گلزار گلیوں گلیوں ہمیں پھراتے گھماتے گھر لے گئے۔ دس دس فٹ کے کمروں سے دکان اور مکان کا کام لینے پر مجبور تھے لوگ۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے میں مشغول عاشقی میں غربت تو آڑے نہیں آتی۔ قحط سالی اور بات ہے۔ جگہ جگہ دودھ مٹھائی پکوڑوں وغیرہ کی دکانیں ‘ پتوں کے کٹوروں میں دال بھجیا۔ یہ چیزیں بھی دسترخوان پر آئیں۔ گلزار اپنی شیروانی کی جیب میں ایک پیمانہ لیے پھرتے ہیں‘ یہ بے پیندے کا ہے۔ یہ کہہ سکتے ہیں سیدھا کرو تو مقدار زیادہ اور الٹا کرو توآدھا پیالہ(پیگ) شمار کرتے ہیں۔ شراب کے ساتھ وہ دال بھجیا بار بار بازار سے آتی رہی۔ مسالے بے حد تیز۔ میں لکھ بھی چکا ہوں بتا بھی دیا تھا۔ یہ بازار سیتا رام کا مکان تھا۔ پہلو کے چھوٹے سے کمرے میں فرشی بیٹھک تھی۔ دیواروں پر بے شمار اشتہار اور تصویریں آویزاں۔ ایک نوخیز حسینہ کی تصویر پر سب کی نظریں گڑ گڑگئیں۔ بوتل کھلی‘ گلزار صاحب نے اردو‘ انگریزی‘ ہندی میں خود ساختہ دعائیہ کلمات ہاتھ اٹھا کر عالمگیر انسانی مساوات اور محبت کے پڑھے۔ گلاس گردش میں آ گئے۔ شرکاء کی تعداد ایک درجن سے کم نہ تھی کالی باڑی مندر کے مہنت نندلال نوعمروں کی ٹولی اور سکھ ٹیکسی ڈرائیور سمیت جام لنڈھانے لگے۔ کسی پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ ہوش اڑانے کے بعد بڑائی چھوٹائی کی
حدیں کون برقرار رکھتا ہے۔ سرشار ہو نکلے۔ حوض قاضی وغیرہ کے ہوٹل تو بند ہو چکے تھے ۔ جو کھلے ہوئے تھے وہاں کھانے کی کوئی ڈھنگ کی چیز نہ تھی۔ کبھی اس گلی میں دُور تک گئے کبھی اس گلی میں جھانکا ۔ لوگ اپنی اپنی پسند اور تھڑوں پر بیٹھے دودھ اور گپ اُڑا رہے تھے۔ بڑے بوڑھوں کے گُل مُچھے چڑھے ہوئے۔ دھوتیاں‘ تہہ بند‘ پتلون‘ پاجامے عام ہیں۔ سکھ عورتوں میں پتلون مقبول ہے ۔ مہنت نند لال میرے زرکار جوتے پر بہت ریجھے میں نے کہا یہ تونہیں دوسرا بنوا کے بھجوا سکتا ہوں۔ شعر خوانی کا آبشار بھی بہہ رہا تھا ۔ گلزار صاحب موج میں تھے۔ چند شعر چند مصرعے یاد رہ گئے ہیں: ؎
اک کم سن نے دو کو پھنسایا وبال میں
تھانے میں ہے رقیب تو وہ ہسپتال میں
ایسے ساغر کو کیا کرے کوئی
جس کے پیندے میں بال آ جائے
یہ شعر ساغر نظامی کے ذکر پر زبان پر آیا اور یہ مصرع بھی ع
ساغر کی تہہ میں قطرۂ سیماب رہ گیا
کھا رہا تھا کباب طاعت و زُہد
پی رہا تھا شراب طاعت و زُہد
سائیکل رکشائوں میں ٹھنس ٹھنسا کر مسجد فتح پوری کے ہوٹلوں میں آ گھسے۔ سائیکل رکشا بارہ بار تیرہ تیرہ برسوں کے لڑکے پانچ پانچ سواریوں کو لادے پھرتے ہیں۔ سائیکل رکشا کی بہتات ہے۔ پندرہ بیس روپے روزانہ کما لتے ہیں۔ چلانے والے دلی کے کم باہر خصوصاً بہار کے زیادہ ہیں۔ سبھی تپ دق کے مریض لگتے ہیں۔ بے شمار میلے کچیلے رکشا والے زندگی سے بیزار ملے۔ باقاعدہ پپڑیاں جمی ہوئیں۔ بال بے طرح بڑھے ہوئے الجھے ہوئے میل کچیل کی تہیں جمی ہوئیں ۔ ایک سائیکل رکشاوالے نے روز کی کمائی پچاس روپے بتائی۔ میں نے ڈپٹ کر کہا جھوٹے اپنی حالت اپنا حلیہ دیکھ ۔ دو روپے کی صابن کی ٹکیہ نہیں خریدی جاتی تم سے۔ پچاس تو دلی کا راج بھی نہیں کماتا۔ تیس روپے تک حال ہی میں پہنچا ہے۔ مزدور دس روپے سے آگے
کہاں بڑھا ہے۔ غربت پاکستان میں بھی کم کہاں ہے لیکن دلی میں اس قدر عام ہے کہ آپ از خود محسوس کرنے لگتے ہیں۔ ہمارے ہاں مزدور راج‘ موٹر رکشہ ڈرائیور‘ عام آدمی دلی میں جا کر یہ جاننے پرمجبور ہو گا۔ بے اختیار پکار اٹھے گا میں تو ایک امیر ملک سے فاقہ زدگی میں آ پھنسا ہوں۔ دوسرے لفظوںمیں یہ کہیے دلی ہمیں سستا پڑتا ہے۔ ہم زیادہ کماتے ہیں۔ اچھا پہنتے اور خوب لٹاتے ہیں۔ وہاں یہ لطیفہ بھی مشہور ہے اگر آپ کی جیب سے بل ادا ہونا ہے تو اچھے ہوٹل میں اور اگر گلزار صاحب کی جیب کٹنا ہے تو کسی بھٹیار خانے میں بیٹھنا ہو گا۔ نہایت غلیظ بدبو دار کھانا زہر مار کرنا پڑا۔ میں توسونگھ کر ہی رہ گیا‘ شرابیوں کے لیے اچھے برے کا مسئلہ ہی کہاں تھا‘ جو کچھ ملا پیٹ بھر لیا۔ اختر فیروز قاضی حوض ہی میں بچھڑ گئے وہ مہنت لال کے ایک نوخیز ساتھی جس پر چڑھ چکی تھی فریفتہ ہو چکے تھے۔ ادھر ادھر بہت دیکھا‘ جانے کہاں چل دیے ۔ کھانا کھا کر ہم لوگ تو چلے آئے کوئی آدھے گھنٹے بعد اختر آ گئے۔ لڑکوں کا ایک غول میرے کمرے میں آ گھسا۔ سوشیل نے ہاتھ کی صفائی دکھائی‘ میرا پائپ اُڑا کے لے گیا۔جیسے ہی یہ لوگ ٹلے رئیس صاحب بولے کہو کیا ہوا کچھ بنا بولو۔ بتائو کیا کیا ہوا۔ اختر فیروز کی کہانی مزے لے لے کر سننا شروع کی بولا بھئی لونڈا مزیدار ہے۔
اخبارات نے بھی ہمارا کوئی خاص استقبال نہیں کیا۔ یہ کیفیت دیکھ کر خواہ مخواہ کی خفت خدا جانے کیوں محسوس کرتے ہیں۔ خفت کم کرنے کے لیے خود کلامی کی ہیجانی کیفیت سے دوچار ہو جاتے ہیں دونوں کے دونوں‘ رئیس اور اختر فیروز دونوں قومی آواز میں چونکہ رئیس مرزا ہیں۔ اس میں ایک اندھی کانی ہوائی اڈے پر اترنے والی تصویر چھپ گئی۔ اور تو کوئی پہچانا نہیں گیا‘ تصویر چونکہ میری تھی وہ میں نے پہچان لی۔ اخبار لکھنے کو تو جو جی چاہے لکھتے رہیں لیکن ہیں زٹیل۔ نہ شکل نہ صورت نہ ترتیب‘ کسی ضلعی صدر مقام کے اخبار معلوم ہوتے ہیں۔ وہاں دلی کے اردو اخبارات میں زیادہ تر''قومی آواز‘‘ہی نظر سے گزرتا رہا۔''رئیسی وفد‘‘ کی خبریں رئیس مرزا کے توسط سے اس میں آنے کی توقع رہتی تھی۔میں توملاپ اور تیج بھی خریدتا تھا کانگریسی غیر کانگریسی لکھتے وہ سب کچھ ہیں جسے وہ لکھنا مناسب سمجھتے ہیں۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ بالفاظِ دیگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اسے اگر آزادیٔ صحافت کہا جائے تو میرا تو خیال یہ ہے کہ غلط نہ ہو گا۔ میرٹھ کے فسادات پر مسلمانوں کے گرما گرم تاثرات بھی نظر سے گزرے اور جامع مسجد میں اجتماعات کی خبریں بھی نمایاں چھپتی رہیں۔ پاکستان کے لیے نرم گوشہ کم ہی پایا۔ گیسٹ ہائوس کا منیجر اور نوکر چاکر، یہ بحث لے بیٹھے کہ دیکھو بھائیو! یہ ایک سمگلر کے پکڑے جانے اور سزا یاب ہونے کی خبر ہے۔ سمگلر نے صرف ہندوستانی فلم درآمد نہ کی ہوگی۔ وی سی آر‘ ننگی فلمیں‘ ٹی وی‘ سگریٹ اور خدا جانے کیا کیا کچھ ہو گا۔ اسی میں ہندوستانی فلم بھی یقیناً ہو گی...
آج کامقطع
دھیان رکھتا ہوں ظفر زخمِ تماشا کا بہت
پھر بھی ٹانکے کئی کھل جاتے ہیںاکثر میرے