تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-03-2017

خدا کے لیے!

سیاسی جماعتوں کو دو باتیں بہرحال طے کرنا ہوں گی۔ انہیں اپنے معاملات مراد سعید اور جاوید لطیف کے حوالے کرنے ہیں یا اپنی نمائندگی کے لیے، اپنی صفوں سے کسی 'رجلِ رشید‘ کو تلاش کرنا ہے؟ انہوں نے فساد اور نفرت کی سیاست کرنی ہے یا شائستہ اختلاف کی؟
پاناما مقدمے کی سماعت تمام ہوئی تو قوم نے سکھ کا سانس لیا۔ میں نے بطور خاص۔ عدالتی سماعت کے بعد ٹی وی سکرین پر اپنی اپنی جماعتوں کی نمائندگی کے لیے جو چہرے نمودار ہوئے اور پھر وہ جس طرح اور جس لہجے میں، عدالتی کارروائی کو من پسند معانی پہناتے رہے، یہ سب کچھ اذیت ناک حد تک ناقابل برداشت تھا۔ میں اگر ٹی وی سکرین سے دور رہتا ہوں تو اس کا بڑا حصہ اسی ترجمانی کا ہے۔ اگر کسی جماعت کا یہ خیال ہے کہ اِس حسنِ کارکردگی سے اس کی سیاسی ساکھ بہتر ہوئی ہے تو اس سے بڑی خود فریبی کوئی نہیں ہو سکتی۔ ہاں، یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعض لوگوں نے اپنی نیک نامی کو، ٹی وی پر چہرہ نمائی کے عوض، بیچ دیا۔
سیاسی جماعتوں کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ اس کے بعد اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کرتیں۔ افسوس کہ اس کا کوئی اہتمام نہیں ہوا۔ عدالت کی طرح ٹی وی سکرین کو بھی اکھاڑا ہی سمجھا جا رہا ہے۔ ہر جماعت ان چہروں کو سامنے لا رہی ہے جن کو چھپانا اس کے حق میں بہتر ہوتا، الا ماشااﷲ۔ میں نے حکمران جماعت کی ایک شخصیت کی توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ عوامی ذوق اسی کا تقاضا کرتا ہے۔ ہم اگر خاموش رہیں یا مخالفین کی زبان میں بات نہ کریں تو ہمارے حامی مایوس ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ''مزا نہیں آیا‘‘۔ اس برہانِ قاطع کے بعد میرے لیے خاموشی ہی مناسب تھی۔
امر واقعہ یہی ہے کہ عمران خان نے اس انتہا پسندانہ سیاست کو فروغ دیا۔ انہوں نے ہمارے سیاسی کلچر پر جو تباہ کن اثرات مرتب کیے، لوگوں کو ابھی پوری طرح اس کا اندازہ نہیں ہے۔ ''میثاقِ جمہوریت‘‘ کے بعد پاکستان کی دو بڑی جماعتوں نے اپنے سابق رویوں سے رجوع کا اعلان کیا۔ یہ ایک مثبت تبدیلی تھی۔ اس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال پورے کیے۔ جمہوری عمل میں تسلسل آیا۔ زبان میں قدرے بہتری آئی۔ انتخابی عمل کے دوران میں اگرچہ سنجیدگی برقرار نہیں رہی‘ لیکن اسے مستثنیٰ سمجھنا چاہیے کہ یہ ہنگامی دور ہوتا ہے‘ اگرچہ مناسب یہی ہے کہ ان دنوں میں بھی سنجیدگی غالب رہے۔
عمران خان نے سیاسی اخلاقیات کا ایک نیا تصور متعارف کرایا۔ نوجوانوں میں ہیجان پیدا کیا۔ اس اسلوبِ سیاست نے ہمیں مراد سعید جیسے کردار دیے۔ عمران خان ان کی پشت پر کھڑے ہو گئے۔ نہ صرف اس طرزِ عمل کو غیرت کا شاہکار قرار دیا، بلکہ یہ مژدہ بھی سنایا کہ وہ ہوتے تو اس سے بھی آگے جاتے۔ لیڈر کا یہ جملہ کیا پیغام دے رہا ہے؟ یہی کہ قانون بے معنی ہے۔ بد اخلاقی کا جواب بد اخلاقی ہی ہو سکتا ہے۔
ن لیگ کی صفِ اوّل کی قیادت نے خود کو اس کلچر سے الگ رکھا؛ تاہم یہ بات قابل قبول نہیں کہ حکمران جماعت کے نمائندے ٹی وی چینلز اور پارلیمنٹ میں جو گفتگو کرتے ہیں، وہ ان کی مرضی کے خلاف ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ ان کو روک دیتے۔ شواہد یہی ہیں کہ ٹی وی چینلز پر جو لوگ گفتگو کرتے ہیں، ان کا انتخاب بھی اعلیٰ ترین سطح پہ ہوتا ہے۔ یوں اس کلچر کو برباد کرنے میں حکمران جماعت بھی پیچھے نہیں رہی۔ جاوید لطیف صاحب نے اپنے الفاظ پر پچھتاوے کا اظہار کیا۔ یہ اچھا ہے مگر کافی نہیں۔ پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اس پر اپنا ردِ عمل دینا ہو گا۔
یہ انتہا پسندی اب نفرت میں ڈھل چکی۔ ظلم یہ ہے کہ اسے اب پختون پنجابی جھگڑا بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس کا آغاز بھی تحریک انصاف نے کیا۔ جب سے پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کا آغاز ہوا ہے، اس مہم میں تیزی آ گئی ہے۔ پرویز خٹک صاحب نے آخری احتجاج میں اسے یہی رنگ دیا‘ جب انہیں اسلام آباد پر چڑھائی سے روکا گیا۔ اب وہ پھر مسلسل اسے موضوع بنائے ہوئے ہیں، اور ان کے ساتھ تحریک انصاف کے دوسرے لوگ بھی ہم آواز ہیں۔ نفرت کی اس سیاست کا عالم یہ ہے کہ پی ٹی آئی اب قوم پرستوں سے زیادہ بلند آہنگ ہے۔ تحریک انصاف ایک قومی جماعت ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ نفرت کی یہ سیاست اسے صوبے کی جماعت بنا دے گی۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ قوم پرست جماعت کو ہماری قومیتوں نے ہمیشہ مسترد کیا۔ یہ پختون ہو یا پنجابی، سندھی ہو یا بلوچی، اسے اپنی پاکستانی شناخت عزیز تر ہے۔
نفرت کی یہ سیاست اگر صوبائیت کے زہر سے آلودہ کی جائے گی تو سب کو نقصان ہو گا۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کو۔ اس رومان کی آڑ میں ہم خطرات مول نہیں لے سکتے کہ پاکستان پر اﷲ کا سایہ ہے۔ دنیا کے معاملات اﷲ کی سنت کے تابع ہیں۔ اس کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے۔ یہ بات ہمیں اسی وقت سمجھ لینی چاہیے تھی جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا۔ اگر ہم صوبوں میں نفرت کے بیج بوئیں گے تو قومی وحدت کے گلاب نہیں کھل سکتے۔
سیاسی جماعتوں کو یہاں رک کر سوچنا ہو گا اور سب سے بڑھ کر عمران خان کو۔ وہ اس وقت ہیجانی کیفیت میں ہیں اور یہی کیفیت ان کے حامیوں میں بھی سرایت کیے ہوئے ہے۔ اگر کل پاناما مقدمے کا فیصلہ ان کے خلاف آ گیا تو مجھے اندیشہ ہے کہ ان کا یہ ہیجان مزید گل کھلائے گا۔ انہیں رک کر سوچنا ہے کہ وہ نفرت اور تعصب میں کہاں تک جا سکتے ہیں؟ تحریک انصاف اگر ایک سیاسی جماعت ہے تو انہیں اسی تناظر میں حکمت عملی بنانا ہو گی۔ الیکشن کا موسم زیادہ دور نہیں۔ انہیں اس کے لیے تیاری کرنی چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کا
عمل مثبت انداز میں آگے بڑھ رہا ہے۔ وہ اس پہ توجہ مرکوز کریں کہ آئندہ انتخابات ممکن حد تک شفاف ہوں اور معاملات کو عوام پر چھوڑ دیں۔ اس وقت تک وہ عوامی رائے سازی پہ محنت کریں۔ حکمران جماعت کو بھی سوچنا ہے کہ اس نے رد عمل میں بہنا ہے یا سیاست میں ٹھہراؤ پیدا کرنا ہے۔ جاوید لطیف کے معاملے میں اسے کوئی بڑا قدم اٹھانا ہو گا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ میڈیا میں اپنے ترجمانوں کو تبدیل کرے۔ شائستگی اور سنجیدگی کو یک طرفہ طور پر شعار بنائے۔ ان کے پاس ایک ایسی ٹیم موجود ہے جو وقار، سنجیدگی اور ابلاغی صلاحیت کے ساتھ اپنا مقدمہ پیش کر سکتی ہے۔ اگر قیادت ان سے یہ مطالبہ نہ کرے کہ وہ مخالف کی زبان میں جواب دیں تو میرا خیال ہے کہ یہ لوگ سیاسی کلچر کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ سعد رفیق صاحب کی معقولیت جس طرح عصری اسلوب میں ڈھلی ہے، مجھے ذاتی طور پر اس کا افسوس ہے۔
ہمارے سیاسی کلچر کا مستقبل، سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر سیاسی اخلاقیات کو برباد کر دیا گیا تو کچھ باقی نہیں رہے گا۔ سیاسی انتہا پسندی، مذہبی انتہا پسندی سے کسی طرح کم خطرناک نہیں۔ دونوں معاشرتی اقدار کے لیے زہر قاتل ہیں۔ دونوں ریاست کو برباد کر دیتی ہیں۔
ہمارے سیاسی کلچر کا مستقبل، سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اگر سیاسی اخلاقیات کو برباد کر دیا گیا تو کچھ باقی نہیں رہے گا۔ سیاسی انتہا پسندی، مذہبی انتہا پسندی سے کسی طرح کم خطرناک نہیں۔ دونوں معاشرتی اقدار کے لیے زہر قاتل ہیں۔ دونوں ریاست کو برباد کر دیتی ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved