جج صاحب جشن منائیں! اس لیے کہ محبان رسولؐ کی فہرست میں ان کا نام لکھا گیا!
ایمان ایک قلبی واردات بھی ہے جس نے اس کا ذائقہ نہیں چکّھا‘ وہ کبھی نہیں جان سکتا کہ کن کیفیات سے وہ دوچار کرتا ہے۔ انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی تو بات ہی دوسری ہے‘ زندوں کی حکایات سنئے تو حیرت ہوتی ہے کہ حُب رسولؐ نے ادراک کے کیسے کیسے چراغ ان میں روشن کئے۔ اسداللہ خان غالب نے نعت کا قصد کیا تو عالمِ حیرت میں رہا۔ کہا تو یہ کہا: ؎
غالب ثنائے خواجہ بہ یزدان گزاشِتم
آں ذات پاک مرتبہ دانِ محمدؐ است
آپؐ کی مدح میں نے پروردگار کے سامنے کی۔ وہی ایک ذات ہے جو رحمتہ للعالمین کے مقام و مرتبے سے آشنا ہے۔ چودہ سو سال بیت چکے کہ مدحت کا سلسلہ جاری ہے ۔ کچھ حق اگر ادا کیا تو اقبال ایسے چند لوگوں نے‘ فرمایا: ؎
خیمہ افلاک کا ایستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
اور یہ کہا : ؎
وہ دانائے سبل ختم الُرسل مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیٔ سینا
اقبال کی معجز نگاری پر کسی نے تعجب کا اظہار کیا تو ارشاد کیا: ایک کروڑ بار درود پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ علو مرتبت کا اگر کوئی آرزو مند ہے تو یہی کارگر قرینہ ہے۔
اختر شیرانی کا واقعہ معروف ہے سرشار اور سرمست تھے ۔اُن دنوںیوں بھی مقبولیت کی معراج پر تھے۔ ایسے میں بعض اوقات واہی تباہی پر آمادہ ہو جاتے۔ رفتگاں کا مذاق اڑاتے۔ موقعہ پا کر کسی نے اکابر کا تذکرہ شروع کیا۔ ایک ایک کو روندتے گزرتے گئے ۔ معاً بدبخت نے سرکارؐ کا نام لیا۔ ہڑبڑا کر محمود شیرانی کا فرزند جاگ اٹھا۔ بلّور کا گلاس اٹھا کر اس کے سر پہ دے مارا ۔ بدبخت ‘ ایک عامی سے سوال کرتا ہے۔ ایک روسیاہ سے پوچھتا ہے ایک فاسق سے توکیا کہلوانا چاہتا ہے۔ تمام بدن کانپ رہا تھا اچانک رونا شروع کر دیا حتیٰ کہ ہچکی بندھ گئی۔
47برس ہوتے ہیں روزنامہ کوہستان کے جنرل منیجرنے جگر مراد آبادی کا واقعہ سنایا۔ عینی شاہد تھے اپنے عصر کا عظیم شاعر علی گڑھ یونیورسٹی میں مدعو کیا گیا۔ غزلوں کی بیاض کے ساتھ وہ نمودار ہوئے اور چہکتے رہے ۔ ایک طالب علم کو معلوم نہیں کیا سوجھی کہ نعت کی فرمائش کی۔ رند کیسے ہی بے پناہ رہے ہوں‘ جیسا کہ رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے‘ جگر شائستہ بہت تھے‘ انہوں نے ٹال دیا۔ طالب علم مگر کہاں ٹلتے۔ پورا مجمع ہم آواز ہو گیا۔
شاعر پریشان اور بوکھلایا ہوا۔ کوئی چارہ نہ رہا تو ٹوپی طلب کی سر ڈھانپا اور مصرع پڑھا۔ ع
اک رند قدح خوار اور مدحت سرکارِ مدینہؐ؟
آواز گلو گیر ہوئی ۔ نڈھال سے ہو گئے دوسرے مصرعے کی تاب ہی نہ رہی۔ یہی ایک دہراتے رہے‘ حتیٰ کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ع
اک رند قدح خوار اور مدحت سرکارِ مدینہؐ ؟
مجمع چھٹنے لگا۔ ایک ایک کر کے سب رخصت ہوئے۔ شاعر وہیں بیٹھا‘ وہی مصرع الاپتا اور ماتم کرتا رہا۔ ع
اک رند قدح خوار اور مدحت سرکار مدینہ؟
ختم المرسلین سے‘ مسلمان کی محبت کو ایک جذباتی رویہ گردانا جاتا ہے۔ حقیقت ذرا مختلف ہے اس میں تو قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ لامحدود محبت اور عقیدت کا اگر کوئی مستحق ہے تو آپؐ کی ذات گرامی ۔یہ وارفتگی مگر ایک منطقی بنیاد رکھتی ہے۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ سے آپؐ نے پوچھا عمر مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہؐ اپنی جان کے بعد ہر چیز سے زیادہ ۔ فرمایا: ایمان مکمل نہیں ہو سکتا‘ جب تک اپنی جان و مال ‘ اولاد سے بڑھ کر‘ پیغمبر آخر الزماںؐ سے الفت نہ ہو (مفہوم) فرمایا۔ یا رسول اللہ ‘ گواہ رہیے‘ آج کے بعد‘ ہر چیز سے بڑھ کر آپ سے محبت رہے گی۔
رسول اکرمؐ سے مسلمان کا تعلق ایمان کی دو بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ ایک آدھ مقام پر نہیں‘ بار بار قرآن کریم یہ کہتا ہے : اطیعو اللہ و اطیعو الرسول ۔ اللہ کی اطاعت کرو اور اللہ کے رسولؐ کی۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا گیا رسول اکرمؐ کے اخلاق کیسے تھے؟ فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟
اقبال نے کہا تھا: ؎
مقام عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طہٰ
جناب خالد بن ولیدؒ کے مقام بلند کی شہادتوں میں سے ایک شہادت وہ واقعہ جو آپ نے بیان کیا تھا۔ قبول اسلام کے لیے آپ مکّہ سے نکلے تو عمرو ابن العاص سے ملاقات ہوئی ایک اور رفیق سے بھی‘ جن کانام بھولتا ہوں۔ وہ بھی آمادہ تھے کہ قلوب میں ایمان کا نور جاگ اٹھا تھا۔ جیسا کہ عربوں کا دستور تھا مدینہ پہنچ کر مسجد نبوی کے سامنے جا رُکے ۔قاعدہ یہ تھا کہ لباس بدلتے‘ خوشبو لگاتے اور پھر ملاقات کو پہنچتے۔ سیف اللہؓ کہتے ہیں کہ خوشگوار حیرت سے‘ اصحاب رسولؓ ہمیں دیکھ رہے تھے اور خود عالی مرتبتؐ بھی۔ کہا: جب بھی نگاہ پڑتی ‘ میں دیکھتا کہ رسول اکرمؐ میری طرف متوجہ اور متبسم۔
کہا: قبول اسلام کے بعد عمر بھر آپؐ کا دستور یہ رہا کہ کسی بھی اہم مسئلے پر مشورہ مقصود ہوتا تو دوسروں کے ساتھ مجھے بھی طلب کرتے۔ عمر بھر میری کوئی تجویز مسترد نہ فرمائی۔
رومیوں سے معرکہ درپیش تھا صفیں آراستہ نہ ہوئی تھیں۔ جنگ کا ابھی آغاز نہ ہوا تھا کہ دس عدد جانبازوں کے ساتھ چار سو حریفوں کے ایک دستے پر جا پڑے۔ سالار لشکر ابوعبیدہ بن ابی جراح نے طلب کیا اور جسارت پر سرزنش کی عرض کیا: میری ٹوپی گر گئی تھی بازیاب کرنے کے لیے یلغار کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ فقط اپنی ٹوپی کے لیے؟؟ امین الامت نے پوچھا‘ تم نے مسلمانوں کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیں ‘ اس آدمی کے حضور سیف اللہؓ سرکشیدہ اور استوار رہے جن کی سبھی تکریم کیا کرتے۔ عرض کیا: رسول اکرمؐ نے ایک بار بال ترشوائے تو ان میں سے کچھ مجھے عنایت کیے تھے۔ اپنی ٹوپی میں ‘ میں نے سی لیے ۔ ٹوپی گری تو اندیشہ ہوا کہ گھوڑوں کے سموں تلے کچلی جائے گی مشرکین کے گھوڑوں تلے۔ کسی طرح یہ بات طبیعت کو گوارا نہ ہوئی۔ حملہ کرنے کے سوا چارہ نہ رہا۔
مزار مقدس کے بارے میں‘ فارسی کے شاعر نے کہا تھا: ؎
ادب گا ہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید ایں جا
یہ وہ ادب گاہ ہے کہ آسمان تلے ہے مگر عرش سے بھی زیادہ نازک۔ جنید اور بایزید ایسے یہاں گم سم ہو جاتے ہیں۔ سید الطائفہ جنید بغدادؒ اور بایزید بسطامیؒ کا شمار کبار صوفیا اور اہل صحو میں ہوتا ہے۔ مجذوب نہیں تھے ۔ علو علم کے لیے معروف۔ بے اعتدالی کبھی چھو کر نہ گزری تھی۔ باایں ہمہ‘ یہ دربار ہی ایسا ہے کہ سب سمٹ کر محدود ہو جاتے ہیں۔
آخر شب کے سناٹے میں‘ عارف نے ایک بار اچانک اس ناچیز سے کہا: اللہ نے اپنے مقصود کو پا لیا تھا ۔ اب ہم سے وہ کیا چاہتا ہے؟ ہمیں کیوں امتحان میں اس نے ڈال رکھا ہے؟ عرض کیا: اللہ کا مقصود کب پورا ہوا؟ اس کے بندے تو اسے یاد ہی نہیں کرتے‘ چہ جائیکہ اس کی راہ میں یکسو ہو جائیں۔ فرمایا: آپ سمجھے نہیں پروردگار نے یہ چاہا کہ اپنے ارادہ و اختیار کے ساتھ مخلوق اس سے محبت کرے۔ سرکارؐ نے یہ کر دکھایا اور اس طرح کہ آسمانوں پر ان کے لیے تحسین کی صدا بلند ہوئی۔ ''اللہ اور اس کے فرشتے ‘محمدؐ پر درود بھیجتے ہیں‘‘ اس کے بعد کرنے کو کیا باقی بچا؟۔
اس خاتون نے جس کا نام نہ لکھنا چاہیے‘ فیس بک پر اس ناچیز کے بارے میں لکھا ہے‘ ہارون الرشید نے ایک بار پھر غلط بیانی کی کہ میں نے اور دوسروں نے جسٹس شوکت صدیقی کے خلاف مقدمہ قائم کیا ہے ۔ایک دوست نے اس پیغام کی اطلاع ارسال کی ۔ عرض کیا: اس موضوع پر میں نے لکھا اور نہ کچھ کہا۔ آپ میرا حوالہ دے کر تردیدکر سکتے ہیں۔ فوراً ہی پھر دوسرا پیغام بھیجا‘ نہیں‘ نہیں کسی توجہ اور کسی جواب کی وہ مستحق نہیں۔
جسٹس شوکت صدیقی کو میرا سلام پہنچے۔ مقدمہ کیا اور بحث و تمحیص کیا۔ تمام شورو غوغا بے معنی ہے ۔
جج صاحب جشن منائیں! اس لیے کہ محبان رسولؐ کی فہرست میں ان کا نام لکھا گیا !