میں گندی نالی کا ایک کیڑا ہوں۔عرصہ ہوا کہ صاف پانیوں میں نہیں رہ سکا۔ میں جہاں بھی ہوتا گندے پانیوں کی طغیانی‘ مجھے اپنی بانہوں میں لے لیتی۔مجھے ایک بار شریفانہ حکومت کو دیکھنے کا شوق چڑھ آیا۔ عجیب منظر تھا۔میرے جاننے والے اگر میرے پاس آبھی جاتے تو میں ان کی خاطر مدارات کے لئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔مگر خدا نے جلد ہی موقع دے دیا۔ مجھے کوئی جاننے والا پارلیمنٹ کے اجلاس میں لے گیا۔ وہاں پہنچا تو منظر ہماری گندی گلی سے بھی گندہ تھا۔ گندی گلی میں رہتے ہوئے سوچا تھا کہ وہ کتنے پاکیزہ لوگ ہوں گے‘ جو گندی گلی کا نظم و نسق چلانے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں؟۔مجھے کیا معلوم تھا؟ کہ جلد ہی صاف ستھرے لوگوں کی محفل میں جانے کی توفیق ملے گی۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ مجھے اس''بازار‘‘ میں جانے کا موقع مل گیا۔ عجیب منظر تھا۔ میں نے پہلی مرتبہ بسوں کے اڈے کا ایک جگا دیکھا۔وہ ہر کنڈیکٹر سے بھتہ لے کر‘ پولیس والوں کو دیا کرتا۔ اسے اس طرح پولیس کی سرپرستی مل گئی۔ پھر اس نے پورے کا پورا گھر ہی‘ پولیس والوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کی کایا پلٹ گئی۔وہی پولیس جس نے بھتہ جمع کرنے کے لئے اسے بھرتی کیاتھا‘ اسے ایوان اقتدار میں پہنچانے میں کامیاب ہوگئی۔ اب پوری پنجاب پولیس کے ساتھ اس کے گہرے تعلقات ہیں اور پورے صوبہ پنجاب کا افسرا علیٰ‘ اس کا دم بھرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جگا صرف بسوں کے اڈے تک بھتہ وصول کرنے تک محدود تھا مگر قدرت نے اللہ کے فضل و کرم سے اس کے بھتے میں ایسی برکت ڈالی کہ وہ پورے کے پورے شاہی خاندان کے نیاز مندوں کی ٹولی میں شامل ہو گیا۔
جب میں نے جگے کو اڑانیں بھرتے دیکھا تو تعجب ہوا کہ جگا بسوں کے اڈے سے اٹھ کر ایوان اقتدار میں کیسے پہنچ گیا؟جگا ایسی ہنر مندیوں سے آراستہ تھا کہ جہاں بھی پائوں دھرتا‘ وہاں اشرفیوں کی کھنکار سنائی دینے لگتی۔ اصل میں وہ گھنگھرئوں کی جھنکار کا ماسٹر مائنڈ تھا۔وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ کون ‘ کس دیو ہیکل شخصیت پر قربان ہونے کو ہمہ وقت تیار رہتی ہیں؟ لیکن جگے کے مشاہدے میں سوائے اس کے کچھ نہیں آیا کہ جب کوئی خوش حال تماش بین اپنی'' خصوصی فرمائشوں‘‘ کے ساتھ‘ اس کی منڈی میں پہنچتاتو مہربان کی فرمائشیں کس طرح پوری کرنی ہیں؟ اور پھر ایسا ہوا کہ وہ ایک پورے معزز ایوان میں کھڑے ہو کر‘ اعلان کرنے لگا کہ میں وہ خوش نصیب انسان ہوں ‘ جسے یہ علم ہے کہ کس کی ‘ کس کے کام آتی ہیں؟ یہ جگے کی زندگی کا نازک ترین موڑ تھا۔اب وہ جگے سے'' چو دھری جگا‘‘ بن گیا اور عزت داروں کے خالی برتنو ں میں منہ مارنے لگا۔اسے خبر نہیں تھی کہ ایک دن وہ خود وہی رو ٹیاں توڑنے پر مجبور ہو جائے گا‘ جو وہ باقی ماندہ کھانے میں سے دو ٹکڑے نکال کر پھینک دیا کرتا تھا۔ مگر قدرت کا کرنا کیا ہوا کہ اب وہ روٹی کے بچے بچائے ٹکڑے کھا کر کیسی شاہانہ زندگی گزارنے لگا تھا؟ سچ یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو زندگی کی تمام آسائشیں آرام سے میسر آجایا کرتی تھیں۔مگر مجھے کیا معلوم تھا کہ ایک دن میں اسی
غلیظ زندگی کے اندر اپنا دانہ دنکا چننے لگوں گا۔مگر میرا اندیشہ غلط نہیں تھا۔ میں نے تو اپنے زمانے کے ہیرو کی خدمت کرتے ہوئے ایک معزز شخصیت کو دیکھا کہ وہ کس طرح ارباب نشاط کی خوشنودی حاصل کرتا ہے؟۔گزشتہ روز جب منتخب ایوان کے اندر کچھ منتخب لوگوں کو'' تبادلہ خیال‘‘ کا موقع ملا تو انہوں نے کیسے کیسے لوگوں کی مدارات کیں؟ یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ لوگ وہ راز بھی جانتے ہیں‘ جہاں سے اس جگے نے اپنی زندگی سنوارنے کے طریقے سیکھے۔سنا ہے کہ جگا ایک الہڑ جوان‘ شہرت یافتہ اور مشہور شخصیت کے دربار میں بازیاب ہوا۔ مگر یہ اپنے اختیار کردہ ترقی یافتہ پیشے میں سنبھل نہیں پایا۔ وہ جھومتے ‘ لڑکھڑاتے اور گڑگڑاتے ''خاص آدمی‘‘ کی طرح صاحب ثروت لوگوں کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی خدمات پیش کرنے لگا۔جب وہ اس دھندے میں داخل ہوا تو اس کی قسمت کھل گئی۔ اب وہ بڑے بڑے امرا کے ہم نشینوں میں شامل ہو گیا۔حکمرانوں کے خاندان میں جتنے لوگوں تک اس کی رسائی ہوئی‘یہی پتہ چلا کہ دربار عالیہ میں کیسے کیسے مہربان ''خصوصی خدمات ‘‘کے لئے ہر وقت بے تاب رہتے ہیں؟
بسوں کے اڈ ے پرحوصلہ ہار کے جب ہمارا پسندیدہ کردار‘ دوبارہ اپنے ماحول میں داخل ہوا تو اب کی بار اس کی قسمت کھل چکی تھی۔ جگے کو ورق کھولنا بھی نہیں آتا تھا۔ اس نے پھونکیں ماریں۔ لمبے لمبے سانس لے کر منہ سے ہوا نکالی مگر کیا مجال ہے؟ کہ قسمت کا کوئی صفحہ اس کی نظر میں آیا ہو۔ وہ نئی دنیا کے رنگ روپ دیکھ کر بے حال ہو گیا تھا۔وہ سوچ رہا تھا کہ جس پر تعیش زندگی کے خواب اس نے دیکھے تھے‘ کبھی وہ پورے بھی ہوں گے؟ مگر قدرت کے کارخانے میں کیا نہیں ہو سکتا؟ یہی وہ شخص تھا جو بسوں کے اڈے پر بھتہ وصول کر کے روٹی پانی چلایا کرتا تھا۔ آج اس کی دنیا بدل چکی ہے۔ اس کی ترقی ہو چکی تھی۔اب وہ کروڑوں اور اربوں کے بھتے وصول کرنے لگا تھا۔ اس کی نظریں معروف ‘ شہرت یافتہ اور تنومند جوانوں کی طرف اٹھنے لگیں۔ جنہیں کبھی وہ اپنے خوابوں میں دیکھا کرتا تھا۔اس کا خواب تھا کہ وہ خوش خرام اور خوش حال لوگوں کی محفلوں میں حاضری دینے لگے۔ اس کی قسمت میں جو لکھا تھا‘ اسے وہی ملنے لگا۔بسوں کے اڈوں سے بھتہ لینے والا شخص‘ دیکھتے ہی دیکھتے بڑے بڑے تاجروں‘ بڑی بڑی منڈیوں‘ بڑے بڑے صرافہ بازارو ں میں بھتہ وصول کرنے لگا۔ایک زمانہ تھا کہ بسوں کے پورے اڈے سے بھتہ لے کر‘ پولیس کی دو جیبوں میں ساری رقم ڈال دیا کرتا تھا مگر اب اس کے وارے نیارے ہو چکے ہیں۔ آج وہ حکمران حلقوں میں جا کر بھتہ وصول کرتا ہے اوراکڑ اکڑ کے چلتا ہے۔میں اس وقت سے ڈر رہا ہوں جب جگا واپس اپنی دنیا میں آئے گا تو لوگ اس کے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟میں نے اپنی زندگی میں بہت سے جگے‘درباری زندگی سے ٹھکرائے جانے کے بعد‘واپس بسوں کے اڈے پرسواریاں تلاش کرتے ہوئے دیکھے ہیں۔ ایسے لوگوں کو دیکھ کر عام آدمی یہی سوچتا ہے کہ اب یہ پتا نہیں کہاں جائیں گے؟ مگر یہ جگے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جدھر بھی جائیں گے‘ شاہی قورمے کھائیں گے۔ عربی بریانی سے لطف اندوز ہو کر گلے دار ڈکاریں ماریں گے۔ اگر انہیں مہذب اور اچھے لوگوں کی منڈلی میں جانے کا موقع مل جائے تو وہ یہیں سے بھتے کی وصولی کا بزنس شروع کر دیتے ہیں۔ہمارے عوام بڑے سادہ لوح ہیں۔وہ ان کی طاقت پر بھروسہ کر کے خوش حال زندگی کے خواب دیکھنے لگتے ہیں مگر پھر ہوتا کیا ہے؟گھر واپسی پر وہی بسوں کااڈہ۔وہی بھتہ۔ وہی گالیاں۔اور پھر طنزیہ انداز میں یہ سوال کہ ''بتااوئے اے درباری؟آج تیرے پاس کیا ہے‘‘۔