بنیاد پرستوں کے تشدد کے خلاف احتجاج سے الگ ہوگئی ہے۔ اس نے متعدد ٹویٹس میں کہا، ''میں اتنا ہی کرسکتی تھی‘‘، اس نے دوسروں سے اپیل کی کہ وہ ''دہلی یونیورسٹی بچائو‘‘ مارچ میں بڑی تعداد میں شریک ہوں۔
گرمہر کور کا والد انڈین آرمی میں ایک کیپٹن تھا جو 1999ء کی کارگل جنگ میں لائن آف کنٹرول پر مارا گیا تھا۔ گرمہر کور کی جانب سے دو ایٹمی ہمسایوں کے درمیان امن کے پیغام کو ہندو بنیاد پرستوں اور قوم پرستوں،بشمول کرکٹر وریندر سہواگ، نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سہواگ نے طنزیہ ٹویٹ کیا،''دو ٹرپل سنچریاں میں نے نہیں میرے بلے نے بنائیں۔‘‘ سہواگ کی یہ ٹویٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی اور لوگوں نے گرمہر کو طعنے اور جسمانی تشدد کی دھمکیاں تک دیں۔ اس نے این ڈی ٹی وی نیٹ ورک کو بتایا، ''مجھے سوشل میڈیا پر بہت سی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ یہ انتہائی خوفنا ک ہے جب لوگ آپ کو تشدد اور بلادکار کی دھمکیاں دے رہے ہوں۔ ‘‘جب اس سے سہواگ کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا، ''میرا دل ٹوٹ گیا ہے، کیونکہ انہی لوگوں کو دیکھ دیکھ کر ہم جوان ہوئے ہیں۔‘‘
اس سے پہلے اداکار رندیپ ہدا بھی گرمہر کے خلاف اس مہم میں سہواگ کے ساتھ شامل ہوا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سماجی محرومی کی وجہ سے ہندوستان اور پاکستان میں ایسے رجعتی اداکاروں اور کھلاڑیوں کی عوام میں کافی پذیرائی ہے۔ ہندوستان میں کرکٹر اور بالی ووڈ کے سٹارز کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی ہے۔ کرکٹ کے ہیروز اور فلموں کے سٹارز وطن پرستی کو استعمال کرکے اپنی شہرت میں اضافہ کرتے ہیں اور سماج کے درمیانے طبقات اور پسماندہ پرتوں میں نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں یہ رجحانات بکثرت پائے جاتے ہیں۔
لیکن ہندوستان کے وحشیانہ حدتک جنگی جنون میںمبتلا میڈیا میں بھی گرمہر کور کو اس طرح نشانہ بنانے کے خلاف کچھ میڈیا ہائوسز نے اعتراض کیا۔ منگل کو ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ گرمہرکور کے خلاف دھمکیاں ''اظہار رائے کے بنیادی حق پر حملہ ہے جسے ABVP اور ان کے حواری پسند نہیں کرتے۔ یہ اب ایک رسم بن گئی ہے کہ طلبہ، لکھاری، پروفیسر، فلم میکر اور صحافی جب بھی اپنی آزادانہ رائے کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو دھمکایا جاتا ہے۔‘‘ این ڈی ٹی وی کی ویب سائٹ پر لکھا گیا،''گرمہر ان گنے چنے لوگوں میں سے ایک ہے جو سمجھتے ہیں کہ جنگ میں کوئی بھی نہیں جیتتا۔ شاید اس نے سیاست کا غلط اندازہ لگایا کیونکہ آج کل سیاست جنگوں پر ہی چلتی ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو داد دینا چاہیے کہ حکمران سیاست دانوں اور سٹارز کے کچھ ٹولوں نے وہ کردکھایا جو اس کے والد کی موت بھی نہ کرپائی، لیکن ہم نے اسے خاموش کردیا۔ آج گرمہر کور کو قوم دشمن اور والد کے لیے باعث شرم قرار دیا جارہا ہے۔ ہاں! اس کے والد کو شرم آتی کیونکہ جس ملک کے لیے اس نے اپنی جان دی آج اسی ملک میں اس کی بہادر بیٹی کو دائود ابراہیم کے برابر کھڑا کیا جارہا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہم صرف لوگوں کو استعمال کرتے ہیں۔ ہم نے گرمہر کے والد کی قربانی کو اس کے اور اس کے خاندان کے خلاف ہی استعمال کیا۔ ہمیں خطرہ اپنی ملک کے اندر سے ہے۔ جناب وریندر سہواگ! ہم میں سے کوئی بھی کامیاب نہیں ہوگا۔‘‘
تاہم موجودہ کیفیت میں سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ان نفرتوں کے خلاف ایک حقیقی اپوزیشن کی عدم موجودگی کے باوجود دہلی اور دوسرے شہروں میں طلبہ کے احتجاج پھٹ پڑے ہیں۔ یہ ہندوستان میں گزشتہ کچھ عرصے سے جاری طلبہ سیاست کے تحرک کا ہی تسلسل ہے۔ہندوستان کے دارالحکومت میں منگل کو گرمہر کور کے حق میں اور آن لائن دھمکیوں کے خلاف طلبہ نے احتجاج کیے۔نئی دہلی میں متعدد کالجوں سے طلبہ اس بنیاد پرست دھونس کے خلاف نکل آئے۔ یہ احتجاج ہندوستان کی دوسری ریاستوں اور خطوں میں پھیل سکتا ہے۔ پچھلے سال اسی طرح کی ایک تحریک جواہرلعل نہرو یونیورسٹی (JNU) سے شروع ہوئی تھی جو ہندوستان کی اٹھارہ ریاستوں میں پھیل گئی تھی اور اس کے اثرات پورے جنوب ایشیا کے نوجوانوں اور طلبہ پر مرتب ہوئے۔
2015ء اور 2016ء میں ہندوستان کے محنت کش طبقے نے دنیا کی سب سے بڑی دو عام ہڑتالیں کیں۔ ٹریڈ یونین لیڈروں نے محنت کشوں کے دبائو پر اس ہڑتال کی کال دی تھی۔ جب سے مودی برسراقتدار آیا ہے اس وقت سے محنت کشوں، طلبہ، کسانوں اور سماج کی دوسری محکوم پرتوں نے متعدد بار کروٹ لی ہے۔ ان میں سب سے اہم پچھلے سال کا کشمیر کا تیسرا انتفادہ ہے۔ اس نے بھارتی ریاست کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ لیکن سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ تحریک بڑی حد تک باقی علاقوں سے الگ تھلگ رہی اور قیادت نے اس تحریک کو طبقاتی بنیادوں پر دوسری تحریکوں سے جوڑنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی۔ اس درمیانے طبقے کی قیادت کو محنت کش عوام، طبقاتی جدوجہد اور احتجاج کے ان انقلابی طریقوں پر کوئی یقین ہی نہیں ہے جن کے ذریعے محنت کش طبقہ سماج اور معیشت میں اپنی طاقت کو استعمال کرکے پوری ریاست کو مفلوج کردیتا ہے۔ ان رہنمائوں کی اکثریت کو ریاستی اداروں میں خوش فہمیاں ہیں اور وہ اسی وحشی ریاست سے عوام کے مسائل کے حل کی امید رکھتے ہیں۔
نریندر مودی ہندوستانی اور سامراجی سرمائے کے مفاد میں محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کے لیے منافرت کا استعمال کررہا ہے۔ ریاست کا کردار ہی حکمران طبقات کے مفادات کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ لبرل جمہوری جماعتوں کی جانب سے سیکولر ازم اور بنیاد پرستی کے تضاد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا محض ایک ڈھونگ ہے، کیونکہ یہ دونوں رجحانات اسی نظام کی حدود میں مقید ہیں۔ بد قسمتی سے کمیونسٹ اور بائیں بازو کی پارٹیوں کے رہنما بھی اس جعلی تضاد پر یقین رکھتے ہیں۔
گرمہر کور کے خلاف ان بنیادپرستوں کی وحشیانہ مہم ہندوستانی سرمایہ داری کے گل سڑ جانے کی غمازی کرتی ہے۔ اس رجعت کا زیادہ تر ماخذ درمیانہ طبقہ ہے۔ ہندوستانی سرمایہ داری کے بڑھتے ہوئے بحران کے نتیجے میں یہ رجعت وحشیانہ رجحانات میں بھی بدل سکتی ہے۔ ان منافرت کے رجحانات کو صرف طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر ایک ایسی انقلابی قیادت کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے جو اس بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو ہی اکھاڑ کر پھینکے جو اس سارے پاگل پن کی جڑ ہے۔