تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     12-03-2017

نواز شریف کے حق میں

میرے ایک پیارے دوست نے ایک اہم وفاقی وزیر کے حوالے سے مجھے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ رئوف کو وزیراعظم نواز شریف کے حق میں کالم لکھنا چاہیے اور ابھی لکھنا چاہئے اور پاناما پر عدالتی فیصلے سے پہلے۔
میں ایسی فرمائش پر خود حیران ہوا کیونکہ ماشاء اللہ اتنے بڑے بڑے کالم نگاروں اور دانشوروں کی فوج جو بھرتی کی ہوئی ہے اور جنہیں کھل کر عوام کے ٹیکسوں سے مال کھلایا جارہا ہے ، ان کے ہوتے ہوئے مجھ ناچیز کی کیا اوقات۔ کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔ میں کس کھیت کی مولی ہوں جس کے لکھنے سے نواز شریف راتوں رات پاناما کیس سے بری ہوجائیں گے اور پورے جگ میں میری بلے بلے ہوجائے گی اور سب الزامات سے وہ دہل جائیں گے۔ میں نے دوست سے پوچھا اتنے حکومت کے حامی کالم نگاروں کے ہوتے ہوئے وہ اہم وزیر کیوں سمجھتے ہیں کہ میرے لکھنے سے عدالت پراثر پڑے گا اور نواز شریف کو کلین چٹ مل جائے گی۔؟ میں نے کہا لگتا ہے پرانے کالم نگار اور اینکرز ڈیلور نہیں کرپارہے لہٰذا نئی ریکروٹمنٹ کی ضرورت پڑ گئی ہے؟
اس دوست نے عجیب بات بتائی کہ حکومت ایسے حامی لکھاریوں کو خود سنجیدگی سے نہیں لیتی کیونکہ انہیں علم ہے کہ یہ تو اپنے لوگ ہیں انہیں کیا پڑھنا۔ عوام انہیں حکومت کاحامی سمجھ کر پڑھ بھی لیں تو اثر نہیں لیتے۔ دوست نے بتایا کہ ویسے اس کے چند اور دوست وزیروں نے اسے ایک دن واٹس ایپ پر ایسے لکھاریوں کے بھیجے ہوئے کالم دکھائے جو دانشوروں نے انہیں بھیجے تھے کہ سرکار پڑھیں اور داد دیں۔ وہ وزیر ہنس کر بولے تھے کہ اب انہیں کیا پڑھیں۔ جب میں خود نہیں پڑھتا تو اور کون پڑھتا ہوگا۔ بس یہ تسلی ہے کہ وہ ہمارے خلاف نہیں لکھتے اور جو لکھتے ہیں وہ لکھ اور چھپوا کر واٹس ایپ بھی کردیتے ہیں اور داد کے طلب گار ہوتے ہیں۔ میں نے اپنے دوست سے کہا مزے کی بات ہے جو حکومت میرے لکھنے کو سنجیدگی سے نہیں لیتی وہ کیسے سمجھتی ہے کہ اس موقع پر جب پانامہ کا فیصلہ لکھا جارہا ہے، عدالت میرے نواز شریف کے حق میں لکھے کالم کو پڑھ کر انہیں کلین چٹ دے دی گی؟ میں نے کہا جب نواز حکومت نے میرے فائل کیے ہوئے کسی سکینڈل یا ٹی وی شو یا کالم کو اس قابل نہیں سمجھا کہ اس پر کوئی ایکشن لیا جائے تو پھر باقی اداروں کو کیا پڑی ہے کہ مجھے سنجیدہ لیں؟ 
اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے میں نے کہاباقی چھوڑیں اسی نواز شریف حکومت کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری، ان کی بیگم کی این جی او اور طارق فاطمی اور ان کی بیگم کی این جی او کا سکینڈل فائل کیا کہ کیسے انہوں نے سی ڈی اے سے اربوں روپے کا دس کنال کا کمرشل پلاٹ مفت لے کر آگے مفت میں روٹس ملینیم کے مالک فیصل مشتاق کو دے دیا۔ فیصل مشتاق نے پلاٹ لینے سے پہلے اعزاز چوہدری کی بیگم کو این جی او کے لیے تین لاکھ روپے عطیہ دیا۔ یوں ایک طرح سے اربوں روپوں کا پلاٹ صرف تین لاکھ روپے عطیہ کی نذر ہوگیا؟ اس طرح سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کی بیگم این جی او کے لیے پاکستان میں قائم غیرملکی سفارت خانوں سے چندہ اکٹھا کرتی رہی ہیں اور اس میں بھارتی سفارت خانہ سے بھی لیے گئے ڈالرز کا عطیہ بھی شامل ہے۔ اس سکینڈل کو تو نواز شریف نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اور نہ ہی اس پر کوئی ایکشن لیا بلکہ اسی اعزاز چوہدری پر مقدمہ چلا کر جیل بھیجنے کی بجائے اسے امریکہ میں سفیر لگا کر بھیج دیا ہے کہ جو جتنا بڑا ہاتھ دکھائے گا اسے بڑی پوسٹنگ ملے گی۔ جب نواز شریف میرے ایسے کالموں کو سنجیدگی سے نہیں لیتے بلکہ جن پر سکینڈلز فائل ہوتے ہیں تو انہیں مزید نواز کر امریکہ بھیجتے ہیں تو پھر ان کے وزیر کیسے یہ توقع رکھے بیٹھے ہیں کہ میرے ان کے حق میں کالم سے ان کی دنیا بدل جائے گی اور راتوں رات کوئی چمتکار ہوجائے گا؟ 
میں نے شرارت کے انداز میں کہا ویسے اس اہم وزیر نے کوئی پوائنٹ بھی دیے ہوں گے کہ یہ نواز شریف کے حق میں لکھے جائیں توبہت اثر ہوگا؟ دوست بولا اس وزیر کا خیال تھا کہ رئوف کو لکھنا چاہیے کہ ہمیں نواز شریف کی اس وقت سخت ضرورت ہے۔ بینظیر بھٹو کے بعد وہ واحد قومی لیڈر بچ گئے ہیں اور اگر انہیں سزا ہوگئی یا سیاست سے بین ہو گئے تو ملک جو پہلے مشکلات کا شکار ہے‘ مزید مشکلات میں گھر جائے گا۔ میں حیرانی سے دوست کو دیکھتا رہا اور پوچھا واقعی انہوں نے یہ بات کی؟ دوست بولا بالکل۔ 
میں نے کہا جنرل مشرف کی بغاوت کے بعد نواز شریف اور بینظیر بھٹو دونوں ملک میں نہیں تھے۔ ایک دوبئی اور دوسرا جدہ میں تھا تو یہ ملک کیسے چل رہا تھا؟ یا نواز شریف کے سیاست میں آنے سے پہلے کیسے چل رہا تھا؟ جب یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے سزا دے کر برطرف کردیا جن کے خلاف خود نواز شریف کالے کوٹ پہن کر سپریم کورٹ گئے تھے، تو ملک کیسے چلتا رہا؟ اور جب ہم سب نہیں رہیں گے اور نواز شریف بھی نہیں ہوں گے تو پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟ اور ویسے جن ملکوں میں نواز شریف نہیں ہے وہ ملک کیسے چل رہے ہیں؟ میں نے کہا ویسے شاید ڈیگال کا جملہ ہے کہ ناگزیر لوگوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں۔ اللہ کے علاوہ ہر شے فانی اور اس نے فنا ہونا ہے۔ اچھے لیڈر وہ ہوتے ہیں جو خود اپنے متبادل تیار کرتے رہتے ہیں۔ اپنی جگہ چوہدری نثار علی خان کو بنا دیں۔ وہ بہتر وزیراعظم رہیں گے۔ 
میں نے دوست کو بتایا کہ عجیب بات ہے کہ جب دو ہزارسات میں ارشد شریف اور میں روزانہ نواز شریف اور شہباز شریف اور بینظیر بھٹو کی لندن سے رپورٹنگ کرتے تھے تو اس وقت انہیں ہمیں کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ ہمارے حق میں لکھو۔ صحافی ویسے بھی اپوزیشن کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جو حکومتوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں وہ صحافی نہیں بلکہ بقول ہمارے دوست ہارون الرشید کے بھاڑے کے ٹٹو ہوتے ہیں۔ صحافی نے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرنی ہوتی ہے حکمرانوں کا طبلہ نہیں بجانا ہوتا۔ اس لیے میرے سمیت بہت سے صحافیوں نے جنرل مشرف دور میں نواز شریف اور بینظیر کے سیاسی موقف اور جدوجہد کو سپورٹ کیا تو‘ کوئی احسان نہیں کیا۔ یہاں تک لندن واپسی پر ایک دن عاصمہ چوہدری کے ٹی وی شو میں اس وقت کے وفاقی وزیر شیخ رشید نے یہاں تک مجھے کہا کہ تم تو نواز شریف سے لندن میں پیسے لیتے تھے اور اس کے حق میں لکھتے تھے۔ خیر میں نے شیخ صاحب کو جو جواب دیا تھا اس پر کافی بدمزگی بھی ہوگئی تھی۔ ہمارا خیال تھا کہ اتنی تکلیفوں کے بعد بینظیر اور نواز شریف بہت سیکھ چکے تھے اور اب کی دفعہ ماضی کی غلطیاں اور قومی خزانے کی لوٹ مار نہیں ہوگی۔ نئی شروعات ہوں گی اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 
بینظیر بھٹو نے جنرل مشرف سے ڈیل کر لی۔ نواز شریف نے وطن لوٹتے ہی وہ سب لوٹے گلے سے لگائے جو جنرل مشرف کے بازو تھے۔ وہ نواز شریف جس نے جدہ اور لندن میں مجھے کہا تھا کلاسرا صاحب جائیں اور پاکستان کے لوگوں کو بتادیں کہ میں نے وہ دکان بند کردی ہے جہاں سیاسی لوٹوں کی جگہ ہوتی تھی۔ مجھے خدا نے دو دفعہ وزیراعظم بنایا کافی ہے۔ اب کچھ ہوجائے وہ جنرل مشرف کے ساتھیوں کو اپنی پارٹی میں شامل کرنا دور کی بات ہے اُن سے ہاتھ تک نہیں ملائیں گے اور پھر انہی گناہگار انکھوں نے دیکھا جس دن نواز شریف کو دس ستمبر دوہزار سات کو اسلام آباد ایرپورٹ پر جس وزیرداخلہ آفتاب شیرپائو کے حکم پر گھسیٹ کر باتھ روم میں بند کیا جارہا تھا اسی سے نواز شریف دھرنے کے دنوں میں بچنے کے لیے مشورے مانگ رہے تھے اور جنرل مشرف کے سب وزیر دائیں بائیں۔اس وقت ان کا دفاع کرتے ہیں۔ کیسے وہ نوازشریف جو جدہ سے لندن تک قسمیں کھا کرپاکستان لوٹے تھے کہ اب کی دفعہ وہ انقلاب لائیں گے اور دنیا بدل دیں گے، آج ان کے ایک اہم وزیر میرے جیسے ناچیز سے ان کے حق میں کالم چاہتے ہیں۔ کتنی بڑی ساکھ اور توقعات کے ساتھ نواز شریف وطن لوٹے تھے۔ اقتدار کتنی خوفناک چیز ہے کہ کیسے انسان کو ایکسپوز کردیتا ہے۔ انسان کے اندر کا کھوکھلا پن سامنے لے آتا ہے۔ چار سال کے اندر اندر وہ آسمان سے زمیں پر آگرے ہیں اور سب کی نظریں عدالت پر۔ 
حیران ہوتا ہوں میرے کالموں اور تحریروں کو نواز شریف اور ان کے وزراء نے کبھی سنجیدگی سے لیا ہے کہ اب ان کے حق میں لکھے گئے کالم کو عدالت اور عوام سنجیدگی سے لیں گے؟کیا مذاق ہے یار۔!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved