سب سے بڑا مسئلہ حکمرانوں کی بے نیازی ہے‘ خلقِ خدا برباد ہوتی ہے تو ہوا کرے۔ ان کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ؎
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرور کون و مکاں گئی
میڈیا کا معاملہ عجیب ہے ‘دائم وہی ماتم۔ کہانی کے کردار زکوٹا جن کا تکیہ کلام یہ تھا: اب میں کیا کروں‘ اب میں کس کو کھائوں؟ برقی ذرائع ابلاغ میں موضوعات کا قحط پڑا رہتا ہے۔ ناظرین کو ملوث رکھنے‘ سنسنی پھیلانے کے لیے‘ ہمہ وقت کسی حادثے کی‘ کسی کہانی کی تلاش رہتی ہے۔ مرگِ انبوہ جشن دارد۔
اقبال نے کہا: ؎
سینہ کوبی میں رہے‘ جب تک کہ دم میں دم رہا
ہم رہے اور قوم کے اقبال کا ماتم رہا
میڈیا کی گریہ زاری کا سبب کچھ اور ہے۔ لبنان کے فلسفی خلیل جبران نے کہا تھا: اخبار نویس انسانی زخموں کی تجارت کرتے ہیں۔ غور کیجیے تو فلمی دنیا بھی یہی ہے۔ امریکہ کے نامور کہانی کار ہیرالڈ رابنسن نے فلمسازوں کو Dream.merchantsکا نام دیا تھا‘ خوابوں کے سوداگر ۔ کہانی آدمی کی کمزوری ہے‘ ازل سے ۔کوئی مسئلہ اس سے حل نہیں ہوتا‘ مگر دل بہلتا ہے۔ کہانی کہنے والا انسانی نفسیات کی نزاکتوں کا فہم رکھتا ہو تو جی کا بوجھ ہلکا بھی کر دیتا ہے‘ Catharsisکا عمل۔ یہ ایک پوری صنعت ہے ۔ سستے ناول‘ سستی فلمیں‘ خاص طور پر برصغیر میں۔ بیس برس ہوتے ہیں ‘ عبدالکریم عابد مرحوم بھارت گئے واپس آئے تو بیان کیا کہ بھارتیوں کی قابل ذکر تعداد تاڑی پیتی اور رومانی فلموں سے جی بہلاتی ہے۔ ظالموں کی گردنیں کاٹتا ہوا ہیرو اور اس کے لیے رقص کناں قتالائیں۔ ؎
جام چھلکا تو جم گئی محفل
منتِ لطفِ غم گسار کسے
رحیم یار خان میں ہوں‘میزبان کے کمرے میں ٹی وی رکھا تھا۔ اس پر وہی واویلا: کراچی کے تھانے رشوت ستانی کے مرکز بن گئے۔ آن لائن ایف آئی آر کا نظام معطل ہو گیا۔ کراچی اہم ہے‘ تمام شہروں سے زیادہ اہم۔ دشمن یہ بات ہم سے زیادہ سمجھتا ہے۔ اسی لیے پاکستان کی اقتصاد ی شہ رگ کو اُس نے دبوچنے کی کوشش کی۔ نفرت کے مارے الطاف حسین کو گانٹھا۔ شہر کی سیاسی‘ سماجی معاشی اور تہذیبی حیات کو کینسر زدہ کر دیا۔ ڈاکٹر فاروق ستار اب اس کے متبادل ہیں۔ حالات کی گردش نے قیادت کا جوا ان کی گردن میں ڈال دیا ہے۔ آج تک وہ طے نہیں کر سکے کہ لندن سے ناتے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے۔ لیڈر بنائے نہیں جاتے پیدا ہوتے ہیں۔ثانوی حیثیت سے کام کرنے والے اشارہ ٔ ابرو پہ حرکت کرنے والے‘ پہل کاری کے اہل نہیں ہوتے۔ سر جھکائے رکھنے والے گردن فراز نہیں ہو سکتے۔ سمجھوتہ کیے رکھنے والوں کی جرأت عمل رفتہ رفتہ دیمک زدہ ہو جاتی ہے ۔
عادت کا معاملہ عجیب ہے۔ ایک بار استوار ہو جائے تو آسانی سے تحلیل نہیں ہوتی۔ سرکارؐ کا فرمان یہ ہے کہ احد پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل سکتا ہے‘ عادت نہیں ۔ پیغمبرانِ عظام اور ان کے رفیقوں کے‘ صوفیوں کے سوا ۔ صاحبِ علم ‘ سچے صوفی کم ہوتے ہیں۔ عادت کو شکست دینے والے کم ہوتے ہیں۔شاذو نادر !
دوسری طرف مصطفیٰ کمال ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ظالم سندھی جاگیرداروں کا سامنا کرنے کے لیے‘ مہاجروں کو ایک پلیٹ فارم پر ہونا چاہیے‘ بلکہ کراچی اور حیدر آباد کی تمام آبادیوں کو۔ اس لیے کہ حکمران وہ ہیں‘ بدعنوانی بھی بہت‘ بے حس بہت‘ پتھر دل بہت۔ یہ اگر نہیں تو اکثریت کسی ایسی پارٹی ‘ کسی ایسے لیڈر کی پشت پر کھڑی ہو جائے جو ان سے نمٹ سکتا ہو۔ دم خم اگر دکھائی دیتا ہے تو مصطفیٰ کمال اور ان کے ساتھیوں میں۔ جرأ ت و جسارت بھی‘ سلیقہ مندی بھی۔ بظاہر پزیرائی بھی ہے مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ کس قدر۔ انتخابات ہی میں اس کا فیصلہ ہو گا۔ تاریخی تجربہ یہ ہے کہ قدیم تعصبات آسانی سے تحلیل نہیں ہوتے دوسری طرف حقیقت یہ بھی کہ فاروق ستار قیادت کی بہت کم صلاحیت رکھتے ہیں۔ مصطفیٰ کمال جیت گئے تو صرف سیاسی طور پر ہی کراچی رہا نہ ہو گا بلکہ نفرت کی آندھی بھی تھم جائے گی اور ملک ایک نئے دور کا آغاز کرے گا۔ پروپیگنڈہ مصطفی کمال کے خلاف بہت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ان کا رابطہ ہے ایم کیو ایم کے علاوہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے اخبار نویس بھی اس میں حصہ ڈالتے ہیں۔ نون لیگ کے اس لیے کہ میاں محمد نواز شریف‘ فاروق ستار اینڈ کمپنی کو مستقبل کا حلیف پاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بھی یہی سمجھتی ہے کہ مصطفیٰ کمال آسان شکار نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ایم کیو ایم سے راہ و رسم رکھتی ہے اور باقیوں سے بھی۔ فاروق ستار اینڈ کمپنی کی ماہیت قلب اس شب ہوئی تھی‘ الطاف حسین کے آخری خطاب کے ہنگام جب وہ گرفتار ہوئے جس روز ٹی وی چینلوں پر انہوں نے حملہ کیا تھا۔ اس شب اسٹیبلشمنٹ کے سامنے سپرڈال دی اور تابعداری کا پیمان کیا۔ اپنے مزاج اور سرشت کی بنا پر سرکار دربار اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے وہ قابل قبول زیادہ ہیں۔
سندھ کی سیاست میں پولیس کا بھی ایک کردار ہے جو تباہ و برباد ہے۔ جنرل مشرف کے عہد میں بھرتیاں ایم کیو ایم کے ایما پر ہوتی رہیں۔ پیپلز پارٹی کے عہد میں ان کے لوگ۔ ایم کیو ایم والے اپنے وفاداروں کو نوکریاں دیتے رہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے زیادہ تر فروخت کیں۔ سات لاکھ سے دس لاکھ روپے فی کس۔ 2016ء میں جنرل راحیل شریف نے دبائو ڈالا تو زرداری صاحب اور وزیر اعلیٰ مان گئے کہ آئند میرٹ پہ بھرتی ہو گی۔ سال گزشتہ نجی ماہرین ‘سول سوسائٹی اور فوجی افسروں کی نگرانی میں 12000پولیس والے بھرتی کئے گئے۔ ساڑھے آٹھ ارب روپے سے بعض لیڈروں کو محروم کر دیا گیا۔ ارادہ ان کا یہ تھا کہ 2018ء کے الیکشن میں یہ رقم صوبائی اور قومی اسمبلی کے امیدوارں میں بانٹی جائے۔ چند ماہ قبل آئی جی اے ڈی خواجہ کو الگ کر دیا گیا تھا۔ بادشاہ سلامت کے رفیق کار انور مجید ان سے ناراض تھے۔ انہیں شوگر کنگ کہا جاتا ہے اپنی مرضی کے نرخوں پر‘ پورے صوبے میں ہر کہیں‘ جبراً وہ گنے کی خریداری کرتے ہیں۔ ادائیگی تین برس کے بعد کرتے ہیں۔ اگر کوئی انکار کرے تو پولیس والے اس پہ چڑھ دوڑتے ہیں۔ ایسا ایک واقعہ بدین میں ہوا تو آئی جی اے ڈی خواجہ نے مداخلت کی۔ انور مجید اس پر برہم ہوئے ۔ زرداری صاحب کے حکم پر وزیر اعلیٰ نے آئی جی کا تبادلہ کر دیا۔ عدالت نے حکم امتناعی جاری کر دیا۔ ایک بار پھر نئے انسپکٹر جنرل کی تلاش جاری ہے۔ ایک کھرب پتی پراپرٹی ڈیلر اور انور مجید میں اپنی پسند کا افسر لگوانے کے لیے کشمکش جاری ہے۔
کراچی کی بدامنی‘ محض جرائم پیشہ گروہوں اور لسانی تعصب کے طفیل نہیں۔ پولیس کو اپاہج بنا دیا گیا ہے۔ دبئی کی کل آبادی 40لاکھ ہے۔35ہزار کیمروں سے ان کی نگرانی کی جاتی ہے ۔ ایک کروڑ آبادی کے لندن میں 35لاکھ کیمرے نصب ہیںکراچی میں صرف 2200‘ آدھے اُن میں سے خراب ہیں۔ نیو یارک میں ایک کروڑ اسی لاکھ افراد بستے ہیں80ہزار اعلیٰ تربیت یافتہ پولیس والے نگران رہتے ہیں‘ جن کی تنخواہیں پاکستانی پولیس والوں سے کم از کم تیس گنا زیادہ ہیں۔ سیاسی مداخلت کا سوال ہی نہیں۔ کراچی پولیس کی تعداد27ہزار ہے ان میں سے بہت سے رشوت لے کر رکھے گئے۔ ان کا واحد مقصد ‘ لوٹ مار تھا۔ تربیت بہت ہی ناقص۔ ان میں سے 9ہزار ارکان اسمبلی‘ وزراء‘ ججوں اور اہم کاروباری شخصیات کی حفاظت پہ مامور ہیں ۔ لاہور کی آبادی کراچی سے کم ہے‘ تقریباًآدھی! پولیس کی نفری چالیس ہزارہے۔ اس تناسب سے کراچی میںکم از کم اسی ہزار ہونی چاہیے۔
سال گزشتہ سندھ پولیس میں12000افراد میرٹ پہ بھرتی ہوئے۔ چار ماہ تک فوج کی نگرانی میں ان کی تربیت ہوئی۔
یہ دعوی غلط ہے کہ آن لائن‘ ایف آئی آر کا سلسلہ معطل ہے۔ ساٹھ فیصد شکایات درج کر لی جاتی ہیں‘ توثیق کے بعد۔
مسائل اور بھی ہیں‘ پولیس اور عدالتوں میں تال میل کی کمی۔ پولیس کی تفتیش بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اسی پر عدالتی احکامات کا انحصار ہونا چاہیے۔ ایسا مگر ہوتا نہیں۔ ان کے درمیان رشتہ اگر ہے تو عدم اعتماد کا۔
سب سے بڑا مسئلہ حکمرانوں کی بے نیازی ہے‘ خلقِ خدا برباد ہوتی ہے تو ہوا کرے۔ ان کی پانچوں گھی میں ہیں اور سر کڑاہی میں ؎
خوف خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرمِ سرور کون و مکاں گئی