تحریر : حافظ محمد ادریس تاریخ اشاعت     07-03-2017

خطرات کے طوفان اور قائدالمجاہدینؐ! (2)

جنگ احد کے بعد بڑی اور فیصلہ کن جنگ تو غزوۂ احزاب تھی جو ذوالقعدہ 5 ھ میں لڑی گئی۔ تاہم اسلامی ریاست کو اس کے دشمنوں نے کبھی ایک دن کے لیے بھی سکھ کا سانس نہیں لینے دیا۔ تمام عرصہ نبیٔ رحمتؐ اور آپؐ کے پروانے ان ہنگامی حالات سے نبرد آزما رہے۔ کسی برُے حادثے نے ان کو پست کیا نہ ایک لمحے کے لیے منزل ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوئی۔ وہ جنت کے خریدار تھے اور اس کے بدلے میں انھوں نے اپنی جانیں اور مال اللہ کے ہاتھ بیچ دیے تھے۔ سبحان اللہ! کتنا نفع بخش سودا ہے۔ 
احد اور احزاب کے درمیان بہت سے اہم واقعات رونما ہوئے۔ اہل اسلام کو کئی سرایا، غزوات اور مہمات میں سے گزرنا پڑا۔ ان میں سے بعض کا تعلق یہودیوں سے تھا اور دیگر کا عرب کے مشرک قبائل سے۔ یہودیوں سے متعلقہ مہمات ایک الگ اور مستقل موضوع ہے، جس پر ہم نے پوری ایک کتاب لکھی ہے:''رسول رحمتؐ تلواروں کے سائے میں‘‘۔۔۔ جلد سوم۔ اگرچہ زمانی لحاظ سے معروف مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اہلِ کتاب کے خلاف لڑی گئی جنگوں کو دیگر جنگوں کے ساتھ تقدیمی ترتیب کے مطابق شامل کیا ہے۔ یوں غزوۂ بنونضیر، غزوۂ بنوقینقاع، غزوۂ بنوقریظہ اور غزواتِ خیبر سیرت اور تاریخ کے مختلف مقامات پر بیان ہوئی ہیں۔ یہودیوں کے خلاف ان سب غزوات کا تذکرہ یکجا اس لحاظ سے مفید ہے کہ ان کمینہ صفت دشمنوں کا سارا ریکارڈ ایک جگہ مل جاتا ہے۔ 
غزوۂ حمرأ الاسد ہمارے نزدیک غزوہ احد کا تتمہ تھی اور اس کے فوراً بعد رونما ہوئی تھی۔ غزوۂ احد کے بعد اسلامی ریاست کو ایسے خطرناک چیلنج درپیش تھے کہ ان کا تذکرہ رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔ احد کے زخم اتنے کاری تھے کہ اگر اسلام کی قوت اور آنحضورؐ کی شخصیت کے معجزات ممد نہ ہوتے تو شاید نوزائیدہ ریاست کی ہوا اکھڑ جاتی۔ منافقین اور یہودی جری ہو گئے تھے اور جزیرہ نمائے عرب میں دور و نزدیک پھیلے ہوئے مشرک قبائل اسلام کے مقابلے کے لیے پر تولنے لگے تھے۔ ان حالات کا تقاضا تھا کہ مدینہ کا قائدؐ دشمنوں کے مقابلے پر اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کرتا۔ چنانچہ آنحضورؐ نے ایک جامع منصوبہ تیار کیا جس کے نتیجے میں مختلف مہمات منظم کی گئیں۔ آپؐ نے اس نازک دور میں دشمنوں کی حرکات و سکنات سے باخبر رہنے کے لیے اپنے صحابہ کو گردونواح کے علاقوں میں پھیلا دیا تھا۔ یہ صحابہ آپؐ کو بروقت اور درست اطلاعات فراہم کرتے رہتے تھے۔ ان اطلاعات سے آپ کو پتا چلا کہ بعض عرب قبائل غزوۂ احد میں پہنچنے والے ضعف کی وجہ سے مدینہ منورہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے پیش نظر کوئی نظریاتی اور فکری جنگ نہیں تھی بلکہ وہ محض مال و دولت اور جنگی قیدیوں کے لالچ میں مبتلا تھے۔
نجد کے علاقے میں قبیلہ بنو اسد ایک مضبوط جنگجو قبیلہ تھا۔ صحرائے عرب میں مختلف دیگر قبائل کے مقابلے پر یہ کافی جنگیں لڑ چکے تھے۔ مال غنیمت کا لالچ قبیلے کے ہر فرد کے دل میں رچا بسا تھا۔ دو مہم جُو اور بہادر شہسوار قبیلے کی قیادت پر فائز تھے۔ طلیحہ بن خویلد اسدی اور اس کا بھائی سلمہ بن خویلد اسدی شجاعت میں بیمثال سمجھے جاتے تھے اور فصاحت میں بھی انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ طلیحہ تو ریگستانِ عرب میں اشجع العرب کے لقب سے مشہور تھا اور اس کے اپنے قبیلے کے علاوہ دیگر قبائل کا بھی یہ خیال تھا کہ وہ تنہا ہزار شاہ سواروں کے برابر ہے۔ اس شخص پر بھی کئی دور اور نشیب وفراز آئے۔ اسلام دشمنی کے بعد مسلمان ہوا، پھر مرتد ہو کر نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا مگر بالآخر حضرت صدیق اکبرؓ کے دور میں ارتداد اور دعوائے نبوت سے تائب ہو کر پھر داخل اسلام ہوا اور اسلام ہی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوا۔ ایک روایت کے مطابق سرزمین فارس میں نہاوند کے مقام پر انہیں شہادت نصیب ہوئی۔ یہ حضرت عمرؓ کے دور کا واقعہ ہے۔
ان لوگوں کے مقابلے کے لیے آنحضورؐ نے اپنے جاں نثار صحابی ابوسلمہ عبداﷲ بن عبدالاسد مخزومیؓ کی قیادت میں ایک دستہ روانہ فرمایا جس میں150منتخب شہسوار شامل تھے۔ ابوعبیدہ ابن الجراحؓ، سعد بن ابی وقاصؓ اور دیگر اکابر انصار و مہاجرین نے اس مہم میں شرکت فرمائی۔ اللہ نے ان نفوس قدسیہ کو دشمنوں پر شاندار فتح عطا فرمائی۔ ابھی جنگ احد کو بمشکل ایک مہینہ ہی گزرا تھا اور مسلمانوں کے بارے میں ان کے دشمن اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ اب وہ کسی مہم جوئی کے قابل نہیں ہیں۔ آنحضورؐ نے حضرت ابوسلمہؓ کو رخصت کرتے ہوئے حکم دیا تھا کہ دو چیزوں کا خاص طور پر خیال رکھیں۔ ایک تو یہ کہ رفتار میں جتنی سرعت ہو سکے اس کا اہتمام کیا جائے اور دوسرے یہ کہ سفر مکمل طور پر لوگوں کی نظروں سے چھپ کر کیا جائے۔ حضرت ابوسلمہؓ نے دونوں باتوں کا خوب اہتمام کیا۔ وہ رات کو اندھیرا چھا جانے کے بعد روانہ ہوتے تھے اور خوب تیز رفتاری سے چلتے تھے۔ انہوں نے عام راستے سے ہٹ کر غیر معروف راستہ اختیار کیا۔ وہ دن کے وقت پہاڑوں اور جنگلوں میں چھپ کر آرام کرتے تھے۔
بنو اسد علاقہ نجد میں قطن پہاڑ کی وادیوں میں رہتے تھے۔ آنحضورؐ کو معلوم تھا کہ بنو اسد مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ابھی وہ اس کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ آپ نے ان کے مکمل اکٹھ اور ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے ہی انہیں دبوچنے کا فیصلہ فرما لیا اور یہ فیصلہ ہی حقیقت میں کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ چند راتوں کے سفر کے بعد آنحضورؐ کی ہدایات کے عین مطابق ابوسلمہؓ بنو اسد کے علاقے میں جا پہنچے اور پو پھٹنے سے پہلے ان پر حملہ آور ہو گئے۔ قبیلے کے تمام لوگ اپنے گھروں سے بھاگ نکلے۔ ابوسلمہؓ اور ان کے ساتھیوں نے ان کے اونٹ اور بھیڑ بکریوں کو قبضے میں کیا۔ تین غلام بھی جو اونٹوں کے چرواہے تھے، ہاتھ آ گئے۔ چونکہ یہ پہاڑی علاقہ تھا اس لیے بنو اسد کے لوگ مختلف راستوں سے بھاگ کر وادیوں اور پہاڑیوں میں چھپ گئے۔ حضرت ابوسلمہؓ مال غنیمت کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور اپنے پیچھے ایسی ہیبت چھوڑ گئے کہ علاقے کے تمام اسلام دشمن قبائل پر خوف طاری ہو گیا۔ بنو اسد ان تمام قبائل میں سب سے زیادہ بہادر اور جنگجو سمجھے جاتے تھے۔ ان کی جو درگت بنی اسے دیکھ کر باقی قبائل نے بھی عبرت حاصل کی۔ اس سریہ کو بنواسد کے علاوہ سریہ ابوسلمہ ؓ بھی کہا جاتا ہے۔
جونہی حضرت ابوسلمہؓ کامیابی کے ساتھ واپس لوٹے، آنحضورؐ کو ایک اور دشمن قبیلے کی تیاریوں کی اطلاع ملی۔ قبیلہ ہذیل کے سردار خالد بن سفیان نے بنو لحیان اور بعض دوسرے قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر اور مال غنیمت کا لالچ دے کر مدینہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی۔ خالد بن سفیان مہم جو اور بہادر بھی تھا مگر اس کے ساتھ ساتھ اپنی شرارت اور خباثت کے لیے بھی بدنام تھا۔ بنو ہذیل حجازی قبائل میں سے تھے۔ قریش کے قرب و جوار میں رہتے تھے اور ان سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے۔ یہ مہم اس لحاظ سے خاصی خطرناک تھی کہ میدان جنگ قریش سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ اس بات کا پورا امکان تھا کہ اپنی اسلام دشمنی کی بنیاد پر قریشی جنگجو بھی ان اسلام دشمنوں کے ساتھ آملیں اور صحابہؓ کے لیے بڑا چیلنج بن جائے۔ (طبقات ابن سعد، ج2، ص50)
آنحضورؐ جنگی حکمت عملی کے بے مثال ماہر تھے۔ آپ نے اس مہم کے لیے سبک رفتار، جاںنثار اور جی دار صحابی حضرت عبداﷲ بن انیس جُہنیؓ کو منتخب کیا۔ عبداﷲ بن انیس سابقون الاوّلون میں سے تھے۔ ان کا قبیلہ جہینہ بھی اس علاقے میں رہتا تھا جہاں شرپسند ہذلی سردار کا قبیلہ رہتا تھا۔ آنحضورؐ نے انہیں حکم دیا کہ وہ تن تنہا اس مہم پر جائیں اور دشمن فوج کے سرغنہ کو قتل کر دیں۔ روانگی سے قبل حضرت عبداﷲؓ نے پوچھا کہ یا رسول اﷲ میں تو خالد کو جانتا نہیں ہوں، ذرا اس کا کوئی وصف تو بیان فرما دیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ جب تم اسے دیکھو گے تو پہلی ہی نظر میں تمہارے اوپر اس کی ہیبت طاری ہو جائے گی اور تم دل میں خوف محسوس کرو گے اور اسی لمحے تمہارے ذہن میں شیطان کا خیال آئے گا۔ عبداﷲ بن انیسؓ کہا کرتے تھے کہ میں کبھی کسی آدمی سے خوف نہیں کھایا کرتا تھا۔ آنحضورؐ نے مجھے جو علامت بتائی بظاہر مجھے عجیب لگی، مگر مجھے یقین تھا کہ میرے ساتھ یہ صورت حال پیش آئے گی اور میں بغیر کسی قسم کے شک کے اللہ اور رسولؐ کے دشمن کو پہچان لوں گا۔ آنحضورؐ کی ہدایات سننے کے بعد حضرت عبداﷲ بن انیسؓ اپنی مہم پر روانہ ہو گئے۔ جانے سے پہلے انہوں نے آنحضورؐ سے عرض کیا کہ مہم کی کامیابی کے لیے اگر دشمن کو دھوکہ دینا پڑے تو کیا اس کی اجازت ہے؟ آپؐ نے فرمایا: ''ہاں جنگ میں تو دشمن کو دھوکے ہی میں رکھا جاتا ہے۔‘‘ [الحرب خدعۃ، عن جابر بن عبداللہؓ، بخاری:2866، مسلم:6437] (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved