تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     08-03-2017

ناکامی سے یہاں تک

کوئی ناکام تصورات سے قابل عمل راہوں کا نکلنا دیکھنا چاہے تو چند دن پہلے اسلام آباد میں ہونے والی ای سی او سربراہ کانفرنس کو دیکھ لے کہ کیسے دہائیوں پہلے کا بے فائدہ اقدام نتیجہ خیز علاقائی تعاون کی بنیاد بن سکتا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انیس سو پچاس کی دہائی میں مغرب کے بہترین دماغوں نے سوویت یونین کو عرب میں تیل کے ذخائر تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اس کے راستے میں کوہ ہندوکش سے لے کر بحیرہء روم تک ایک دیوارجیسا کوئی اتحاد بنانے کا سوچا۔ اس خیال کو عملی شکل دینے کی ذمہ داری برطانیہ نے اٹھائی اور اس خطے میں اپنے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان، ایران، عراق ااور ترکی کو ایک اتحاد میں پرو دیا جسے بغداد پیکٹ یا سینٹو کا نام دیا گیا۔ اس چار ملکی اتحاد کو یہ خواب بھی دکھایا گیا کہ انہیں امریکی اور برطانوی اسلحہ بھی فراہم کیا جائے گا تاکہ سوویت یونین کی طرف سے کسی بھی جارحانہ کارروائی کا مؤثر جواب دیا جاسکے۔ اس خواب کو معتبر بنانے کے لیے پاکستان کو بھی کچھ اسلحہ میسر آیا لیکن انیس سو پینسٹھ میں پاک بھارت جنگ کے موقع پر اسلحے کی سپلائی یہ کہہ کر روک دی گئی کہ سینٹو ممالک کو جو اسلحہ دیا گیا ہے وہ صرف سوویت یونین کے ساتھ جنگ کی صورت میں استعمال ہوسکتا، کسی تیسرے ملک سے جنگ کی صورت میں اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ انیس سو اکہتر کی پاک بھارت جنگ میں بھی سینٹو دور کھڑا تماشا دیکھتا رہا اورپاکستان امریکی اسلحے کے انتظار میں دولخت ہو گیا۔ سفارتی سطح پر سینٹو میں شمولیت کا پاکستان کو یہ نقصان بھی ہوا کہ ہم پربیرونی طاقتوں کو جنوبی ایشیا میں لانے کا الزام لگا کر بھارت کے وزیراعظم نہرو نے مقبوضہ کشمیر پر اپنی پوزیشن بدل لی اور سینٹو کے سپانسر یعنی برطانیہ اور امریکہ بھی اس معاملے میں اس کی خاموش ہمنوائی کرنے لگے۔ 
سینٹو بنانے والوں نے اپنے فائدے کے لیے یہ بھی سوچا تھا کہ پاکستان،ایران اور ترکی کو باہمی تعاون کی راہ پر ڈال کر اس دیوار کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔ اس لیے انہوں نے ان تینوں ملکوں کو آر سی ڈی (ریجنل کوآپریشن فار ڈویلپمنٹ) بنانے کے لیے تیار کیا ۔ آرسی ڈی درحقیقت ان تینوں ملکوں کے عوام کی خواہشات کے قریب بھی تھی اور قابل عمل بھی۔ اس تنظیم کی بدولت پاکستان کو پہلی بار کچھ اندازہ ہوا کہ وہ صرف جنوبی ایشیا نہیں بلکہ مغربی اور وسطی ایشیا میں بھی بامعنی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس تنظیم کے تحت پاکستان میں کئی صنعتی منصوبے شروع ہوئے جن میں بال بیرنگ بنانے کا کارخانہ اور کراچی کی مشین ٹول فیکٹری بھی شامل تھے۔ کراچی سے استنبول تک ایک سڑک بنانے کا آغاز بھی کیا گیا ۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ جب تک یہ سڑک بنی اس وقت تک سینٹو کی جان نکل چکی تھی۔ اس کے بعد آرسی ڈی نے بھی انیس سو اُناسی میں آخری ہچکی لے کر دم توڑ دیا۔ یوں وہ سڑک جسے اقتصادی راہداری بننا تھا کراچی کو کوئٹہ سے ملانے والا ایک مقامی راستہ بن کر رہ گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سینٹو سے جان چھڑا لینے کے باوجود ان تینوں ملکوں نے آرسی ڈی کو زندہ رکھنے کی آخری کوشش انیس سو چھہتر میں کی ۔ ترکی میں ہونے والے ایک سربراہی اجلاس میں اسے سینٹو کی ذیلی تنظیم کی بجائے ایک خودمختار علاقائی تنظیم بنانے کی کوشش ہوئی، جہاں ذوالفقار علی بھٹو نے ترک صدر اور ایران کے شہنشاہ کو مخاطب کرکے کہا ، ''ہمارا خطہ ایک ایسی بگھی ہے جسے تین گھوڑے کھینچ رہے ہیں‘‘۔ پورے خلوص کے باوجود یہ کوشش ناکام ہوگئی کیونکہ پاکستان میں بھٹو سولی پر چڑھ گیا، ایران کے شہنشاہ کو انقلاب کا سامنا کرنا پڑا اور ترکی تنہا بیچارہ کیا کرسکتا تھا۔
چھ سال بعد انیس سو پچاسی میں آرسی ڈی کی راکھ سے اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن (ای سی او) نے جنم لیا اور ترکی ، پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون کی راہیں تلاش ہونے لگیں۔ یہ تینوں ملک ابھی کاغذی کارروائیاں کررہے تھے کہ تاریخ نے ایک نئی کروٹ لی۔ سوویت یونین بکھر گیاتوانیس سو بانوے میں افغانستان اور اس سے ٹوٹی ہوئی چھ ریاستیں بھی اس تنظیم میں شامل ہوگئیں ۔ اس وقت بھی نواز شریف وزیر اعظم تھے ، انہوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور خشکی میں گھرے نئے ای سی او ملکوں کے دورے کرکے انہیں ایک مؤثر اقتصادی بلاک کی تشکیل کی طرف راغب کیا۔ ان ملکوں کے سربراہوں کو نقشے سامنے
رکھ کر سمجھایا کہ پاکستان ان کے لیے سمندر تک رسائی کی فطری گزرگاہ ہے۔ انہیں صدیوں پرانے رشتے یاد دلائے ، مشترکہ تہذیبی ورثے کی طرف توجہ دلائی اور ای سی او کے لیے اتنی کشش پیدا کردی کہ ان میں سے ہر ملک اس کی کامیابی کے لیے کسی حد تک بھی جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ مگر تاریخ اس منصوبے کی گھات میں بیٹھی تھی۔ پاکستان میں نواز شریف کی حکومت اکھاڑ دی گئی،ترکی اپنے سیاسی بحرانوں میں مبتلا ہوگیا، افغانستان کے مسائل الجھنے لگے اور مغربی ایشیا میں تعاون کا خواب ادھورا رہ گیا۔ 
تجربہ بتاتا ہے کہ ترقی پذیر ملکوں کی کوئی تنظیم اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتی جب تک اسے کسی عالمی طاقت کی حمایت حاصل نہ ہو۔اس وقت چین نے یہ ضرورت پوری کردی ہے کیونکہ خود چین بھی پاک چین اقتصادی راہداری کے علاوہ ایک ایسے راستے پر کام کررہا ہے جو وسطی ایشیا سے گزرتا ہوا اسے یورپ کے ساتھ ملا دے۔ پاکستان کو یہ کرنا ہے کہ چین سے نکلنے والے اس شمالی راستے کو پاک چین اقتصادی راہداری سے ملا دے ۔ یہ راستے ایک بار مل گئے توپینتالیس کروڑ مسلم آبادی ان راستوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑ کر یورپی یونین جتنا بڑا اقتصادی بلاک بنا ڈالے گی ۔ ماضی میں افغانستان کے مسائل پاکستان کو وسطی ایشیا تک پہنچنے میں روکتے رہے ہیں مگر اب چین کی شمالی راہداری یہ موقع مہیا کررہی ہے کہ افغانستان کو بائی پاس کرتے ہوئے براستہ ایران اور ترکی نسبتاً طویل راستہ اختیار کرکے اس خطے کی معاشی قوت کو پھیلاؤ کا موقع دیا جائے۔ اس مقصد کے حصول میں بھارت افغانستان کے لیے چھوٹی موٹی رکاوٹیں ڈال سکتا ہے مگر پاکستان کا راستہ نہیں روک سکتا، البتہ خود پاکستان اپنی راہ کھوٹی کرلے تو الگ بات ہے۔ 
پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کے ریاستی اداروں میں بھارت کے ردّعمل میں پالیسی سازی کا رجحان غالب ہے جبکہ سیاسی قیادت پالیسی سازی کو بھارتی سنڈروم سے آزاد کرکے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔ ہمارا نظام بھارت سے متعلق حساسیت کو کچھ کم کرلے تو اپنے جغرافیے ،چلتے ہوئے جمہوری نظام اور وسطی ایشیا اور خلیج کی سب سے بڑی فوجی قوت ہونے کے ناتے پاکستان اس نئے اقتصادی بلاک کا انجن بن سکتا ہے۔ غالباً اسی امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے نواز شریف گزشتہ پچیس برس سے مغربی ایشیا کو اقتصادی بلاک بنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ان کے علاوہ پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتیں، بیوروکریسی اور دیگر ادارے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ا س مزمّن مرض کو دور کرنا آسان کام نہیں مگر اس کی ابتدا نواز شریف صاحب کو ہی کرنا ہو گی۔ انہیں ریاستی اداروں کو سمجھانا ہوگا کہ افغانستان اور ایران کی دوستی ہمارے لیے بھارت کی دشمنی سے زیادہ اہم ہے۔ یہ بھی بتانا ہوگا کہ پاک افغان سرحد پر آمدو رفت کو دستاویزات کے ذریعے آسان بنانا ہے، بند نہیں کرنا۔ اگر وزیراعظم اپنے ماتحت اداروں کو یہ سب کچھ سمجھانے میں ناکام رہے تو پھر ای سی او بھی اسی طرح رہے گی ،جیسی ہے، یعنی نشستند، گفتند و برخاستند!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved