تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     09-03-2017

کس بنا پر؟

شریف خاندان سے خلقِ خدا کا بڑا حصہ بیزار ہے مگر کپتان؟ کس بنا پر اس سے امید وابستہ کی جائے۔
سجدہ آدمی کے ماتھے میں ہے اور بے تاب رہتا ہے۔ اللہ کو نہیں کرے گا تو کسی کو۔ مائوزے تنگ ہمارے سامنے چینیوں کے معبود تھے اور سٹالن روسیوں کے۔ کم ال سنگ کوریا کے اور کرنل قذافی لیبیا کے۔ چھوٹے بڑے بہت سے دیوتا پاکستان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ عبدالغفار خاں‘ ابھی کل تک الطاف حسین‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی اور ذوالفقار علی بھٹو۔ ایسے ایسے لوگ بھٹو کے نام پہ سر دھنتے ہیں کہ دیکھنے والا دنگ رہ جاتا ہے۔
لطیفہ یہ ہے کہ آغازِ کار میں غیر معمولی تعلیم اور ذہانت کا یہ آدمی خود بھی خوشامدی واقع ہوا تھا۔ ''ہرج‘‘ کیا ہے۔ اب یاد نہیں پڑتا کہ شاید کلام الٰہی میں اس کا ذکر ہے یا نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ عمر فاروقِ اعظمؓ لوگوں سے‘ اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی سعی کرتے پائے گے۔ معلوم ہوا یمن کے چرواہے‘ یہ لفظ برتا کرتے ہیں۔ چرواہے بلائے گئے۔ انہوں نے بتایا: امیرالمومنین‘ یہ ایک بوٹی ہے‘ بکریاں بہت رغبت سے جو کھاتی ہیں۔ مفید‘ موزوں بھی بہت۔ وہ مگر خاردار جھاڑیوں میں گھری ہوتی ہے۔ بکری کا منہ اس تک پہنچ نہیں پاتا۔ 
انسانی دانش کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اخلاقی ترجیحات اس کے ساتھ جڑی نہ ہوں۔ قوانین قدرت کا اسے ادراک نہ ہو۔ محض اپنے ذاتی تجربے اور عقل عام پر آدمی اگر انحصار کرے۔ ماحول اور تربیت کے زیر اثر منفی ہتھکنڈوں کی طرف مائل ہو جائے تو آخر کار اس کی زندگی بے ثمر ہو جاتی ہے۔ ؎
اک دانشِ نورانی‘ ایک دانشِ برہانی
دانشِ برہانی‘ حیرت کی فراوانی
بھٹو نے آکسفورڈ اور برکلے میں تعلیم پائی۔ قائد اعظمؒ اور ان کے سوانح نگار ایک ہی ہے‘ سٹینلے والپرٹ Zulfi Bhutto of Pakistan کے عنوان سے اس نے ان کی سوانح لکھی ہے‘ چشم کشا۔ قائدِ اعظمؒ کا ادراک کرنے میں وہ کامیاب رہا مگر بھٹو کو پوری طرح وہ نہ سمجھ سکا۔ چمڑے کی قیمتی جلد میں میکائولی کی The Prince جن کی لائبریری میں رکھی تھی۔ مشہور اطالوی اخبار نویس اوریانا فلاسی Oriana Fallaci کو فخریہ طور پر یہ لائبریری انہوں نے دکھائی تھی‘ امام خمینی سے قذاقی تک کے تہلکہ خیز انٹرویو جس نے Interview with History کے عنوان سے چھاپے۔ بھٹو نرگسیت کا شکار تھے۔ مغربی تعلیم اور جاگیردارانہ پس منظر کے باوصف کمیونسٹ لیڈروں سے وہ متاثر تھے۔ تاریخ میں زندہ رہنے کے وہ آرزومند تھے‘ ایک دیوتا کی سی زندگی بِتانے اور ایک عہد ساز شخصیت کے طور پر یاد رکھے جانے کے۔
منگل کی شب‘ دنیا ٹی وی کے مزاحیہ پروگرام‘ مذاق رات میں‘ ان کے رفیق مصطفیٰ کھر جلوہ گر ہوئے۔ کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں دو ہی منتخب لیڈر تھے‘ قائد اعظمؒ اور بھٹو۔ مان لیجئے کہ اس بات کو تسلیم کرنے میں خسارہ کیا ہے۔ قائد اعظمؒ سے مگر بھٹو کا کیا موازنہ۔ محمد علی جناح کی بے غرضی ضرب المثل ہے۔ جدید تاریخ کے عظیم ترین مدبرین میں ان کا شمار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مورخ والپرٹ نے کہا تھا کہ تاریخی تجربے میں ایسا کوئی دوسرا نادر روزگار آدمی‘ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا‘ جس نے ایک قوم تشکیل دی ہو‘ اسے آزادی دلائی ہو اور اس کے لیے ایک ملک حاصل کیا ہو۔ کسی بھی دوسرے رہنما نے‘ زیادہ سے زیادہ ان میں سے ایک کارنامہ انجام دیا۔ لیڈروں کے لیڈر نے تینوں‘ ایک ساتھ۔
کس آسانی سے لوگ بھول جاتے ہیں کہ صدیوں کے بعد وہ پہلے آدمی تھے‘ قوم کو جنہوں نے متحد کیا۔ ان میں بابر کی سی صداقت شعاری تھی‘ اکبر اعظم کی سی انتظامی صلاحیت اور محی الدین اورنگزیب کا سا توکّل‘ اسی برس کی عمر میں جو شیواجی کے خلاف میدان جنگ میں اترا۔ طعنہ آمیز سندیسے کے جواب میں کہ کہ یہ تمہارے اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں‘ اسے لکھا: دن کی تمام نعمتیں میں دیکھ چکا‘ بس ایک شہادت کی آرزو باقی ہے۔ میرا خط ملنے کے بعد‘ جلد ہی مغل لشکر کو تم اپنے ساتھ پائو گے۔
عجیب بات ہے کہ اورنگزیب کی موت کے 230 برس بعد‘ اس سے ملتے جلتے الفاظ قائداعظمؒ نے ارشاد کیے۔ مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: دنیا کی سب نعمتوں سے میں فیض یاب ہو چکا۔ اس کے سوا کوئی حسرت اب باقی نہیں کہ جب اللہ کے حضور پیش ہوں تو وہ کہے: محمد علی میں تم سے راضی ہوں۔ متن یاد نہیں رہتا‘ الفاظ کم و بیش یہی تھے۔ جذباتیت کا شکار وہ ہرگز نہ تھے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبہ سے خطاب کرنے گئے تو اس وقت بھی نہیں۔ آغاز میں حسِ مزاج کا خوب مظاہرہ کیا۔ طویل عرصے تک نظرانداز کرنے کے بعد‘ طلبہ کی طرف سے دعوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: آدمی کے دن پھرتے ہیں‘ تو اس کے امیر رشتہ دار اسے یاد کرنے لگتے ہیں۔ پھر ارشاد کیا: سب کچھ دیکھ لیا۔ اس کے سوا کوئی آرزو اب نہیں کہ جب مروں تو میرا ضمیر مطمئن ہو کہ میں نے مسلمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ کس بلا کے آدمی تھے‘ ایک ذرا سی خیانت کبھی نہ کی‘ جھوٹ کیا‘ بہانہ تک کرنے کے روادار نہ تھے‘ کبھی وعدہ نہ توڑا‘ غیبت سے گریز کرتے‘ وقت کے زیاں سے بھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک سلیمان کو پٹوایا‘ اپنے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم۔ اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالا۔ ان کی بے بسی کا تمسخر اڑایا۔ شرمناک سلوک ان سے کیا۔ مصطفی کھر نے بغاوت کی تو ان کے ساتھیوں کو اغوا کرکے دلائی کیمپ میں رکھا۔ احتجاجی تحریک ان کے خلاف برپا ہوئی تو تین ماہ میں 329 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ حیرت ہے کہ قائد اعظم سے ان کا موازنہ کیا جاتا ہے۔ 
ذہانت بے حساب‘ اپنے عصر سے آگاہ‘ کار سیاست کے شناور اور بے شک ایک قوم پرست۔ آئین بنایا‘ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی‘ عالمِ اسلام سے قریبی مراسم استوار کیے۔ عام آدمی کے لیے پاسپورٹ کی فراہمی ممکن بنا کر مستقبل کے معاشی امکانات کی نیو رکھائی۔ یہ سب بجا لیکن نجکاری کے بے رحمانہ عمل سے ملک کو سینکڑوں ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ صرف بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کو قومیانے سے قومی معیشت کو 25 ارب ڈالر کا زخم لگا۔ ملک کے مستقبل سے باصلاحیت لوگ مایوس ہو گئے۔ سرمایے اور ذہانت نے راہ فرار اختیار کی۔ ایف ایس ایف کے نام سے ذاتی فوج بنائی۔ بیوروکریسی پہ ہل چلا دیا۔ پولیس کو خانہ زاد بنایا اور عدالتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ بے شک عسکری اعتبار سے پاکستان کی تعمیر نو کی‘ بھارت اور امریکہ کو ٹھکانے پر رکھا۔ یہ بھی مگر حقیقت ہے کہ فوج کو من مانی کے لیے برتا۔ بلوچستان پر چڑھا دی۔ اقتدار خطرے میں پڑا تو تین شہروں میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ جھوٹ ہے اور سفید جھوٹ کہ جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکہ سے مل کر سازش کی۔ جنرل کی فوج اس کے ہاتھ سے نکلی جا رہی تھی۔ لاہور میں تین بریگیڈیئروں نے عوام پر گولی چلانے سے انکار کر دیا تھا۔ معیشت کا پہیہ جام ہو گیا تھا۔ سخت گیر سودے بازی کے لیے‘ ہر حال میں اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے مذاکرات کو وہ طول دیتے رہے تاآنکہ زچ ہو کر فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
یہ تمام تمہید‘ ایک بات عرض کرنے کے لیے باندھی ہے۔ اپنے آپ پر جسے قابو نہ ہو‘ جذبات سے مغلوب ہو کر جو فیصلے صادر کرے‘ سرفرازی اس کے نصیب میں نہیں ہوتی۔ جبلتوں کی وحشت میں دانش اس کا ساتھ چھوڑ جاتی ہے۔ بات سخت ہے اور مودبانہ یہ ناچیز معافی کا خواستگار ہے۔ واقعہ مگر یہی ہے کہ بھٹو اور اس کے خاندان کو قدرت نے عبرت کا نمونہ بنا دیا۔ افسوس کہ لوگ اس پر غور ہی نہیں کرتے۔
عمران خان پر مجھے حیرت ہے کہ سیاست میں پے در پے ناکامیوں اور حادثات کے باوجود سیکھنے سے اس نے انکار کر دیا ہے۔ نفرت کا اس پر غلبہ ہے۔ خوش خیالی میں مبتلا کہ اقتدار مل جائے تو سب کچھ وہ استوار کرے گا۔
لاہور کے کرکٹ میچ پر اس کے موقف کو عظیم اکثریت نے مسترد کر دیا۔ اختلاف رائے کا حق تھا مگر ایسی بھی کیا ضد۔ غیر ملکی کھلاڑیوں پر اس کی گفتگو نشر کرنا آداب کے خلاف ہے۔ تعجب تو اس کے لب و لہجے پر ہے۔ ''ریلو کٹّے‘‘ ''پھٹیچر‘‘ کیا یہ الفاظ ایک رہنما کو زیب دیتے ہیں۔اپنے چھ فٹ کے پیکر پہ جو آدمی قابو نہیں پا سکتا 22 کروڑ انسانوں کے متنوع اور پیچیدہ مسائل وہ کیسے حل کرے گا؟ حکمت و تدبیر میں سب سے اہم چیز خود تنقیدی ہوا کرتی ہے اور صبر کا مظاہرہ۔ اگر وہی نہیں تو رہنمائی کیسی؟
شریف خاندان سے خلقِ خدا کا بڑا حصہ بیزار ہے مگر کپتان؟ کس بنا پر اس سے امید وابستہ کی جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved