ایشیائی ممالک کے تازہ ترین سروے نے بتایا کہ ایشیا کے ملکوںمیں 90کروڑ عوام اپنے جائز کام کروانے کے لئے ہر روز رشوت دینے پر مجبور ہیں۔ میں اور آپ اسی خطے کے شہری ہیں لہذا خوب جانتے ہیں ، رشوت کون نہیں لیتا...؟
ایک مشہور جج صاحب کے پاس لاہور ہائی کورٹ میں پٹواری کی ضمانت کا مقدمہ پیش ہوا۔ جج موصوف بعد میں سپریم کورٹ تک پہنچے ۔لیکن ان کی ساری شہرت ذوالفقار علی بھٹو شہیدکے عدالتی قتل کی نذر ہو گئی۔ وکیل صفائی نے پٹواری کے خلاف استغاثہ کے مقدمے میں مختلف نقائص نکالے اور خامیوں کے ڈھیر لگا دئیے۔ عدالت میں موجود وکلاء کا خیال تھا فیصلہ پٹواری کے حق میں آئے گا۔ کیونکہ اس کے خلاف مضبوط ثبوت موجود نہیں تھے۔ فریقین کے وکلاء کی بحث کے خاتمے پر جج صاحب نے کمرہ عدالت میں موجود لوگوں کو حیران کر دیا۔ جج صاحب بولے کہ انھوں نے اپنی ذاتی ملکیتی زمین کی فرد حاصل کرنے کے لئے پٹواری کو مجبوراً رشوت دی تھی۔ پٹواری کی ضمانت مسترد ہوئی اور ساتھ یہ بھی پتہ چل گیا کہ رشوت کی جڑیں ہمارے ملکی نظام میں کس قدر گہری ہیں۔
کچھ دن پہلے جی ٹی روڈ روات کے علاقے کے ایک معززسرکاری عہدے دار ملنے آئے ، کہنے لگے ، خریدی ہوئی زمین کے انتقال کے لئے پہلے پٹواری کے منشی پھر پٹواری پھر اہلمد کو ایک ہزار روپے فی کس نذرانہ دیا‘4 مہینے تک انتقال درج نہ ہوا۔ تو اہلمد نے مہربانی فرمائی اور کہا کہ جناب تحصیلدار صاحب 2ہزار فی کنال فیس لیتے ہیں وہ فیس ادا کر دیں۔ ساتھ یہ بھی ہدایت کی، زمین کی ملکیت کا کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ ملاحظہ کرنا ضروری ہے۔ وہاں جا کر پتہ لگا کہ منشی پٹواری ، گرداور، اور تحصیلدار کس قدر عوام دوست ہیں۔ کمپیوٹر سیکشن زمین کی ملکیت کنفرم کرنے کے لئے 10,000 روپے فی کنال "محنتانہ" مانگ رہا تھا۔یہ واقعہ سن کر مجھے ایک بڑے خدا ترس آفیسر یاد آگئے۔ جن کی طرف سے سادہ کاغذ پر ہاتھ سے لکھا ہوا شادی کا دعوت نامہ ملا۔ یہ 1992ء کا ذکر ہے موصوف نے اپنے صاحبزادے کا نکاح علاقے کی مسجد میں کروایا اور اسی مسجد کے صحن میں چنے کی دال اور لوہ پر پکے ہوئے مانڈے (بہت بڑے سائز کی چپاتی) کا ولیمہ کھلایا۔ کچھ عرصے بعد ایک اہم معاملے میں ان کے روبرو حاضری کا موقع ملا۔ شرف باریابی کے دوران ان کے دائیں بائیں بیٹھے دو اہلکاروں میں سے ایک نے موصوف سے کہا کہ آپ کے گھر کے بل آئے ہیں۔ اس خدا ترس صاحب کے بل کس کو ادا کرنے پڑے یہ لکھنے کی ہمت نہیں۔ لہذا ایشیائی ملکوں میں شفافیت کے عنوان پر مبنی سروے کی طرف واپس چلتے ہیں۔ سروے کے رپورٹ شدہ حقائق کے مطابق ایشیا کا ہر چوتھاشہری اپنے جائز شہری حقوق کے لئے انتظامی اداروں، صحت عامہ کے ڈیپارٹمنٹ، عدل کے ایوان اور قانون نافذ کرنے کے ذمہ دار اہلکاروں جیسے ''تنخواہ دار‘‘ لوگوں کے پاس جاتا ہے۔ مگر اس کا کام تب ہوتا ہے جب وہ کام کو کرنسی نوٹ کا پہیہ لگائے۔ اب یہ بات دلچسپی سے خالی ہو گئی ہے کہ رشوت خوروں کی اس ایشیائی دوڑ میں ہمارے ریاستی اداروں کا کون سا نمبر آیا ہے۔ بہر حال بھارت جس معاملے میں بھی ہم سے پیچھے رہ جائے ہمیں بہت خوشی ملتی ہے۔ رشوت کے سلسلے میں افسوس ناک خبر یہ ہے کہ بھارت ہم سے آگے نکل گیا ہے۔ ہو سکتا ہے اس کی وجہ آبادی کا پھیلائو ہو۔ کچھ سال پہلے پنجاب کے ایک جنوبی ضلع کے ایک میڈیکل آفیسر کا معاملہ سامنے آیا۔ جس میں دو جوان شہریوں کو چشم دید گواہوں کی موجودگی میں برسرِ عام گولیاں مار دی گئی تھیں۔ مقتولین کی لاشیں ہسپتال پہنچنے سے پہلے مارنے والوں کے سرپرست ہسپتال جا پہنچے۔ باقی تفصیل رہنے دیتے ہیں۔ میڈیکو لیگل رپورٹ اور پوسٹ مارٹم کی تفصیلات کے مطابق دونوں مرنے والوں کو چھریوں کے زخم لگے تھے۔ مقتول فریق کو سوئم والے دن مسیحا کی اس سفاک واردات کا پتہ چلا۔ صوبے کے سٹینڈنگ میڈیکل بورڈ نے قبر کشائی کروائی۔ دونوں مرنے والوں کے جسم کے اندر سے گولیوں کے سِکے برآمد ہو گئے۔ پولیس لائنز میں ایک عہدہ ڈیوٹی محرر کا ہوتا ہے۔اس عہدے پر صاحب کا منظورِنظرہی لگتاہے۔صبح سویرے ڈیوٹی محرر کے کمرے کے باہر پھجے کے پائے کی دکان والا رش د یکھنے کو ملتا ہے۔دن کی ڈیوٹی لگانے کے لئے مختلف علاقوں کے مختلف ریٹ مقرر ہیں ۔ہم میںسے کو ن ہے جس کا کوئی نہ کوئی محلے داریا رشتہ دار پولیس اہلکار نہ ہو۔اس سے خود پوچھ لیجئے قانون کے اس بازارِمصر میںفرائض کی نیلامی کس طرح ہوتی ہے۔سرکاری تعلیمی اداروں سے لے کرسرکاری دفاترتک سائل کو بھکا ری سمجھاجاتاہے۔اس وقت تک جب تک وہ یہ ثابت نہ کر دے کہ اس کی جیب ان نوٹوں سے بھری ہوئی ہے‘ جن پر سرکارنے یہ نعرہ لکھوارکھا ہے'' رزقِ حلال عین عبادت ہے''۔
ہمارے مقتدر لیڈرحضرات چاہے وہ مسٹر ہوں یا ملاں سیاست کوعین عبادت سمجھتے ہیں۔اس لئے 90کروڑ بے چارے ان کی عبادت کے ایجنڈے پر نہیں آتے۔سرمایہ داری ،جاگیرداری اور چور بازاری کے پیٹ سے نکلنے والی غربت ،بیماری اور بے روزگاری نہ حکومت کا مسئلہ ہے نہ جمہوریت کا ۔اللہ کے فضل و کرم سے جمہوریت کی نظریں اصل مسائل پر ہیں۔جو ختم ہو کر 3 باقی بچے ہیں۔پہلا دہشت گردی اور بد امنی‘اس مسئلے کا حل کرکٹ میچ ہے۔دوسرا چھوٹے اور پسے ہوئے طبقات کی حمایت کے لئے لفظ پھٹیچر کی مخالفت۔تیسرابے روزگاری،سٹریٹ کرائم اور آسمان سے با تیںکرتی مہنگائی ہے۔اس کے خا تمے کے لئے صبح، دوپہر، شام29مرتبہ ریلو کَٹے کا وِردہے۔سینٹ میں ریلو کَٹا اور پھٹیچرغیر پارلیمانی لفظ ٹھہرے پھٹیچرکی پھ کا مطلب سانپ کا پَھن،ٹ کا مطلب ٹہکہ،یہ کا مطلب ہے یکے والی اور چر کا مطلب ہے پنکچر۔ریلو کا مطلب ہے ریلو اور کَٹے کا مطلب ہے کَٹا۔ظاہر ہے اس طرح کی غیر پارلیمانی گفتگوہماری شرمیلی جمہوریت کے خلاف سا زش ہے۔اللہ کا شکر ہے کہ سینیٹ نے یہ سازش نا کام بنا کرغریب قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا۔ سپر یم کورٹ رپورٹرز نے مجھ سے پوچھا:ر پھٹیچراور ریلو کَٹاکے الفاظ پارلیمانی ہیں یا غیر پارلیمانی۔عرض کیا: پھٹیچراور ریلو کَٹا کو ن سی لغت کے لفظ ہیں۔یہی سوال دنیا کی مفاہمتی سینیٹ سے بھی پوچھا جا سکتا ہے۔ ؎
یہی کہا تھامِری آنکھ دیکھ سکتی ہے
کہ مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہرِنابینا