تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     07-03-2017

بھارت کا ایٹمی‘ میزائل پروگرام کس نے شروع کرایا

'' وہ سائنسدان امریکہ سے بھارت واپس چلا گیا۔ سویلین فضائی پروگرام میں اس نے کیلیفورنیا میں امریکی سائنسدانوں کے ساتھ کام کر تے ہوئے جو تربیت حاصل کی تھی اور ان کی نگرانی میں عملی کام کے ذریعے جو مہارت حاصل کی تھی‘ اس کی بنیاد پر ہی ڈاکٹر عبدالکلام بھارت کے پرتھوی اور اگنی بیلسٹک میزائلوں کا چیف ڈیزائنر بنا‘‘ یہ الفاظ پاکستان کی وزارتِ خارجہ یا حکومتی ارکان کے نہیں بلکہ آج سے 27 برس قبل امریکہ کی جانب سے کہے گئے‘ اور یہ الفاظ کسی عام گپ شپ کا حصہ نہیں تھے‘ بلکہ 18 مئی1989 کو سینیٹ کی حکومتی امور کی کمیٹی کے روبرو اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم نے کہے تھے۔ پھر اگلے دن19 مئی کو واشنگٹن پوسٹ نے اپنی لیڈ سٹوری میں سی آئی اے کے ڈائریکٹرکی جانب سے سینیٹ میں دیئے گئے پالیسی بیان کی روشنی میں مزید حیران کن انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ'' بھارت کے مشہور سائنسدان ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام آزاد کو امریکی ریاست ورجینیا میں واقع WALLOP ISLAND ROCKET CENTRE میں میزائلوں کی تیاری کے حوالے سے خصوصی تربیت دی گئی تھی‘‘۔ 1989ء میں پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان میں بر سر اقتدار تھیں لیکن ان کی جانب سے یا ہماری وزارتِ خارجہ کی طرف سے اس تہلکہ خیز بیان پر کسی قسم کا رد عمل سامنے نہ آیا۔ اگلے سال جب میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم بنے تو ان کی جانب سے بھی اس پر مکمل خاموشی اختیار کی گئی۔ ایسے لگتا تھا دونوں بڑی جماعتوں کو سوائے اپنے اقتدار کے کسی اور بات کا ہوش ہی نہیں یا وہ اس قسم کی اطلاعات کی سنگینی کا شعور نہیں رکھتیں‘ یا ہماری اس وقت کی وزارتِ خارجہ اور اس کے سفارت کار ایسے کاموں میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ 
یاد رہے کہ بھارت کے چوٹی کے ایٹمی سائنسدان اور اس کے ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر عبد الکلام کو امریکی ریا ست ورجینیا میں تربیت دینے کے اقرار پرمبنی بیان کسی ایرے غیرے نے نہیں دیا تھا اور کسی کافی شاپ ، جوئے خانے یا کسی کلب میں نہیں دیا گیا تھا‘ بلکہ اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے امریکی سینیٹ کی اہم کمیٹی کے سامنے دیا تھا اور یہ کوئی مذاق نہیں تھا۔ امریکی سینیٹ کی اس خصوصی کمیٹی کا سربراہ سینیٹر جان گلین تھا‘ جو ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کو روکنے کیلئے ہمہ وقت شور مچاتا رہتا تھا۔ اگر پاکستان میں اس وقت کوئی ایسی حکومت ہوتی جسے اس ملک کے مفادات اور اس کی عوام کے درد کا رتی بھر بھی احساس ہوتا تو اس پر باقاعدہ احتجاج کیا جاتا‘ دنیا بھر کو بتایا جاتا کہ امریکہ کی جانب سے در پردہ کس قسم کے یہ خطرناک کھیل کھیلے جا رہے ہیں‘ حالانکہ وہ ایٹمی توسیع پسندی کے خلاف ہمیشہ آسمان سر پر اٹھائے رکھتا ہے۔ آج بھارت آئے روزجو دور مار بیلسٹک میزائلوں کے تجربات کر رہا ہے تو اس کے پیچھے اصل کھلاڑی کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ ہے۔ کیا یہ مناسب ہے کہ جو ملک پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر آئے روز رائے زنی کرتا ہو ‘وہی ایشیا میں ایک چھچھورے قسم کے ملک کو بھر پور ایٹمی طاقت بنانے میں مدد گار بن رہا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس وقت دنیا کو امریکہ کا دوغلا پن دکھایا جاتا‘ دنیا میں ایٹمی دوڑ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے یہ معاملہ اقوام عالم کے نوٹس میں لایا جاتا ‘ لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا۔ ہر طر ف خاموشی چھائی رہی۔ بھارت کے حوصلے اس وقت اتنے بلند تھے کہ سینیٹر جان گلین کی سربراہی میں کام کرنے والی اس خصوصی کمیٹی میں امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر کے پالیسی بیان کے صرف دو روز بعد اس نے میزائل کا تجربہ کر دیا‘ اور امریکہ سمیت سب خاموش رہے۔ امریکی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی مہر بلب رہی اور اس کے سینیٹر جان گلین بھی ایٹمی دوڑ پر ہر وقت کھلا رہنے والا اپنا منہ بند کئے رکھے ‘ بھارت کی مذمت میں ایک بیان بھی سامنے نہ لا سکے۔ وجہ وہی تھی جو میں نے اپنے ایک گزشتہ مضمون میں امریکی وزارتِ دفاع میں انڈر سیکرٹری برائے ڈیفنس پالیسی فریڈ اکلے کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بیان کی تھی۔ یہ رپورٹ چار مئی1985 کو امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی اور اس میں بتایا گیا ''امریکہ 1995تا2005 بھارت کو خطے کی اہم اور مضبوط ترین فوجی قوت دیکھنے کا خواہش مند ہے‘‘۔ اس رپورٹ کے مند رجات کے مطابق امریکی انڈر سیکرٹری برائے ڈیفنس پالیسی فریڈ اکلے نے کہا تھا کہ اگر ہم بھارت کو اس قدر ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کر دیں کہ وہ ایک بڑی فوجی قوت بن جائے تو اس سے اس صدی کے آخر اور اگلی صدی کے آغاز سے امریکی مفادات کیلئے وہ ایک مضبوط سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر اپنا وجود منوا سکے گا۔ 
سینیٹر جان گلین کی سربراہی میں کام کرنے والی امریکی سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے سامنے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کے اس بیان کے بعد یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں کہ بھارت کا ایٹمی پروگرام امریکہ اور یورپ نے پروان چڑھایا۔ آج پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائلوں کو ٹیڑھی آنکھوں سے دیکھنے والے بھول جاتے ہیں کہ بھارت کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبد الکلام کو امریکی ریا ست ورجینیا میں تربیت دی گئی‘ بھارت کا تارا پورا ری ایکٹر کینیڈا کی مدد سے تیار کیا گیا‘ اور اس کیلئے درکار بھاری پانی کسی اور نے نہیںخود امریکہ نے بھارت کو بطور تحفہ دیا تھا‘ بلکہ امریکہ کو جب این پی ٹی کے تحت رکاوٹ پیش آئی تو کمال چالاکی سے فرانس کو آگے کر دیا گیا‘ جس نے بھارت کو ایٹمی ایندھن کی فراہمی شروع کر دی۔ مزید امریکی ستم دیکھئے کہ جس وقت بھارت کو مضبوط ایٹمی قوت بنانے کے منصوبے بنائے جا رہے تھے تو اسی دوران 1985 میں پاکستان پر'' پریسلر ترمیم‘‘ کا بم گرا تے ہوئے پابندیاں لگا دی گئیں۔ ایک جانبF-16 کی فراہمی روک دی گئی تو دوسری جانب کئی سالوں تک ان طیاروں کیلئے ادا کی گئی رقم کی واپسی اے انکار بھی کیا جاتا رہا۔ 
بالکل اسی طرح جب امریکہ کا نائب وزیر دفاع بھارت کو مضبوط ترایٹمی اور فوجی قوت بنانے کی پالیسی مرتب کر رہا تھا اور جب امریکی سی آئی اے کا ڈائریکٹر ولیم سینیٹ کی خصوصی کمیٹی کے سامنے بتا رہا تھا کہ بھارت کے سائنسدان ڈاکٹر کلام کو ورجینیا میں بھارت کے پرتھوی اور اگنی میزائلوں کا چیف ڈیزائنر بنا دیا گیا اسی طرح آج ایک بار پھر کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ کا نو منتخب صدر کہیں کھل کر تو کہیں ڈھکے چھپے الفاظ میں پاکستان کو مطعون کر رہا ہے۔ چند روز پہلے دیئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں امریکی صدر سے جب اسامہ بن لادن اور پاکستان کے تعلق پر سوال کیا گیا تو اپنے ہونٹوں کو بھینچتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ پاکستان کے بارے میں اس نے جو کچھ سوچ رکھا ہے وہ ابھی کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے‘ ہاں دنیا کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ان کی طرح مجھے بھی پاکستانی نیوکلیئر طاقت اور دہشت گردوں کے ٹھکانے ہونے کی وجہ سے پریشانی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved