تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     07-03-2017

گوجرہ سے بادامی باغ تک

2009 ء کے موسم گرما میں گوجرہ میں آٹھ بے گناہ مسیحی افراد قتل کر دیے گئے۔ محض اس شُبہ میں کہ وہ توہین رسالت کی سنگین جرم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ 2 مارچ 2011 ء کو اسلام آباد میں اقلیتوں کے وفاقی وزیر (شہباز بھٹی) کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اس قتل سے صرف نو ہفتے بعد پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی اسی جرم کے ارتکاب پر قتل کر دیا گیا تھا۔ دو سال بعد (مارچ 2013ء میں) لاہور کے علاقہ بادامی باغ میں مسیحی گھرانوں کے درجنوں گھر جلا کر راکھ بنا دیے گئے۔ توہین رسالت کی بے بنیاد افواہ اس افسوس ناک واقعہ کی ذمہ دار تھی۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ واقعات اُس ملک میں رُونما ہوئے جس کے بنانے والے عظیم شخص نے قیام پاکستان کا یہ سیاسی جواز بیان کیا تھا کہ وہاں اقلیتوں کو اُس درجہ کا تحفظ، احترام اور مساوی حقوق ملیں گے جو مسلمانوں کو بطور ایک اقلیت غیر منقسم ہندوستان میں نہ مل سکتے تھے۔
یہ ہے وہ موضوع جس پر پاکستانی نژاد ادیب ندیم اسلم نے The Golden Legend کے نام سے اپنا پانچواں ناول لکھا، جو ان دنوں برطانیہ میں فروخت ہو رہا ہے اور نقادوں سے تحسین و تعریف کے پھول وصول کر رہا ہے۔ ندیم کے ناول کا موضوع چاہے کتنا اُچھوتا ہو، ناول کا نام کئی بار پہلے استعمال ہو چکا ہے جن میں سب سے مشہور وہ مذہبی کتاب ہے جو تیرہویں صدی میں جنیوا کے بڑے پادری Jacobus de Voragine نے لکھی، جو ایک زمانہ میں انجیل مقدس کے بعد مقبولیت کے اعتبار سے دُوسری بڑی کتاب تھی۔
پچاس سالہ پاکستانی نژاد ناول نگار ندیم اسلم چودہ برس کی عمر میں شمالی انگلستان کی کائونٹی یارک شائر میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے لگا اور باقی تعلیم برطانیہ میں مکمل کی۔ انگریزی لکھنا پڑھنا اور بولنا اُس کی تعلیم کا سب سے ضروری حصہ تھا۔ رسمی تعلیم تو چند سالوں میں مکمل ہو گئی ہوگی مگر ندیم نے اتنا وسیع ذاتی مطالعہ کیا کہ وہ گزشتہ سالوں میں انگریزی زبان کا جانا پہچانا ناول نگار بن گیا۔ میرے قارئین یہ نہ سمجھیں کہ لڑکپن سے ادھیڑ عمر تک برطانیہ میں رہنے کی وجہ سے ندیم اتنا مغرب زدہ ہو گیا ہوگا کہ اُسے اپنے چھوڑے ہوئے آبائی ملک میں کوئی خوبی اور اپنے نئے ملک میں کوئی خامی نظر نہیں آسکتی۔ ندیم نے اپنے پہلے ناولوں میں ڈرون حملوں سے امریکہ کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہونے اور کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کے خلاف غم و غصہ کے عوامی ردعمل کو بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی۔ مجھے برطانیہ میں قیام کے دوران ایشیائی لوگوں میں وہ لوگ (جنہیں میں مذاق میں Coconut یعنی ناریل۔۔۔۔ باہر سے بھورے اور اندر سے سفید کہتا ہوں) اتنی بڑی تعداد میں ملتے ہیں کہ مجھے بڑے افسوس سے سچ لکھنا پڑے گا کہ میرے احباب میں (بقول اقبال) اپنے غرور کا سودا نہ کرنے والوں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ندیم اسلم کا ایک ناول 2008 ء میں شائع ہوا۔ نام تھا The Wasted Vigil ، مجھے اس کا سب سے فکر انگیز جملہ کبھی نہیں بھولتا: ''اُس بستی میں رہنے والوں کی دو سب سے بلند و بالا عمارتیں گر گئیں تو وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ اُنہیں دُنیا بھر میں پھیلے ہوئے اندھیرے کا علم ہو گیا ہے اور یہ اندازہ بھی کہ دُنیا کتنی غیر محفوظ ہے‘‘۔ یہ ناول افغانستان میں سالہا سال سے ہونے والی تباہی و بربادی کے موضوع پر لکھا گیا۔ چار سال پہلے ندیم کا جو ناول شائع ہوا اُسکا نام تھاThe Blind Man's Garden ۔ 1997ء میں ندیم کے پہلے ناول کا نام تھا: Season of the Rain Birds ۔
آج کے کالم میں مادر وطن کے اس ہونہار بیٹے کے پانچویں ناول کی اشاعت پر نہ صرف اپنی خوشی کو ظاہر کیا جائے گا بلکہ اپنے پیارے قارئین کو بھی شامل کیا جائے گا۔ میری رائے میں ندیم نے اپنے آخری ادبی شاہکار میں بہت اچھے طریقے سے یہ سچائی بیان کی ہے کہ جو قابل صد مذمت دہشت گردی اور تخریبی کارروائی عراق اور افغانستان میں مغربی ممالک کی فوجی جارحیت سے شروع ہوئی وہ پاکستان میں مذہبی جنونی اپنی عدم رواداری اور عدم برداشت سے آگے بڑھا رہے ہیں۔ ناول کا پلاٹ ایک ماہر تعمیرات مسعود، اُس کی بیوی اور ایک شریک کار خاتون (نرگس) کے گرد گھومتا ہے۔ کالم کی محدود جگہ مجھے اجازت نہیں دیتی کہ میں ساری کہانی سنائوں۔ یہ ناول محض دلچسپ اور ڈرامائی واقعات کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک بڑے سنجیدہ نکتہ نظر کو ادبی پیرایہ میں پڑھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔ اُس کا خلاصہ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بظاہر کتنی مار دھاڑ، تشدد اور بے رحمی کے بے شمار مظاہرے ہوں مگر وہاں کا عام شہری امن پسند، انسان دوست، صلح جو اور بقائے باہم پر یقین رکھنے والا ہے۔ بد امنی اور بے امنی کے سمندر میں ایسے نیک لوگ اُن جزیروں کی طرح ہیں جن سے روشنی اور خوشبو پھوٹتی ہے۔کروڑوں لوگوں کی انہی انفرادی خوبیوں نے پاکستانی معاشرے کو مضبوط، ناقابل شکست اور دیرپا بنا دیا ہے۔ 
اجازت دیجیے کہ اب اس کالم میں ایک اور موضوع پرلکھا جائے۔ جرمن قوم کا حالیہ بہادرانہ اقدام قابل صد ستائش ہے کہ اس نے اپنے شرمناک ماضی سے خود پردہ اُٹھایا اور اپنے سنگین جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ بیسویں صدی کے نصف میں ہٹلر کی فسطائی حکومت نے جن لاکھوں بے گناہ یہودیوں کو زہریلی گیس سے موت کے گھاٹ اُتارا اس کی مثال نہیں ملتی۔گزشتہ سال جرمن مورخوں نے انکشاف کیا کہ بیسویں صدی کے شروع میں جرمن فوج نے جنوبی افریقہ کے ایک چھوٹے ملک Namibia میں عوامی بغاوت کو کچلنے کیلئے پچاس ہزار افراد کو فاقوں یا تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ اب یورپ کا تو ذکر کیا خود براعظم افریقہ میں بھی بہت کم لوگوں نے اس قتل عام کے بارے میں پڑھا یا سنا ہے۔ اس کے جن دو بڑے قبیلوں کو اس قتل عام کا نشانہ بنایا گیا اُن کے نام ہیں Hereeo and Naora اور اب جرمن حکومت ہلاک شدگان کے پس ماندگان سے مذاکرات کر رہی ہے کہ اُنہیں کتنا زر تلافی دیا جائے۔ سرکاری اعلان کے مطابق جون سے پہلے جرمن حکومت مظالم کے شکار ہونے والوں سے رسمی معافی مانگے گی۔ چند ماہ قبل جرمنی کے بڑے شہروں میں جرمن فوج کے مظالم کی تصویری نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ 1884ء میں یورپی ممالک نے افریقہ کے حصے بخرے کر کے آپس میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ جنوبی افریقہ کے اس علاقہ پر جرمنی نے فوجی قبضہ کرلیا۔ جنوری 1914ء میں Herero نامی قبیلہ نے غیر ملکی غاصبوں کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی تو اس میں سو سے زیادہ جرمن نو آباد کار مارے گئے۔ ان کی ہلاکت کا بدلہ اُس اندھی وحشت سے لیا گیا جس کا مظاہرہ برطانوی حکمرانوں نے 1857ء میں ہندوستان میں پہلی جنگ آزادی کی ناکامی پر کیا۔ لاکھوں افراد کو بزور شمشیر Kalahari کے صحرا میں دھکیل دیا گیا جہاں اُن کے پینے کے پانی میں زہر ملا دیا گیا تھا۔ خوراک کی فراہمی اتنی ناممکن بنا دی گئی کہ بہت بڑی تعداد میں مقامی لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر گئے۔ ایک سو بارہ سال گزرنے کے بعد بھی اس بدنصیب ملک کے قابلِ کاشت رقبے کا بڑا حصہ جرمن نو آباد کاروں کی اگلی نسل کے قبضے میں ہے۔ Namibia کی آبادی صرف 23 لاکھ ہے۔ Herero کا تناسب آبادی کادس فیصدی ہے۔ اب اُفق پر روشنی کی پہلی کرن اُبھری ہے، لگتا ہے کہ مال مسروقہ بہت جلد برآمد ہوگا اور اصل مالکوں کو مل جائے گا۔ غیر ملکی حکمرانوں کے افریقہ اور ایشیا کی محکوم قوموں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا نوحہ اپنی جگہ مگر پاکستان میں آباد اکثریت (یعنی مسلمان) اپنے غیر مسلم پڑوسیوں کو اپنی امان میں رکھے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved