بھارت کے مسلمان بہت ''ظالم‘‘ ہیں۔ اُنہوں نے جانے انجانے خدا جانے کتنے ہی انتہا پسند ہندوؤں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ ایسے متعصب اور انتہا پسند ہندو رہنماؤں کی کمی نہیں جنہیں مسلمان ایک آنکھ نہیں بھاتے مگر بھارتی مسلمانوں کی ''اولو العزمی‘‘ دیکھیے کہ پھر بھی جیے جارہے ہیں، اُن بے چاروں کے سینے پر مونگ دَلنے سے باز نہیں آرہے!
بھارتی مسلمانوں کے ہاتھوں جن انتہا پسند ہندو رہنماؤں کا ناک میں دم ہے اُن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے سرکردہ عہدیدار اور پارلیمنٹ کے رکن ساکشی مہا راج بھی شامل ہیں۔ ساکشی مہا راج کو قدرت نے وہ کمال عطا کیا ہے کہ دل و دماغ پر قابو رکھنے کے معاملے میں نِرے کورے واقع ہوئے ہیں! جو دل میں ہوتا ہے وہ اُن کی زبان پر آ جاتا ہے اور غضب ڈھا جاتا ہے۔ اور یہ کمال بھی اُنہی کا ہے کہ جب بھی بولتے ہیں، انٹ شنٹ بولتے ہیں! ع
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا!
ساکشی مہا راج نے شاید سوگند اٹھا رکھی ہے کہ مسلمانوں کے نام کو رو رو کر اپنی جان ہلکان کرتے رہیں گے اور ہمیں ہنسا ہنساکر مار ڈالیں گے۔ سوچے سمجھے بغیر بولنے کی شاندار اور فقید المثال ''مہارت‘‘ کو بروئے کار لاتے ہوئے آئے دن مسلمانوں کے بارے میں کوئی نہ کوئی بے ڈھنگی بات کہہ کر وہ خبروں میں رہتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف بولتے وقت ساکشی مہا راج کا انداز کچھ ایسا ہوتا ہے جیسے مُردہ کفن پھاڑ کر بولے۔ ہاں البتہ اب کے اُنہوں نے کچھ ایسا کہا ہے جس سے مُردے کے لیے کفن پھاڑ کر بولنے کی گنجائش کا باقی نہ رہنا مقصود ہے۔
بھگوان کو ساکشی مان کر ساکشی مہا راج نے بیان داغا ہے کہ بھارت میں قبرستان ختم کردیئے جائیں۔ لو، کرلو بات۔ زندہ مسلمان تو پریشانی کا باعث تھے ہی، اب مُردہ مسلمان بھی اُنہیں پریشان کیے دیتے ہیں! قبر کسی کا کیا بگاڑتی ہے مگر ساکشی مہا راج اُسے بھی دفنانے پر تُل گئے ہیں! اُن کا استدلال ہے کہ قبرستانوں کے لیے بڑے قطعاتِ اراضی مختص کیے جاتے رہے تو لوگوں کے لیے رہنے کی جگہ بھی باقی نہ رہے گی!
بھارت میں اپنے مُردے صرف مسلمان نہیں دفناتے، عیسائی اور یہودی بھی اِسی صف میں ہیں۔ ساکشی مہا راج نے ایک تیر چلاکر تین نشانے لگائے ہیں۔ گویا ع
تینوں کو اِک ادا میں رضامند کرگئے!
ساکشی مہا راج کہتے ہیں کہ ہندوؤں کی طرح مسلمانوں کو بھی اپنے مُردے جلا دینے چاہئیں۔ سیدھی سی بات ہے کہ نام لیے بغیر اُنہوں نے عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی یہی مشورہ دیا ہے۔ اب مشکل یہ ہے کہ میڈیا کی دکان پر پیش کیا جانے والا یہ نیا منجن خریدنے کے لیے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں میں سے کوئی بھی تیار نہیں۔
مسلمانوں کے معاملے میں ساکشی مہا راج کے ذہن کا ہاضمہ ہمیشہ خراب رہا ہے۔ وہ اپنی باتوں کو ہاضمے کے چُورن کی حیثیت سے استعمال کرتے ہیں۔ جو کچرا ذہن میں جمع ہوتا رہا ہے وہ آئے دن منہ کے ذریعے نکال کر میڈیا والوں کو خوش کرتے رہتے ہیں۔ ساکشی مہا راج کے ایک متنازع بیان سے میڈیا کی دال روٹی کئی دن تک چلتی رہتی ہے۔
ساکشی مہا راج نے ڈھائی تین ماہ قبل ہندو دھرم کو لاحق ایک بڑے ''سنکٹ‘‘ کا ایسا حل تجویز کیا تھا کہ لوگ انگشت بہ دنداں رہ گئے تھے۔ بھارت میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی سے انتہا پسند ہندو رہنما پریشان رہتے ہیں۔ اس مسئلے کا کوئی ''عملی‘‘ حل تلاش کرنے کے بجائے وہ محض روتے رہتے ہیں۔ ساکشی مہاراج نے ہندو دھرم کو لاحق بحران کا ایسا حل تجویز کیا جو ہندو خواتین کے لیے بحران سے کم نہ تھا۔ اُنہوں نے مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کا توڑ یہ پیش کیا کہ ہر ہندو گھرانہ آٹھ دس بچے پیدا کرے!
اِسے کہتے ہیں ماروں گھٹنا، پُھوٹے آنکھ! ساکشی مہا راج نے ایک بحران کی کوکھ اجاڑنے کے لیے کوکھ ہی کو خطرے میں ڈال دیا۔ بھارت میں ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں، معاندانہ جذبات ہر دور میں پروان چڑھتے رہے ہیں۔ مگر یہ عجیب دور ہے کہ ہر طرف صرف تعصب آمیز جہالت ہی دکھائی دے رہی ہے۔ انتہا پسند رہنما عقلِ سلیم کو اپنائیں گے تو کیا خاک، اُسے پہچاننے سے بھی انکار کر رہے ہیں! لعل کشن چند ایڈوانی، اوما دیوی، پروین توگاڈیہ اور ساکشی مہا راج جیسے غیر متوازن ذہن کے لوگ ہر وقت کچھ نہ کچھ ایسا کہنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں جس سے معاشرے میں صرف بگاڑ پھیلے، خرابی عام ہو۔ میڈیا والوں سے گفتگو کے دوران یہ کہیں نہ کہیں سے مسلمانوں کا کوئی معاملہ گھسیٹ کر اپنی باتوں میں شامل کر ہی دیتے ہیں۔ ع
ہائے کیا کیجیے اِس دل کے مچل جانے کو!
بڑا بننے کی محض آرزو کرلینے سے کوئی بڑا نہیں بن جاتا۔ سوچ چھوٹی ہو تو دل میں تنگی رہ جاتی ہے، اعلیٰ ظرفی پیدا نہیں ہو پاتی۔ بھارت کے انتہا پسند ہندو رہنما شدتِ جذبات میں مسلمانوں سمیت تمام اقلیتوں کے عقائد کا احترام اور جذبات کا احساس سبھی کچھ بھول بیٹھے ہیں۔ یہ نام نہاد رہنما جو کچھ بھی کہتے ہیں وہ بہت تیزی سے، ہنستے گاتے بِک جاتا ہے۔ کیوں نہ بِکے؟ اِتنی عقل تو اِن رہنماؤں میں ہے کہ منہ عوام کی امنگوں اور توقعات کے مطابق کھولتے ہیں۔ اگر کبھی ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے کچھ کہیں تو لگ پتا جائے!
بھارتی مسلمان آج تک ہندو قیادت کے گلے میں چھچھوندر کی طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ اُگلے چَین نہ نِگلے چَین! اگر تعداد معمولی ہوتی تو کچھ اِدھر نکل جاتے، کچھ اُدھر نکل جاتے۔ اب 22 کروڑ سے زائد مسلمانوں کو جانا بھی کہاں ہے؟ بھارت ماتا کے آغوش میں رہنا ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ انتہا پسندی کے نام پر مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑکانے والے اُنہیں سُکون کا سانس لینے کا موقع نہیں دینا چاہتے۔ معاملہ جان بچانے کی منزل سے آگے جاچکا ہے۔ چند ایک بھارتی مسلمان شاید یہ سوچ کر مطمئن ہو رہتے ہوں کہ سارے جلاپے سانسوں کی آمد و رفت تک ہیں۔ مگر ساکشی مہا راج جیسے لوگ قبرستان بھی ختم کرنے پر تُلے ہیں۔ ایسے میں بھارتی مسلمانوں کی پریشانی مزید بڑھ گئی ہے۔ وہ یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ؎
اب تو گھبراکے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مرکے بھی چَین نہ پایا تو کدھر جائیں گے!