تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     12-03-2017

ہارماننے والا ہی جیتے گا

حالیہ سیاسی تنازعہ مسئلے کے حل کی خاطر نہیںبلکہ باہمی مباحثے میں ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر مشتعل کرنے کی کوششوں کا مقابلہ بن کر رہ گیا ہے۔ حکمران جماعت اس کی ذمہ داری عمران خان پر ڈال رہی ہے۔ جبکہ عمران خان کا کیمپ حکمران جماعت کو اس بے معنی تنازعے کا ذمہ دار قرار دینے پر بضد ہے۔ آج یعنی بروز ہفتہ یہ کشمکش سیاسی بحث کے دائرے سے نکل کر، کردار کشی کے باہمی مقابلے میں بدلنے لگی ہے۔ اس طرح کا مقابلہ کبھی توازن یا اعتدال کی طرف نہیں لے جاتا۔ ایسے مباحثے میںکامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ فتح اس کی ہوتی ہے، جو شکست تسلیم کر لے۔ ''ہم سب‘‘ کا اداریہ پیش خدمت کر رہا ہوں۔دونوں کے حق میں اعتدال اور توازن کی دعا کرنا ہی مناسب لگتا ہے۔
''قومی اسمبلی میں ایک بار پھر ناخوشگوار مناظر دیکھنے میں آئے جب تحریک انصاف کے رکن مراد سعید نے غصے سے بے قابو ہو کر مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی جاوید لطیف پر حملہ کر دیا اور ان کو گھونسا مارا۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی میں بحث کے دوران جاوید لطیف نے عمران خان کی طرف سے پی ایس ایل فائنل میں شرکت کیلئے پاکستان آنے والے غیر ملکی کھلاڑیوں کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرنے پر انہیں غدار قرار دیا تھا۔ مراد سعید نے جب اس پر اعتراض کیا تو انہیں جواب دیا گیا کہ انہیں تو کسی نے غدار نہیں کہا بلکہ یہ الفاظ تحریک انصاف کے چیئرمین کے بارے میں استعمال کئے گئے ہیں۔ اس پر مراد سعید نے اس وقت جاوید لطیف پر حملہ کر دیا جب وہ اسمبلی سے باہر جا رہے تھے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اس واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیج طلب کی ہے اور سکیورٹی اسٹاف کو حکم دیا ہے کہ یہ فوٹیج کسی نشریاتی ادارے کو فراہم نہ کی جائے۔ اب اسپیکر اس صورتحال میں قصور وار ایم این اے کا تعین کرکے اسے تنبیہ کا فریضہ ادا کریں گے۔ ملک میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ماحول بہت پرانا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اور وزیراعظم میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے لندن میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کے تحت 90 کی دہائی کی الزام تراشی کی سیاست ترک کرنے اور قومی بہتری کیلئے مل جل کر کام کرنے کا عہد کیا تھا لیکن اب ان اصولوں کو فراموش کیا جا رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے جلسے جلوسوں میں مخالفین کیلئے انتہائی نامناسب اور غیر شائستہ الفاظ استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ اس رویہ کا ترکی بہ ترکی جواب دینے کے لئے وزیراعظم کے کئی ساتھی ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف مہم جوئی کے بعد جب پاناما لیکس میں شریف خاندان کا نام آیا تو عمران خان نے نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ لیکن یہ احتجاج صرف اس مطالبہ تک محدود نہیں رہا۔ فریقین اگرچہ عدالتی کمیشن کے ذریعے اس معاملہ کی تحقیقات کروانے پر متفق ہو گئے تھے لیکن حکومت اس کمیشن کے طریقہ کار اور اختیارات کے بارے میں تاخیری حربے استعمال کرتی رہی تھی۔ وہ کمیشن کے دائرہ کار کو پاناما لیکس تک محدود رکھنے کی بجائے اسے ملک میں ہر قسم کی کرپشن کی تحقیقات کرنے کا اختیار دینا چاہتی تھی۔ جبکہ تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں کمیشن کو صرف نواز شریف اور ان کے خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کا اختیار دینا چاہتی تھیں۔ اس کے علاوہ عمران خان یہ سمجھ رہے تھے کہ وہ اس سوال پر عوامی تحریک کے ذریعے حکومت پر دباؤ میں اضافہ کرکے اسے مڈٹرم انتخابات پر مجبور کر سکتے ہیں یا کم از کم نواز شریف کے خلاف الزامات کے بیان سے ایسا ماحول پیدا کر سکتے ہیں کہ انہیں اپنے عہدہ سے استعفیٰ دینا پڑے۔ اس طرح وہ مسلم لیگ (ن) کی سیاسی قوت کا خاتمہ کرنے کے خواہشمند تھے۔
نواز شریف نے تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں اور ان کے خاندان کے مالی معاملات کے بارے میں سارے دستاویزی ثبوت فراہم ہیں جو کسی بھی مناسب فورم پر پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کی طرف سے ٹی او آرز بنانے سے انکار اور عمران خان کی طرف سے نواز شریف کے استعفیٰ پر اصرار سے ملک میں سیاسی انتشار میں اضافہ ہوتا رہا اور باہمی احترام اور افہام و تفہیم کے تمام راستے بھی بند ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے طرف سے اس معاملہ پر غور کا فیصلہ ہونے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ اب فریقین سیاسی الزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے عدالت میں قانونی جنگ لڑنے اور جیتنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن یہ توقعات نقش بر آب ثابت ہوئیں۔ سپریم کورٹ میں تین ساڑھے تین ماہ تک اس حوالے سے ہونے والی سماعت کے دوران فریقین ثبوتوں و شواہد پیش کرنے کی بجائے عدالت کے اندر اور باہر سیاسی بیان جاری کرتے رہے ہیں۔ پانچ رکنی بنچ کے ارکان بار بار دونوں طرف کے وکیلوں کو یہ بتاتے رہے ہیں کہ عدالت ٹھوس شواہد کی بنیاد پر ہی فیصلہ جاری کر سکتی ہے، اس لئے اس کے سامنے ایسے ثبوت پیش کئے جائیں جو قابل اعتبار ہوں۔
نواز شریف کے علاوہ عمران خان بھی اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے کوئی واضح دستاویزی شواہد فراہم نہیں کر سکے۔ نواز شریف نے اگرچہ دعویٰ کیا تھا کہ ان کے بچوں کے مالی معاملات کے ثبوت موجود ہیں لیکن مقدمہ کی سماعت کے دوران نواز شریف کے بچے یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ وسائل دوبئی سے قطر اور سعودی عرب اور وہاں سے برطانیہ کیسے پہنچے؟ دونوں فریقوں کیلئے اس معاملہ کی حیثیت صرف سیاسی ہے لیکن وہ عدالتی فیصلہ کو اپنے سیاسی موقف کی تائید میں استعمال کرنے کے خواہشمند ہیں۔ اسی لئے عمران خان یہ قرار دیتے ہیں کہ پاناما پیپرز میں نواز شریف کے بچوں کے ذکر سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ وہ بدعنوان ہیں اور انہوں نے ملک میں اپنے سابقہ دور اقتدار میں قومی وسائل چوری کئے تھے اور منی لانڈرنگ کے ذریعے روپیہ بیرون ملک روانہ کیا تھا۔ نواز شریف کے بیٹوں حسن و حسین نواز نے اس کے جواب میں قطر کے شہزادہ حمد بن جاسم الثانی کے خطوط پیش کئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان خطوط سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ انہوں نے لندن کے فلیٹ اپنے دادا سے ملنے والے ترکہ سے حاصل کئے تھے۔
عدالت کیلئے ان متضاد بیانات میں سے سچائی تلاش کرنا اہم ہوگا۔ اسی لئے اس اہم مقدمہ پر فیصلہ محفوظ رکھا گیا ہے۔ اس دوران دونوں طرف سے اپنی فتح کے اعلانات تو کئے جا رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اندیشہ بھی موجود ہے کہ سپریم کورٹ کوئی ایسا فیصلہ دے سکتی ہے جس سے ایک یا دونوں پارٹیوں کی سیاسی پوزیشن کو زک پہنچے۔ اس ہیجانی کیفیت میں صبر کرنے اور فیصلہ کا انتظار کرنے کی بجائے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کروانے کے بے ضرر اور قومی لحاظ سے متفقہ فیصلہ پر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے پہلے اسے ''پاگل پن‘‘ سے تعبیر کیا اور یہ میچ خیر و عافیت سے منعقد ہونے کے بعد اس کی تحسین کرنے کی بجائے غیر ملکی کھلاڑیوں کا ٹھٹھا اڑا کر حکومت کو نیچا دکھانے اور خود کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) نے فراخدلانہ خاموشی اختیار کرنے کی بجائے عمران خان پر تند و تیز تنقید کا آغاز کر دیا۔ اسی افسوسناک سیاسی چپقلش کے نتیجہ میں آج قومی اسمبلی کا افسوسناک واقعہ رونما ہوا ہے۔
اس میں دو بنیادی معاملات قابل غور ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رکن اسمبلی نے عمران خان کو غدار کہا اور اعتراض کرنے پر الفاظ واپس لینے کی بجائے اپنی بات پر اصرار کیا۔ اس ملک میں غدار اور ملک دشمن قرار دینے کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔ ماضی میں اس قسم کے الزامات سے کوئی فائدہ تو حاصل نہیں ہوا البتہ سقوط مشرقی پاکستان جیسا المناک سانحہ ضرور رونما ہوا تھا۔ سیاستدان سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کرتے رہے اور اس طرح عوام کو مختلف رہنماؤں کے بارے میں بدگمان کیا جاتا رہا۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس ملک کے سیاستدان اب تک اتنے بالغ لنظر نہیں ہوئے کہ وہ کسی معاملہ پراختیار کردہ موقف اور ایک فرد کو علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھ سکیں۔ سیاسی اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی کا درجہ دے دیا گیا ہے لیکن یہ رجحان اس ملک کے عوام کو سیاست ، سیاستدان اور جمہوریت کے بارے میں شدید مایوس کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ جو سیاستدان منتخب ہو کر حکومت کرنے کا خواب دیکھتے ہیں، انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ ان کا یہ طرز عمل اس شاخ کیلئے ہی نقصان دہ ہے جس پر جمہوریت کا آشیانہ بنایا جائے گا۔ اسی طرح عوام کے منتخب نمائندے اگر اسمبلی میں دلیل کے زور پر بات منوانے کی بجائے ہاتھا پائی پر اتر آئیں گے اور تند و تلخ جملوں کے جواب میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑیں گے تو یہ انہیں ووٹ دینے والوں کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف ہوگا۔
اس میں شک نہیں ہونا اہئے کہ عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے اسمبلی کے اندر اور باہر وزیراعظم کو ''چور‘‘ کہہ کر اور یہ دلیل دے کر کہ چور کو چور ہی کہا جائے گا ملکی سیاست میں ایک بری روایت کا آغاز کیا ہے۔ ملک کی کسی عدالت نے ابھی تک نواز شریف یا ان کے خاندان کے خلاف بدعنوانی یا چوری کا کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے۔ اس لئے اپنی خواہش اور سیاسی ضرورت کی بنیاد پر ملک کے وزیراعظم کے بارے میں ناشائستہ رویہ ناجائز اور ناقابل قبول ہے۔ تاہم حکمران جماعت بھی اس کا جواب دینے کیلئے حب الوطنی اور غداری کے سرٹیفکیٹ نہیں بانٹ سکتی۔ ان حالات میں دونوں پارٹیوں کے لیڈروں کو اپنے ارکان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ایوان میں غیر پارلیمانی زبان استعمال کرنے اور رویہ اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved