7 مارچ کو پاکستان کی سینیٹ میں پیش کیے جانے والے پانی کے حصول کے بارے میں اعدادوشمار ملک میں پانی کی سنگین صورتحال کی غمازی کرتے ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی84 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے آج بھی محروم ہے ۔ لیکن جہاں انسانوں کو پینے کے صاف پانی کے حصول میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے وہاں زراعت کے شعبے میں بھی پانی کی قلت بڑھتی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کی رپورٹ کے مطابق ربیع اور خریف کی فصلوں کی آبپاشی کے لیے پانی کی قلت نہری علاقوں میں18 فیصد سے تجاور کرگئی ہے ۔ جبکہ گرمیوں میں زیادہ پانی کھیتوں کو سیراب کرنے کی بجائے آبپاشی کے خستہ حال نظام کے باعث سیلابوں سے اجاڑنے کا باعث بن جاتا ہے ۔ پاکستان میںآبی وسائل کے تحقیقاتی ادارے کے مطابق یہ ملک اب تیزی سے پانی کی قلت کا شکار بنتا جارہا ہے۔ پانی کی یہ بڑھتی ہوئی قلت کسی قہر خداوندی سے زیادہ یہاں کے حکمرانوں اور ان کے نظام زر کے تقاضوں کی وجہ سے ہے۔ اس نظام کے اندھا دھند منافعوں کے حصول کے لیے کسی ماحولیاتی آلودگی کی پروا کیے بغیر ہر قسم کی آلودگی بڑھ رہی ہے اس سے نہ صرف موسموں کے انداز بدل رہے ہیں بلکہ بارشوں کے سلسلے بھی بے ہنگم اور ناقابل اعتبار ہو تے جارہے ہیں۔
جنگلوں کی کٹائی جہاں سیلابوں کا باعث بنتی ہے وہاں بارش کے نظام بگڑ کر سوکھے کو جنم دیتے ہیں۔ اس سے کاشتکار اور دہقانوں کی زندگیاں عذابوں میں مبتلا ہورہی ہیں ۔ غذا پیدا کرنے والے بھی بعض اوقات اسکی قلت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ لیکن ''ٹمبر مافیا‘‘ کو بھلا کون روک سکتا ہے۔ سیاست کی ہر پارٹی میں اور ریاست کے ہر ادارے میں انکی سرائیت ہے جہاں ان کے اپنے نمائندے نہ ہوں وہاںیہ لوٹ کا مال انکی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن''ٹمبر مافیا‘‘ سے بھی بڑا قبضہ گروپوں اور پراپرٹی کا مافیا ہے جو اس وقت ملک کا سب سے بھاری سرمایہ رکھنے والا کاروبار اور مافیا بن چکا ہے۔ ہزاروں ایکٹر زرخیز اراضی پر قبضے کرکے ان کو ہائوسنگ کالونیاں بنایا جارہا ہے۔ ''گھر‘‘ اور ''گھرہستگی‘‘ کی محرومی اور بیگانگی کے مارے درمیانے طبقے کی بالائی پرتوں کے افراد ان کالونیوں میں ''علیحدہ گھروں‘‘ کی حسرتیں لیے اپنا سب کچھ ان مافیائوں کے آگے لٹا بھی رہے ہیں لیکن پھر بھی اس پرانتشارمعاشرے میں کسی سکون اور اطمینان کے حصول میں ناکام ونامراد ہیں۔جس معاشرے میں آبادی اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہو،غربت کی کھائی گہری سے گہری ہوتی چلی جارہی ہو، امارت کی انتہائوں میں عدم برابری اتنی شدت اختیار کرتی جارہی ہو، ایسے پر انتشار معاشرے میں کوئی انفرادی یا خاندانی طور پر سکون کیسے حاصل کرسکتا ہے! لیکن اس سلگتی ہوئی خواہش کو یہ مافیا جس طرح استعمال کرتا ہے وہاں صرف خریداروں کا استحصال نہیں ہوتا غریبوں کی بستیاں اور گھروندے اجاڑتا چلا جارہا ہے۔ لہلہاتے کھیتوں کی جگہ لوہے اورکنکریٹ کے جنگل کھڑے کر رہا ہے جو نہ صرف زرخیزی کو بنجر کردیتے ہیں بلکہ ارتقا کو اتنا بے ہنگم اور فطرت کو اتنا بگاڑ دیتے ہیں کہ معاشرے میں رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن بالادست طبقات کی ایسی کالونیوں اور رہائشی علاقوں میں پانی کی فراوانی اور ضیاع عام ہوتا ہے ۔بجلی ان کی کبھی جاتی نہیں اور دوسری تمام انفراسٹرکچر کی سہولیات ان کو اس لیے حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ ان کو مہنگے داموں خرید سکتے ہیں۔ لیکن ان رہائشی علاقوں میں یہ پرتعیش زندگی بھی کتنی محروم ہے۔ بڑے بڑے لوہے کے گیٹوں ، گارڈوں، جنگلوں اور فصیلوں میں گھرے ہوئے یہ امراء جس '' اپنی ہی دنیا ‘‘ میںمست معلوم ہوتے ہیںوہ جہاں کھوکھلی،منافقت بھری اور پرفریب ہے وہاں وہ باقی معاشرے سے کٹی ہوئی ہوتی ہے ۔ چاہے کوئی سونے کے گھرے میں رہے اس کو تنہائی ماردیتی ہے ۔ یہ چند امراء کے گھرانے ان وسیع لیکن سماج سے کٹے ہوئے بنگلوں میں جو زندگی گزارتے ہیں وہ چاہے جم میں ورزش کرلیں،گالف کھیل لیں،کلبوں میںدولت اور مزید جائیداد کے لیے گفتگو کررہے ہوں، شام کو کتنی ہی رنگین محفلیں اور جدید ترین آلات سے محظوظ کیوں نہ ہوں اندر سے کھوکھلے ہی رہتے ہیں۔ غربت سے کٹی ہوئی ان کالونیوںمیں چاہے دولت کے انبار رکھتے ہوںلیکن ان کی روح غریب ہوجاتی ہے۔ انسانوں کے معاشرے میں یہ امراء کے جزیرے آخر جزیرے ہی ہوتے
ہیں۔ جزیرہ کتنا بھی عالیشان اور پر فضا کیوں نہ ہو جلد ہی انسان ان سے اکتا جاتا ہے۔ لیکن یہ اس معاشرے کے سا تھ جڑ بھی بھلا کیسے سکتے ہیں جس معاشرے کو انہوں نے خود محروم کیا ہو، اس محرومی کی وجہ سے انہوں نے بہتات حاصل کی ہو۔اس ہنگامہ خیز معاشرے سے فرار اختیار کرکے بھی وہ فرار حاصل نہیںکرسکتے! اس معاشرے کی گندگی،انفراسٹرکچر کی خستہ حالی اور ہر طرف پھیلی ہوئی ذلت کو بھی تو وہ برداشت نہیں کرسکتے۔
حکمرانوں کی یہ ریاست معاشرے کو مساوی بنیادوں پر علاج،تعلیم،پانی، بجلی،نکاس، ٹرانسپورٹ،رہائش اور دوسری بنیادی سہولیات فراہم کرنے میںناکام رہی ہے۔ اس سے ایک محرومی اور عدم استحکام ہے۔ جعلی ہتھکنڈوں اور تماشوں سے معاشرے کو کب تک اس ذلت میںتڑپتے رہنے پر مجبور رکھا جاسکتا؟ ریاست جو ماضی میں کسی حد تک یہ سہولیات خود فراہم کیا کرتی تھی اب اس نظام کے بحران کی وجہ سے حکمرانوں کی شرح منافع قائم اور جاری رکھنے کے لیے ان بنیادی سہولیات کو نجکاری کی بھینٹ چڑھا رہی ہے ۔ اس سے عام انسانوں کو حاصل تھوڑی بہت سہولیات بھی ان کی دسترس سے باہر ہورہی ہیں۔ مہنگے علاج سے لے کر مہنگے انصاف تک کا حصول ان کی قوت خرید سے کہیںدور ہوتا چلا گیا ہے۔ حکمرانوں کی دولت کا حجم بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ جبکہ عوام روٹی روزی سے بھی محروم ہونے لگے ہیں۔ اس دیوہیکل کالے دھن سے حکمران سیاست ہی خرید لیتے ہیں ، ادارے بھلا اس زر کی جکڑ سے اسی نظام میں رہتے ہوئے کیسے نکل سکتے ہیں۔ عوام سے جب ضروریات کے ساتھ ساتھ امید ہی چھین لی جائے ان کا ہر راستہ بند بھی کردیا جائے تو تب بھی وہ مر تو نہیںجاتے۔ ان کو زندہ تو رہنا ہوتا ہے۔ جب ایک امید دم توڑ دیتی ہے تو ناگزیر طور پر دوسری جنم لیتی ہے۔ جب تمام راستے بند ہوجائیں تو پھر انقلاب کے راستوں پر چلنے اور آگے بڑھنے کے لیے ایک جذبہ، جرأت اور ہمت درکار ہوتی ہے۔ پرانے آسروں سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے۔ عام لوگ عمومی طور پر کم مزاحمت کے راستوں سے گزارا کرنے کی سوچ رکھتے ہیں لیکن اگر یہ بھی مٹ جائیں تو پھر ان کو جینے کے لیے درکار ضروریات کے حصول کے لیے نئے راستے اور زیادہ بلند پیمانے کے نظریات اور لائحہ عمل درکار ہوتے ہیں۔ جب ایک راستہ بند ہوجائے تو نئے راستے کو پہلے چننا مشکل ہوتا ہے اور پھر اپنے آپ کو اس پر گامزن ہونے اور اپنے حقوق کے لیے ٹکرا جانے کے لیے جو حوصلہ درکار ہوتا ہے وہ بعض اوقات زیادہ وقت لے سکتا ہے لیکن پھر ان کو حاصل تو کرنا ہی ہوتا ہے ۔ آخر یہ ان کی اور ان کی نسلوں کی بقا کا سوال ہوتا ہے۔ وہ نظام جس میںمحرومیوں کا خاتمہ ہو،ان کی ضروریات کا حصول آسان ہو، ان کی محنت کا پھل مل سکے۔ جو نظام روٹی روزی اور صحت وعلم کو یقینی بنا سکے موجودہ ڈھانچوں اور معاشی تقاضوں وطبقاتی نظام میں تو ممکن نہیں ہے۔ لیکن وسائل بھی موجود ہیں، ٹیکنالوجی بھی اور وہ ہاتھ بھی ہیں جو اپنی محنت سے معاشرے کی ان ضروریات کی سب کے لیے فراوانی کو یقینی بنا سکیں۔ رکاوٹ صرف اس سیاست،ریاست اور عوام پر مسلط اقدار اور رجحانات کی وہ دیوار ہے جس کو سرمایہ دارانہ نظام کہتے ہیں۔ اس دیوار کو گرائے بغیر اب نسل انسان کی نجات کا سفر آگے نہیں بڑھ سکتا!