امریکی صدر‘ مسٹر ٹرمپ اپنے ملک کی‘ ہمہ جہت اور ہمہ گیر مہمات کو جاری رکھنے کا حوصلہ نہیں کر پا رہے۔مسٹر ٹرمپ کی یہی کم ہمتی مغربی بلاک کے پرانے ساتھیوں کو مایوس کر رہی ہے۔ مسٹر ٹرمپ اپنی دانست میں امریکہ کے مسائل حل کرنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں‘ وہ کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔امریکہ کے سابق صدور نے صنعتی و معاشی اور عالمگیر فوجی طاقت کی ترقی اور پھیلائو سے اتنا کچھ کردیا کہ امریکہ اب چاہے بھی تو اپنے مفادات کو آسانی سے سمیٹ نہیں سکے گا۔ اس دوران اسے کسی منصوبہ بندی کے بغیر‘ پسپائی اختیار کرتے ہوئے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مغرب کا اتحاد جو ماضی میں‘ امریکہ کی سربراہی میں قائم ہوا تھا ‘ وہ اتنی تیز رفتاری سے پسپائی اختیار نہیں کر سکتا ۔ماضی میں طاقتور ممالک ایک پورا تاریخی پس منظر رکھتے ہیں‘ وہ امریکہ کی طرح عالمی منظر پر نہیں چھائے۔ ان کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے۔ان کا موازنہ امریکہ سے کیا جائے تو امریکی قوم ان کے سامنے ابھی نو عمر ہے۔وہ کئی صدیوں سے اثاثوں پر بیٹھے ہوئے
دنیا کی قیادت کرنے کے منصوبے رکھتے تھے۔ مسٹر ٹرمپ نے حیرت انگیز انتخابی مہم کے نتیجے میں اقتدار تو حاصل کر لیا لیکن اپنی منزل کا تعین وہ نہیں کر پائے۔ جس تیزرفتاری اور طاقت کے ساتھ امریکہ مستقبل کی طرف پیش قدمی کر رہا تھا ‘نئے بدلتے ہوئے دور میں‘اسے بر قرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔برطانیہ‘ فرانس اور دیگر مغربی طاقتوں کو جتنی تیزی سے مستقبل کی طرف بڑھنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘ وہ ان کے بس کی بات نہیں۔امریکہ کے سارے حلیف اور حریف ‘تیز رفتاری میں کمی لانے کے لئے جتنی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں‘ ان کے نہ تو وہ عادی ہیں اور نہ ہی ایسا کرنے کے لئے تیار۔مسٹر ٹرمپ کے مذموم عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔اس وقت پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے وہ تمام ممالک جو امریکہ کے اتحادی ہیں‘ اب امریکہ کے بغیر آگے بڑھنے کا سلسلہ جاری رکھنے میں دقت محسوس کر رہے ہیں۔
پاکستان ہر چند امریکہ کے قریبی اتحادیوں میں شامل تھا۔بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ اسی کے بل بوتے پر اپنے مستقبل کی طرف گامزن تھا۔امریکہ نے ایک دم الٹ بازی لگاتے ہوئے اس نظام کا سارا تانا بانا‘توڑ کے اپنی انگلی چھڑا لی۔ پاکستان جس نے کبھی ماضی میںامریکہ کا متبادل تلاش نہیں کیا تھا ‘ آج وہ بوکھلاہٹ کے عالم میں مستقبل کی طرف اپنا سفر جاری رکھنے میں شدید مشکلات سے دوچار ہے۔امریکہ نے ایک سپر پاور ہونے کی حیثیت میں‘ عالمی شطرنج پر چال چلتے ہوئے‘ جو راستے اختیار کئے ہیں‘ان کی بدولت پاکستان کو جس تنہائی کی طرف دھکیل دیا ہے‘ ہم ابھی تک اس کا جھٹکا برداشت نہیں کر پائے۔ہم عالمی برادری میں ایک گم شدہ بچے کی طرح اپنے لئے کوئی ''نیا ساتھی‘‘ڈھونڈ رہے ہیں لیکن کوئی عالمی طاقت‘ ہمیں انگلی پکڑنے کی اجازت نہیں دے رہی اور نہ ایسا ممکن ہوتا ہے۔پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نے دوسروں پر تکیہ کرتے ہوئے غیر مشروط طریقے سے اپنا مستقبل‘ امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا تھا‘ جس کا خمیازہ آج ہم بھگت رہے ہیں۔وہ دنیا اب تو ماضی کا حصہ بن گئی مگر ہم ہیں کہ پرانی عادتیں ترک کرنے کا حوصلہ ہی نہیں کر پا رہے۔نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو مسٹر ٹرمپ کو یہ معلوم ہے کہ کمزور اور مجبور اتحادیوں کا استعمال کیسے کیا جاتا ہے؟ امریکہ کی رہنمائی کے لئے جتنے مضبوط اعصاب اور ذہنی قوتوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ اب وہ اسے دستیاب ہی نہیں۔گزشتہ چند عشروں سے امریکہ کی سیاسی قیادت ‘ دیگرعالمی طاقتوں کی رفاقت اور اتحاد کے ساتھ‘ اپنے لئے کیسا نقشہ تیار کرے گی؟ اس سوال کا جواب امریکہ کے نو منتخب صدر‘مسٹرٹرمپ کے پاس‘ موجود ہی نہیں۔ایک ایسا صدر جس کے عزائم ہی محدود ہوں‘ وہ ایک سپر پاور کوچلانے میں رہنمائی کیسے کر سکتا ہے؟ مسٹر ٹرمپ ایسا نہیں کر پا رہے۔وہ ہاتھ میں جھاڑو پکڑ کر‘ ایوان صدر میں داخل ہوئے۔ مگرا نہیں یہ پتا نہیں کہ صفائی کیسے کی جاتی ہے؟کس چیز کو رکھنا ہے اور کسے گلیوں اور سڑکوں پر پھینک کر شہریوں کے راستے بند کرنا ہیں؟جیسے کراچی کی انتظامیہ کررہی ہے۔''ٹیلی گراف ‘‘ نے لکھا ہے کہ پاک فوج نے امریکہ کو بتایا کہ وہ افغانستان کا سارا گند صاف کرے لیکن دوسری طرف مسٹر ٹرمپ کو یہی معلوم نہیں کہ گند ہے کیا؟ اورکہا ں پڑا ہے؟ ہم گم شدہ بچے کی طرح ہڑ بڑاہٹ کی حالت میں ہیں۔ جس طرح پاکستان کرکٹ بورڈ‘ پی ایس ایل کا فائنل میچ کا اہتمام کر کے‘ یہ سوچ رہا ہے کہ آگے کیا کرنا ہو گا؟ اسی طرح امریکہ جس سے ہم پوچھ رہے ہیں کہ آگے کیا کرنا ہے؟اسے تو خود معلوم نہیں کہ اس کی منزل کیا ہے؟حالات کے تھپیڑے سابقہ دور کی عالمی طاقتوں کو دھکیلتے ہوئے کس طرف لے جائیں گے ‘ ہم نہیں جانتے۔ افغانستان میں مجاہدین کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے‘ ہم نے نہ کوئی منصوبہ بنایا تھا اور نہ اب بنا رہے ہیں۔گمشدہ دنیا کے گمشدہ کرداروں نے ‘خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ہم امریکہ کو ڈھونڈ رہے ہیں اور ہمارے سامنے ٹرمپستان ہے۔
''دی ٹیلی گراف نے پاک فوج کے ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ پاکستانی فوج نے واشنگٹن کو بتایا ہے کہ وہ افغانستان کا ''سارا گند ‘‘ صاف کریں ۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اس ملک کی صورت ِحال ‘روس کو یہاں بھی شام کی طرز کی مداخلت کرنے کی شہ دے گی۔ ذرائع کو یقین ہے کہ اگر داعش کو شام اور عراق سے نکال دیا گیا ‘ یا اس نے خود ہی ان ممالک سے نقل مکانی کرنے کو ترجیح دی تو اس کی اگلی منزل افغانستان ہی ہوگی۔ افغانستان میں 16 سال تک جاری رہنے والی فوجی مہم جس نے محض جزوی کامیابی حاصل کی‘ اب مغربی فوجیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد ‘ وہاں سکیورٹی کی ابتر ہوتی ہوئی صورت ِحال کا مطلب ہے کہ مغرب وہاں اپنا کنٹرول کھو رہا ہے۔
پاک فوج کے ایک سینئر افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ روس اس دگر گوں صورت ِحال کا فائد ہ اٹھا کر‘ اپنی فوجی کارروائیوں کا دائرہ افغانستان تک پھیلا سکتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روسی حکومت کے بہت سے عہدیداروں کو خطرہ ہے کہ مغرب ‘داعش کو استعمال کرتے ہوئے اس کے قریب‘ وسطی ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کر ر ہا ہے۔ درحقیقت روس کی گزشتہ ماہ افغانستان پر بلائی گئی کانفرنس ‘جس میں چین‘ انڈیا‘ پاکستان‘ ایران اور افغانستان نے شرکت کی۔اس کانفرنس کے حوالے سے کچھ تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ اس سے روس کے پاک افغان معاملات میں‘ فعال کردار ادا کرنے کا ارادہ ظاہر ہوتا ہے ۔ پاک فوج کے ذرائع کا کہنا ہے کہ 'Resolute Support Mission‘ کے کمانڈر ‘ جنرل جان نکولسن کے ساتھ گزشتہ ماہ ہونے والی میٹنگ میں امریکی افسر نے تسلیم کیا کہ '' طالبان کے خلاف افغان فورسز کی کارکردگی جمود کا شکار ہے ۔‘‘ پاک فوج کے افسران نے جنرل نکولسن کو بتایا کہ''اس جمود کا مطلب طالبان کی فتح ہی سمجھا جائے گا۔ ‘‘ٹیلی گراف کو مزید بتایا گیا کہ''ہم نے جنرل جیمز میٹاس کو بتایا تھا کہ افغانستان کے حالات قابو سے باہر ہورہے ہیں۔اگر معاملات کو درست نہ کیا گیاتوامریکہ کو ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ‘‘ جیمزمیٹاس امریکی سیکرٹری دفاع ہیں۔
پاکستان‘ افغانستان پر تنقید کرتا رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر پناہ لینے والے دہشت گردوں کے خلاف کچھ نہیں کر رہا لیکن ٹیلی گراف سے بات کرنے والے ذرائع نے تسلیم کیا کہ کابل یا افغان نیشنل آرمی کے پا س‘ ایسا کرنے کے لیے وسائل کا فقدان ہے ۔ اس نے یہ بھی تسلیم کیا کہ''مسئلہ یہ ہے کہ آپ گدھے کو تیز بھاگنا نہیں سکھا سکتے ۔افغان فوج تین لاکھ پچاس ہزار دستوں پر مشتمل ہے لیکن اس میں سے صرف بیس ہزار کے قریب دستے ‘جنگی مشن سرانجام دینے کے قابل ہیں۔ اس فوج میںایک ہزار جنرل ہیں لیکن ان میں سے زیادہ تر کی تعیناتی کسی عسکری خوبی کی بجائے‘ قبائلی وابستگی کی بنیادپر کی گئی ہے ۔ ‘‘