تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     06-03-2017

علی بابا پاکستان آ گیا

بچپن میں ہم نے علی بابا اور چالیس چور کی کہانی پڑھی تھی۔ اس کا ایک ڈائیلاگ کھل جا سم سم بہت مشہور ہوا تھا۔ آج کے بچوں کو شاید اس کا علم نہ ہو کیونکہ اب کھل جا سم سم کی جگہ ڈورے مون اور موٹو پتلو کارٹونز نے لے لی ہے۔ اگرچہ ڈورے مون بھی کھل جا سم سم سے ملتے جلتے تصور پر مبنی سیریزہے جس میں مرکزی کردار نوبیتا ڈورے مون کے سامنے فرمائش رکھتا ہے جو جھٹ سے پوری ہو جاتی ہے۔ کھل جا سم سم اس لئے مختلف تھاکہ یہ اس دور میں لکھا گیا ڈرامہ تھا جب ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس نہ تھی۔ تب کسی پہاڑ کے دہانے کا ایک آواز پر خودبخود کھلنا عجیب و غریب اور دلچسپ امر تھا۔ ہم جو اپنے اینڈرائڈ موبائل فون میں گوگل وائس کمانڈز کے ذریعے مختلف کام سر انجام دیتے ہیں یہ بھی اسی کی قسم ہے۔ گوگل کی مدد سے ہم بول کر کسی کو کال ‘ایس ایم ایس اور گوگل سرچ وغیرہ کر سکتے ہیں۔جس طرح علی بابا کھل جا سم سم کہہ کر پہاڑ کا ایک حصہ کھول لیتا اور اندر موجود ہیرے جواہرات تک پہنچ جاتا‘ اسی طرح اب پاکستانی عوام کو بھی معیشت کے پہاڑ میں چھپے خزانوں تک دسترس کا موقع ملنے والا ہے اور یہ موقع ان کے لیے علی باباگروپ لارہا ہے ۔ گزشتہ روز علی بابا گروپ کے وفد کی پاکستان آمد اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ملاقات کی خبر سنی تو یقین ہو گیا اب پاکستان کی تاریخ واقعی بدلنے والی ہے۔ علی بابا گروپ پاکستان میں آن لائن خرید و فروخت کو ایک نیا انداز دے گا جس سے ایک برس کے اندر لاکھوں لوگوں کو براہ راست روزگار مل سکے گا۔ 
علی بابا گروپ کا چیئرمین ''جیک ما ‘‘ صرف اٹھارہ برس میں ساڑھے تین سو ارب ڈالرز کے اثاثوں کا مالک بنا۔ وہ چین کی دس امیر ترین کاروباری شخصیات میں سے ایک ہے ۔ چین میں کھرب پتی دولت مندوں کی کوئی کمی نہیں لیکن جو شہرت اور کامیابی علی بابا گروپ کو نصیب ہوئی ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ علی بابا ای کامرس یا دوسرے الفاظ میں انٹر نیٹ پر کاروباری اور تجارتی سر گرمیوں کی سب سے بڑی چینی کمپنی ہے۔ 1999ء میں جیک ما کے ذہن میں خیال آیا کہ جس طرح انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا بھر سے لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں‘ تصاویر اور ویڈیوز کا تبادلہ کر رہے ہیں تو کیوں نہ ایک ایسا پلیٹ فارم شروع کیا جائے جس کے ذریعے عام لوگ انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے کو اشیا کی ترسیل بھی کر سکیں۔ اس مقصد کیلئے اس نے اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میںسولہ سترہ دوستوں کا ''اجلاس‘‘ بلایا اور کمپنی کی بنیادرکھ دی۔ آپ کمپنی کی کامیابیوں کی رفتار کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیںکہ آج علی بابا کے ہیڈ کوارٹر میں چونتیس ہزارسے زائد افراد ملازمت کرتے ہیں۔علی بابا نے گزشتہ برس اپریل میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنی وال مارٹ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے ۔ اس گروپ نے دو برس قبل جب نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں اپنے شیئرز بیچے تو ان کی اتنی ڈیمانڈ تھی کہ کمپنی نے بائیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ابتدائی سرمایہ کاری حاصل کر لی جو جلد ہی پچیس ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ تاریخی کامیابی تھی۔یہ گروپ چھوٹے اور درمیانے کاروبار کرنے والوں کو ایسی شاندار سہولیات فراہم کرتا ہے کہ ان کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگتا ہے۔ لوگ اس کی ویب سائٹس پر جاکر تقریباً ہر وہ چیز جو ذہن میں آسکتی ہے‘ منٹوں میں خرید لیتے ہیں۔ یہ شاپنگ ویب سائٹ کھربوں روپے کی معاشی سرگرمیاں کرتی ہے۔چودہ کروڑ سے زائدلوگ اس گروپ کی ویب سائٹس کو روزانہ استعمال کرتے ہیں ۔ لوگ ذاتی یا کاروباری مقصد کیلئے اشیا فوری منگوا سکتے ہیں۔ طریقہ بڑا آسان ہے۔ علی بابا پر ای میل کی طرح ایک اکائونٹ بنایا جاتا ہے جس کے بعد آپ بطور خریدار یا دکاندار لاکھوں اشیا کے ساتھ کھیل سکتے ہیں۔ ان اشیا میں سوئی سے لے کر جہازوں کے پرزے تک شامل ہیں۔ چین سمیت دنیا بھر کے کاروباری ادارے آپ کو آن لائن معلومات فراہم کرتے ہیں۔ آپ آن لائن پیسے ادا کرتے ہیں تو آپ کو مطلوبہ سامان مقررہ دنوں کے اندر موصول ہو جاتا ہے۔ علی بابا گروپ کی کامیابی کا اہم راز اس کا سادہ اور موثر نظام ہے۔ اسے ایک نیا کاروباری شخص بھی آسانی سے سمجھ لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس ویب سائٹ سے روزانہ ساڑھے تین ارب ڈالر سے زیادہ کی معاشی سر گرمیاں ہوتی ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ علی بابا گروپ سب سے پہلے ایک پاکستانی ویب سائٹ ''دراز ‘‘کو پندرہ ملین ڈالر یا ڈیڑھ ارب روپے میں خریدے گا۔ یہ کسی بھی پاکستانی ویب سائٹ کی پہلی اور سب سے مہنگی فروخت ہو گی۔ دراز پاکستان میں آن لائن شاپنگ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ بلیک فرائڈے اگرچہ ہمارا تہوار نہیں لیکن اس کے باوجود اس ویب سائٹ نے گزشتہ برس صرف جمعہ کے دن ایک ارب روپے کی فروخت کا ریکارڈ قائم کیا۔ علی بابا اگر اس ویب سائٹ کو خریدے گا تو یقینا اس میں علی بابا ڈاٹ کام کی طرز پر تبدیلیاں لائے گا اور اسے سینکڑوں گنا نفع بخش بنا دے گا۔ پاکستان میں گیارہ فیصد لوگ موبائل فون کے ذریعے یوٹیلٹی بلز جمع کراتے ہیں‘ موبائل کارڈز خریدتے ہیں‘ سکول کالج کی فیسیں ادا کرتے ہیںا ور ایک دوسرے کو پیسے ٹرانسفر کرتے ہیں۔ یہ گیارہ فیصد سوا دو کروڑ لوگ بنتے ہیں۔ علی بابا گروپ کے آنے کے بعد ان سوا دو کروڑ لوگوں کے لئے شاپنگ کے نئے در کھل جائیں گے اور یہ روزانہ کروڑوں کی محفوظ ترین شاپنگ کر سکیں گے۔ میں نے گزشتہ دو کالم انٹرنیٹ سے آمدن سے متعلق لکھے تھے۔ انہی دنوں پنجاب حکومت کی طرف سے ایک ای روزگار کا اشتہار بھی تمام اخبارات میں شائع ہوا تھا۔ اس پروگرام کے تحت اب لوگ گھر بیٹھے آن لائن کام کر کے پیسے کما سکتے ہیں۔ لوگوں کو مختلف سنٹرز میں پہلے ٹریننگ دی جائے گی جس کے بعد وہ بغیر کسی دفتر جائے اضافی رقم کمانے کے قابل ہو جائیں گے۔ یہ شاندار پروگرام ہے۔ پنجاب میں آئی ٹی کلچر جس تیزی سے بدل رہا ہے اس کے پیچھے پنجاب آئی ٹی بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر عمر سیف نظر آتے ہیں۔ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اور ہر شعبے کو کمپیوٹرائزڈ کرنے پر تلے ہیں۔ چند ہفتے یا چند مہینے کے بعد جب علی بابا گروپ دیگر 190ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی قدم رکھے گا تو یہ پاکستان میں شاپنگ کا کلچر ہی بدل دے گا۔ فی الوقت جو لوگ آن لائن کاروبار کر رہے ہیں وہ معیار پر توجہ نہیں دے رہے۔ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ انہیں انٹرنیٹ پر دکھایا کچھ جاتا ہے لیکن انہیں موصول ہونے والی چیز غیر معیاری اور مختلف ہوتی ہے۔علی بابا نے البتہ معیار پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ آپ اس سے جو چیز منگوائیں گے آپ کو سو فیصد وہی ملے گی۔ علی بابا کی طرح ایمزون بھی دنیا کی بڑی آن لائن تجارتی ویب سائٹ ہے۔یہ بھی نئی اوراستعمال شدہ اشیا دنیا بھر میں فراہم کرتی ہے۔ ایمزون کا بھارت کے ساتھ کئی برسوں سے معاہدہ ہے جس کی وجہ سے بھارت اس مد میں اربوں کما رہا ہے۔
اب آپ کو اپنے بچوں کے مستقبل کی وجہ سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ بس ایک کام کیجئے۔ پڑھائی یا نوکری کے ساتھ انہیں چند آن لائن یا ای کامرس کورسز ضرور کروائیے تاکہ وہ اضافی آمدن یا جیب خرچ کمانے کے قابل ہو سکیں ۔آن لائن کاروبار کے لئے نہ مہنگی دکانیں چاہئیں نہ غیر ضروری روایتی سرمایہ کاری۔ آپ اپنے گھر اور آٹھ دس ہزار والے ایک موبائل فون سے بھی کاروبار شروع کر سکتے ہیں۔تیار ہو جائیے‘ علی بابا کھل جا سم سم کہہ کر آپ کے معاش کے بند دروازے کھولنے والا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved