تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     13-03-2017

ٹوٹے اور شاعری

زیادتی !
ایک اطلاع کے مطابق جنوبی کوریا کی خاتون صدر کو سپریم کورٹ نے کرپشن کے الزام میں برطرف کر دیا گیاہے۔ ہمارے خیال میں یہ کوئی اچھی مثال نہیں بلکہ سراسر زیادتی ہے اور سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس سے ہماری عدلیہ بھی شیر ہو جائے گی کہ اگر ایک صدر کو کرپشن کے الزام میں برطرف کیا جا سکتا ہے تو ایک وزیراعظم کو کیوں نہیں۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ وہاں اس پر کوئی احتجاج بھی نہیں ہوا ۔حالانکہ آخر وہ صدر تھیں، ان کے کئی ورکر اور چاہنے والے بھی ہوں گے اور انتہائی شرم کی بات ہے کہ اُن کے کان پر بھی جوں تک نہیں رینگی‘ کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی حالانکہ بہت کچھ ہو سکتا تھا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک بے حس قوم ہے اور کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ ہماری حکومت حفظ ماتقدم کے طور پر کم از کم اس خبر کو تو رکوا سکتی تھی تاکہ اس کے بُرے اثرات یہاں پر بھی نہ پڑیں‘ یہ ناعاقبت اندیشی کی انتہا ہے کہ نہیں؟ ہیں جی؟
تحفظات
فوجی عدالتوں کے مسئلے پر پیپلز پارٹی اور مولانا فضل الرحمن حکومت کا ساتھ نہیں دے رہے اور معاملہ التواء کا شکار ہے۔ لیکن یہ تعطل بھی عارضی ہے کیونکہ ان دونوں کو مطمئن کرنے کے لیے حکومت کے پاس کافی مسالہ موجود ہے۔ جمہوریت ویسے بھی اس ہاتھ دو‘ اُس ہاتھ لو‘ ہی کا معاملہ ہے اور آج تک ہوتا بھی یہی آیا ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی اپنا اُلو سیدھا کرے گی جس کے بہت سے اُلو ٹیڑھے ہوئے پڑے ہیں اور جن میں ڈاکٹر عاصم حسین کا معاملہ سرفہرست ہے جبکہ ایان علی کو صرف ملک سے باہر جانے کی اجازت ملی ہے‘ اس کا مقدمہ ابھی تک قائم ہے اور جہاں تک مولانا صاحب کا تعلق ہے تو اُنہیں رام کرنے کے طریقے وزیراعظم سے بہتر کون جانتا ہے۔ اگرچہ اس مرتبہ اُن کے تحفظات دوآتشہ قسم کے ہیں کیونکہ فوجی عدالتوں کے ساتھ ساتھ انہیں فاٹا کو پی کے میں ضم کرنے پر بھی سخت اعتراض ہے‘ اس لیے ظاہر ہے کہ موصوف کو قائل کرنے کے لیے وزیراعظم کو دوہرے دلائل دینا ہوں گے تاکہ مولانا اچھی طرح قائل ہو سکیں۔
نئے لوگ
اس ہفتے کے اختتام پر میں ماڈل ٹائون میں تھا اس لیے کچھ نوجوان شعراء بھی وقت لے کر آ گئے۔ سو‘ ان کا کلام سُنا اور سزا کے طور پر انہیں اپنا کلام بھی سنایا۔ بہنام احمد اٹلی میں ملازمت کرتے ہیں۔ آج کل اپنے گھر فیصل آباد آئے ہوئے ہیں۔ ان کے کچھ اشعار :
باغ میں تُو اگر نہیں آتا
اس برس بھی ثمر نہیں آتا
میں تجھے صاف دیکھ سکتا ہوں
میں تجھے کیوں نظر نہیں آتا
میرے ہاتھوں میں صرف رستہ ہے
اِن لکیروں میں گھر نہیں آتا
ایسا کیا بھید ہے کہانی میں
کیوں کوئی لوٹ کر نہیں آتا
وسیم تاشف بہاولنگر میں ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار دیکھیے :
گرد کیوں ہے غبار کس لیے ہے
ذہن میں انتشار کس لیے ہے
شاعری سچ میں کچھ نہیں ہے تو پھر
میرے سر پر سوار کس لیے ہے
اپنا اپنا سمے بتا رہے ہیں
ہم تعلق کہاں نبھا رہے ہیں
وہ بھی سب آپ کا دیا ہوا تھا
یہ بھی ہے آپ کا جو کھا رہے ہیں
سو رہے ہیں کسی کے پہلو میں 
اور ترا خواب گنگنا رہے ہیں
ضیاء مذکور بہاولپور میں ہوتے ہیں۔ ان کے دو شعر :
وقت ہی کم تھا فیصلے کے لیے
ورنہ میں آتا مشورے کے لیے
لوگ آیات پڑھ کے سوتے ہیں
آپ کے خواب دیکھنے کے لیے
یہ لوگ بیٹھے تھے کہ طارق کریم کھوکھر آ گئے۔ آپ سول سروس میں ہیں اور آج کل نارووال میں تعینات :
وہ جو اشکوں میں چلا جائے کہاں ملتا ہے
کبھی پانی پہ بھی قدموں کا نشاں ملتا ہے
معتبر کس کی گواہی ہے میں کس کو مانوں
حاکم شہر کا ظالم سے بیاں ملتا ہے
میری غزل بالکل تازہ اس لیے کچی پکی سی ہے۔ میں نے بھی خانہ پُری کر دی :
دریا درست ہے نہ کنارہ درست ہے
کوئی مجھے بتائے یہاں کیا درست ہے
کل کو نجانے کیا نکل آئے‘ خبر نہیں
جو دیکھنے میں آج سراپا درست ہے
سر پیر اس کا یوں تو کوئی بھی نہیں‘ مگر
یہ آپ نے کہا ہے لہٰذا درست ہے
اس عشق نابکار کا کچھ بھی نہیں صحیح
کیا ہجر‘ کیا وصال سبھی نادرست ہے
اُودھم مچا رکھا ہے اُچکوں نے ہر جگہ
اس مال و وزر پہ آپ کا پہرہ درست ہے
ہم دوسری طرف سے نکل جائیں گے کہیں
حالانکہ اب کے اُس کا اشارہ درست ہے
اپنی تو کچھ سمجھ میں ہی آتا نہیں یہاں
اُلٹا درست ہے کبھی سیدھا درست ہے
بالآخر اس نتیجے پہ پہنچا ہوںسر بسر
میں ہی غلط ہوں‘ سارا زمانہ درست ہے
ٹانکا لگے تو کیسے لگے ٹھیک سے ظفرؔ
سُوئی درست ہے نہ ہی دھاگہ درست ہے
آج کا مقطع
گھیرا ہوا ہے اس کی حدوں نے اِسے ‘ ظفر
یہ شہر وہ ہے جس کے مضافات ہی نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved