تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     14-03-2017

سی پیک :توقعات ‘شفافیت‘ تحفظات

اس امر میں کوئی شک نہیں کہ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے لیے انتہائی اہم منصوبہ ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کئی سال پہلے مکمل ہوئی مگر پوری طرح استعمال نہیں ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم شوکت عزیز کے زمانے میں گوادر پورٹ چلانے کا ٹھیکہ سنگا پور کی ایک کمپنی کو دیا گیا لیکن پورٹ فعال نہ ہو سکی۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ سنگا پور کا اس پورٹ میں کوئی ڈائریکٹ مفاد نہیں تھا نہ امپورٹ کے حوالے سے اور نہ ہی ایکسپورٹ کے زمرے میں۔ دوسری ہماری اپنی نالائقی تھی کہ کئی سال تک ہم رتو ڈیرو والی سڑک مکمل نہ کر سکے اس وجہ سے جو مال گوادر اتارا جاتا تھا اسے کراچی کے ذریعے ملک کے دوسرے حصوں میں بھیجا جاتا۔ اب سی پیک سے یہ مسئلہ حل ہو رہا ہے۔ اسی طرح تھر کے کوئلے کا مفید مصرف بھی ممکن ہو گیا ہے۔
چند سال پہلے تک پوزیشن یہ تھی کہ پاک چین دوستی سیاسی اور دفاعی شعبوں تو بہت مضبوط تھی لیکن تجارتی اور اقتصادی میدان میں خاصی کمزور تھی۔ سی پیک کی بدولت دو طرفہ تعلقات میں تعاون بھی آ گیا اور مزید جان پڑ گئی ہے۔سی پیک بڑی حد تک اقتصادی منصوبہ ہے لیکن ظاہر ہے کہ پاکستان میں اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد چین کا سکیورٹی مفاد بھی بڑھ جائے گا۔ انڈیا اسی وجہ سے اس منصوبے کا مخالف ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے پچھلے سال چینی لیڈروں کو کہا کہ اکنامک کوریڈور متنازعہ علاقے سے گزرے گا اور انڈیا اس علاقے کو اپنا حصہ تصور کرتا ہے انڈیا کا واضح اشارہ گلگت بلتستان کی طرف تھا۔ چینی قائدین کا جواب تھا کہ سی پیک اول اور آخر اقتصادی نوعیت کا پراجیکٹ ہے اور اس سے گلگت بلتستان کے پسماندہ علاقے کو ترقی ملے گی۔ عوام کو فائدہ ہو گا۔
اور اب آتے ہیں پاکستان میں اس منصوبے سے جڑی توقعات کی جانب۔ حکومتی لیڈر اور وزیر بار بار کہتے رہے ہیں کہ یہ منصوبہ گیم چینجر ہے اور اس سے پاکستان کے اقتصادی حالات میں انقلاب آ جائے گا۔ مجھے اس بات میں مبالغہ آرائی نظر آتی ہے۔ پاکستان کی ٹوٹل سالانہ قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی اس وقت تقریباً تین سو ارب ڈالر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباًڈھائی سو ارب ڈالر کی ہماری وہ معیشت ہے جو زیر زمین ہے یعنی ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کی مجموعی سالانہ قومی پیداوار ساڑھے پانچ سو ارب ڈالر ہے۔ سی پیک کی بدولت اگلے بارہ سال میں جو سرمایہ کاری ہو گی وہ ٹوٹل پچاس ارب ڈالر ہے لہٰذا یہ کہنا کہ سی پیک کی سرمایہ کاری سے پاکستان میں شہد اور دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی قرین قیاس نہیں ہاں البتہ ہماری معیشت میں واضح اور مثبت تبدیلی ضرور آئے گی۔
اور اب بات ہو جائے شفافیت کی۔ کچھ عرصہ پہلے سینیٹ میں سی پیک کے حوالے سے چند تفاصیل حکومت سے مانگی گئیں۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کا جواب تھا کہ پراجیکٹ حساس نوعیت کا ہے لہٰذا معلومات شیئر نہیں کی جا سکتیں کچھ اس قسم کا جواب لاہور ہائی کورٹ کو اورنج ٹرین کے حوالے سے دیا گیا۔ ایک عرصے تک ملک میں یہ مباحثہ چلتا رہا کہ سی پیک قرضہ ہے یا سرمایہ کاری۔ کوئی دو تین ہفتے پہلے ایک پاکستانی انڈسٹریلسٹ سے ملاقات ہوئی تو یہ شکوہ سننے کو ملا کہ ابھی تک ہمارے بزنس مین کو یہ نہیں بتایا گیا کہ سی پیک کے انرجی منصوبوں میں پیدا کی گئی بجلی پاکستانی صارفین کو کس ریٹ پر ملے گی موصوف نے یہ بھی بتایا کہ سی پیک سے متعلقہ معلومات کے بارے کئی فیڈرل سیکرٹری بھی تسلی بخش جواب نہیں دے پاتے۔
سی پیک کے منصوبے کا چوتھا حصہ صنعت کاری سے متعلق ہے اور اس بارے میں معلومات بھی ابھی تک صیغۂ راز میں ہیں۔ ان منصوبوں میں کتنے سو فیصد چینی ہونگے اور کتنے جوائنٹ وینچر پاکستانی عوام کو اس کا کوئی علم نہیں۔ ان صنعتوں میں ہماری لیبر کا کتنا شیئر ہو گا یہ بھی کسی کوپتہ نہیں۔ سی پیک کے بیشتر منصوبے بجلی سے متعلق ہیں۔ کیا ہم اپنی کمپنیوں کو بجلی کے کارخانے چلانے اور ٹرانسمیشن لائنوں کی دیکھ بھال کی تربیت ابھی سے دے رہے ہیں کہ نہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ ان تمام امور سے لوگوں کو آگاہ رکھے۔
میں دو مرتبہ چین گیا ہوں چین میں ہر ڈیل میں بارگیننگ یعنی سودے بازی ہوتی ہے اور چینی تاجر اس بات سے قطعاً نالاں نہیں ہوتے اب سوال یہ ہے کہ ہمارے لیڈروں نے قوم کے مفادمیں کتنی بار گیننگ کی ہے کتنے ریٹ کم کروائے ہیں احسن اقبال صاحب کو یہ باتیں شیئر کرنی چاہئیں۔
ایک اندازے کے مطابق اس وقت سالانہ ڈیڑھ ملین یعنی پندرہ لاکھ پاکستانی نوجوان لیبر مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں اور ان میں سے جاب صرف چھ لاکھ کو ملتی ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً نو لاکھ نوجوان ہر سال بے روزگاروں کی صف میں شامل ہو رہے ہیں۔ ہماری آبادی کا یہ حصہ ہے جومرنے مارنے کا فیصلہ کرتا ہے دشمن بھی اس طبقے کو سستے داموں خرید سکتا ہے۔
یوں تو ہمارے تاجر طبقے کے کئی تحفظات ہیں لیکن ایک اہم پریشانی یہ بھی ہے کہ خنجراب سے گوادر اور کراچی چینی مال سے لدے ہوئے ٹریلر چلیں گے تو سمگلنگ کا امکان واضح طور پر موجود رہے گا۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پاکستان کے راستے افغانستان جاتے ہوئے نیٹو کے کتنے کنٹینر راستے میں غائب ہو جاتے تھے۔ تجارتی اور اقتصادی تعاون عمومی طور پر اچھی بات ہے اور اس سے دونوں ملکوں کو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن اس سودے میں کہیں پاکستان کا نقصان نہ ہو جائے یہ بات محل نظر رہنی چاہیے۔ کوئی دس سال پہلے جب ہم نے چین سے آزاد تجارت کا معاہدہ کیا تھا تو نتیجے میں گوجرانوالہ کی سیرامکس انڈسٹری بیٹھ گئی تھی۔
1980ء کی دہائی میں جب چینی لیڈر ڈینگ Dengنے اپنی معیشت کو بیرونی دنیا کی سرمایہ کاری کے لیے کھولا تو مغرب کی ملٹی نیشنل کمپنیاں قطار در قطار چین آنے لگیں۔ حکومت چین کی بڑی شرط یہ تھی کہ کارخانے آپ لگا سکتے ہیں لیکن ان میں کام چینی مزدور کریں گے اس سے چین میں بے روزگاری کم ہوئی اور چینی مغربی اور ماڈرن ٹیکنالوجی بھی سیکھ گئے۔کیا ہماری حکومت نے سی پیک کے حوالے سے ایسی کوئی شرط لگائی ہے کم از کم مجھے اس بات کا کوئی علم نہیں۔
سی پیک کے منصوبے کا اصل مقصد چینی برآمدات اور درآمدات کے لیے آسان اور مختصر راستہ بنانا ہے۔ چینی درآمدات میں وہ تیل سرفہرست ہو گا جو خلیجی ممالک سے خریدا جائے گا۔ گوادر سے یہ تیل سنکیانگ جائے گا۔ اس تیل کو ٹرانسپورٹ کرنے کا سب سے اچھا طریقہ پائپ لائن ہے۔ اس پائپ لائن پر کام کب شروع ہو گا حکومت کو بتانا چاہیے۔ حکومت پاکستان کو کتنی ٹرانزٹ فیس ملے گی یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ سنا ہے پاکستان میں لگائی جانے والی چینی صنعتوں کو کئی سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ اس سے ہماری صنعتوں اور خزانے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ ہمیں علم ہونا چاہیے۔
میرے خیال میں سی پیک ایک شاندار منصوبہ ہے لیکن ہماری حکومت کا فرض ہے کہ ہر قدم پر قومی مفاد کا دفاع کرے۔ مجھے یقین ہے کہ چینی دوست اس بات کو پسند کریں گے۔ چینی صدر شی ون بیلٹ دن روڈکو اپنے عہد کا سب سے اہم کارنامہ تصور کرتے ہیں اور سی پیک اسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ پاکستان اور چین دونوں کے لیے یہ منصوبہ یکساں مفید ہو سکتا ہے لیکن شفافیت اور خلوص شرط ہے۔ حکومت پاکستان کو اس سلسلے میں پاکستانی بزنس کمیونٹی اور میڈیا سے رابطے میں رہنا چاہیے۔
پاکستان کو کتنی ٹرانزٹ فیس ملے گی یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ سنا ہے کہ پاکستان میں لگائی جانے والی چینی صنعتوں کو کئی سال کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے۔ اس سے ہماری صنعتوں اور خزانے پر کیا اثرات مرتب ہوں گے یہ ہمیں علم ہونا چاہیے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved