تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     11-03-2017

متفرقات

شکریہ جنابِ جسٹس شوکت صدیقی:
پاکستان کی تاریخ میں آپ عدالتِ عالیہ کے پہلے جج ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہزاروں میں ایک ہیں،جنہوں نے توہینِ رسالت کے مجرموں کا نوٹس لیا ، حکومتِ پاکستان کی سوئی ہوئی وزارتِ داخلہ کوجگایا اوراُسے اُس کا وہ فرض یاد دلایا ،جو دستورِ پاکستان اور پاکستان کا ضابطۂ فوجداری اُس پر عائد کرتا ہے۔لیکن اُسے خود اس کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور تاحال اِن بدطینت مجرموں کو تلاش بھی نہیں کیا گیا ۔ جنابِ جسٹس شوکت صدیقی !ہم آپ کے اس اِقدام اور جرأتِ ایمانی پر آپ کو سلام کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ نے طاقتور لوگوں کی اس کچھار میں ہاتھ ڈالا ہے،تو اِسے انجام تک پہنچا کر دَم لیں تاکہ آئندہ کسی ابلیسی فطرت کے حامل شخص کو ایسی ناپاک جسارت کی ہمت نہ ہو اور آپ کا یہ اِقدام اُن سب کے لیے ایک مثال اور درسِ عبرت ثابت ہو۔اگر آپ نے اس مقدس مشن کو ناتمام چھوڑ دیا ،تو قوم کے دل ودماغ میں ناموسِ رسالت مآب ﷺ کے تحفظ کے حوالے سے جو شمع فروزاں ہوئی ہے ،اُس پر یاس کے بادل چھائیں گے اور انتہائی دکھ ہوگا۔پس آگے بڑھتے ہوئے اس قدم کو ہرگز نہ روکیں اور منزل پرپہنچ کر دَم لیں تاکہ آپ تاجدارِ کائنات ﷺ کے حضور سرخرو ہوسکیں۔
رَدُّ الْفَسَاد:
ہمارے وطنِ عزیز میں دہشت گردی کے سَدِّباب کے لیے آپریشن ''رَدُّالْفَسَاد‘‘جاری ہے ۔رَدّ کے معنی ہیں:'' کوئی چیز ہمیں قبول نہیں ہے ‘‘۔حصولِ مقصد سے غرض ہونی چاہیے ،الفاظ سے فرق نہیں پڑتا ،لیکن قرآنِ کریم کی اصطلاح ''دَفْعُ الْفَسَاد‘‘ ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(1)''اور اگر اللہ بعض (مفسدین )کو بعض (مصلحین) کے ذریعے دفع نہ فرماتا ،تو زمین میں ضرور فساد برپا ہوجاتا ،لیکن اللہ تمام جہانوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے ، (البقرہ:251)‘‘ ۔ (2)''اور اگر اللہ بعض لوگوں (کے فساد) کو بعض (مصلحین)کے ذریعے دفع نہ فرماتا ،تو راہبوں کی خانقاہیں ، (مسیحیوں کے )کلیسا ،(یہودیوں کی)عبادت گاہیں اور مساجد، جن میں کثرت سے اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے ،ضرورمُنہدم کردی جاتیں اور جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے ،اللہ ضرور اُس کی مدد فرماتا ہے ، بے شک اللہ قوت والا بہت غلبے والا ہے،(الحج:40)‘‘۔ 
ہم نے اپنے کالم ''دامِ ہمرنگِ زمیں‘‘ میں عرض کیا تھا کہ اس مہم کی کامیابی کا راز اندھا دھند کریک ڈائون میں نہیں ہے ، اس کے لیے حکمت وتدبُّر اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مؤثر بنانے کی ضرورت ہے ،جس طرح امریکی ڈرون اٹیک کے لیے کرتے ہیں ، ورنہ بیک فائر ہوجاتا ہے اور نفرتیں جنم لیتی ہیں ۔پس اس مہم کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ہَدَفی آپریشن کی ضرورت ہے ۔ مگر چونکہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہمیشہ آتش بداماں رہتا ہے ، وہ ہرایکشن کو سپر سانک رفتار سے دیکھنا چاہتا ہے تاکہ رونقِ محفل سجی رہے ، غالب نے کہا ہے:
ہر چند ہو مُشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
لیکن جیساکہ اندیشہ تھا وہی ہوا اور آخرِ کار آئی ایس پی آر اور پنجاب حکومت کو ایک سے زائد باروضاحتیں کرنی پڑیں ، کیونکہ قوم پرست اور بعض مذہبی جماعتوںنے پنجاب حکومت پر چڑھائی کردی ۔افغانستان کے ساتھ غیر روایتی سرحدی روٹ کی بندش تو قابلِ فہم ہے ،لیکن جو دو روایتی روٹس چمن اورطورخم کے بارے میں حکمت وتدبُّر کے ساتھ اور غیر جذباتی ماحول میں تجزیہ کر کے پالیسی بنائی جائے ، کیونکہ افغانستان کی معیشت کا انحصار ہمیشہ پاکستان پر رہا ہے، دونوں طرف کے تاجروں کا مفاد بھی اِسی میں ہے اور آخرِ کار ہمیں اس طرف آنا پڑے گا۔ جب ہم اپنے اوپر اُن کاانحصار ختم کردیں گے تو دوسرے متبادل امکانات افغانیوں کو مزید ہندوستان کی طرف دھکیل دیں گے، کیونکہ اُن کے پاس ایران کے راستے کا ایک متبادل آپشن موجود ہے ،خواہ پاکستان کے مقابلے میں وہ کئی گنا زیادہ گراں ثابت ہو،لیکن ''مرتا کیا نہ کرتا‘‘ کے مصداق جینے کے لیے کوئی نہ کوئی تدبیر اختیار کرنی پڑتی ہے۔
ہماری یہ رائے مقبولِ عام نہیں ہے ،پاپولر تو یہ ہے کہ مارو،چڑھ دوڑو ،تہس نہس کردو، مگر اُس کے بعد پھر کسی حل کی طرف آنا پڑے گا۔ہمارا میڈیا شکایت کرتا تھا کہ اسلام اور کفر کے فتوے جاری کرنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں ہے ،لیکن اب حبّ الوطنی اور وطن دشمنی کے سرٹیفکیٹ ہمارا میڈیا روز سرِ شام جاری کرتا ہے ۔کور کمانڈر کانفرنس نے طے کیا ہے کہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگائی جائے تاکہ غیر قانونی دراندازی کے مواقع ختم ہوں اور ہماری سکیورٹی کے ادارے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دو روایتی گزرگاہوں پر گہری نظر رکھ سکیں اور ہر آنے جانے والے کا ریکارڈ محفوظ ہو،اُصولی طور پر اس باڑ پر افغانستان کو بھی اعتراض نہیں ہونا چاہیے ۔
جنابِ زرداری کی سیاست میں فعالیت :
فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے کے بعد اُن کی توسیع کا مرحلہ درپیش ہے۔ جنابِ آصف علی زرداری نے موقع غنیمت جانا اور اپنی سیاسی سودا کاری کی پوزیشن کو بہتر بنانے کے لیے حکمراں جماعت کو نکال کرکُل جماعتی کانفرنس بلالی، لیکن اُن کا یہ حربہ پی ٹی آئی نے ناکام بنادیا۔جنابِ زرداری کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ مسلم لیگ ن کی بعض حریف جماعتیں ، جیسے مسلم لیگ ق ، پاکستان عوامی تحریک، عوامی مسلم لیگ اور جماعت اسلامی وغیرہ مسلم لیگ ن کے خلاف تواُن کی حلیف بن سکتی ہیں ،لیکن فوج کے خلاف نہیں جاسکتیں ، یہ اُن کی تاریخ ہے ۔مولانا فضل الرحمن اپنے پَتّے ہمیشہ نہایت دانشمندی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور کبھی بھی اُس انتہا تک نہیں جاتے کہ واپسی کا راستہ مسدود ہوجائے ۔چنانچہ آخرِ کارپی پی سمیت تمام جماعتوں نے فوجی عدالتوں کے حق میں دو سال کی توسیع پر اتفاق کر لیا ہے، کیونکہ تمام تر ناراضی کے باوجود فوج اور رینجرز کے بغیر حالات کو قابو میں رکھنا سیاسی حکومتوں کے بس میں نہیں ہے ۔ جنابِ اسحاق ڈار کا بیان نظر سے گزرا کہ متفقہ بِل پر ترامیم پیش کرنا پارلیمانی جماعتوں کا جمہوری حق ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اصولی طور پر اتفاقِ رائے کرلیا ہے، مگر وہ اپنی فیس سیونگ کے لیے چند ترامیم پیش کردے گی،جن کارد ہونا یقینی ہے۔ جنابِ آصف علی زرداری کا اصل مسئلہ سب کو معلوم ہے ، انہیں وزیرِ اعظم جنابِ نواز شریف سے گِلہ ہے ، لیکن وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے لیے اُن کی خواہشات کو پورا کرنا آسان نہیں ہے ۔ وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کردارایک پہیلی ہے کہ بعض امور میں اُن کی پالیسی وزیرِ اعظم کے متوازی کیوں محسوس ہوتی ہے ،جب کہ اُن کی وزیرِ اعلیٰ جنابِ شہباز شریف سے قربت کی علامات وقتاً فوقتاً نظر آتی ہیں ۔
جنابِ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن فاٹا کے مسئلے پر بھی سیاست کرنا چاہتے ہیں ،لیکن دونوں کی ترجیحات جدا ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ افغانستان کے ساتھ موجودہ تنائو کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر فاٹاکے بارے میںسیاسی حکومت کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرسکتی اور ابھی پاک افغان تعلقات میں فوری پیش رفت یا بریک تھروکے آثار نہیں ہیں، مستقبل کے پردے میں کیا مستور ہے ، یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔اسی لیے حکومت نے فاٹا کے پختونخوا میں ادغام کے لیے پانچ سال کی مدت رکھی ہے اور اُس میں رابطۂ کار وزیرِ اعلیٰ کی بجائے گورنر کو بنایاہے تاکہ دفاعی اداروں کے ساتھ مطابقت چلتی رہے اورکوئی بدگمانی پیدا نہ ہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved