عبداﷲ بن انیس قبیلہ ہذیل کے علاقے عرنہ میں پہنچے تو پتہ چلا کہ فوجیں تو جمع ہوچکی ہیں۔ انہوں نے اپنے آپ کو قبیلہ خزاعہ کا فرد ظاہر کیا اور کسی حیلے سے فوجوں کے قائد خالد بن سفیان سے ملنے میں کامیاب ہو گئے۔ آنحضورؐ کے ارشاد کے مطابق اس سے ملاقات کے وقت عبداﷲ بن انیس پر ہیبت اور خوف طاری ہوا اور ان کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہو گئے۔ انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ اﷲ کے رسولؐ نے سچ فرمایا تھا۔ خالد نے ان سے پوچھا تم کون ہو؟ تو جواب دیا قبیلہ خزاعہ کا فرد ہوں۔ میں نے سنا ہے کہ تم محمدؐ کے مقابلے کے لیے فوج جمع کر رہے ہو، یہ خوشخبری سن کر میں تمہاری خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ مجھے بھی اس جنگ میں شرکت کا شرف حاصل ہو جائے۔ یہ سن کر خالد بہت خوش ہوا اور انہیں خوش آمدید کہا۔ عبداﷲ بن انیسؓ نے خالد کے ساتھ بے تکلفی اور دوستانہ مراسم قائم کر لیے۔ وہ اسے رات کو دلچسپ کہانیاں سناتے جن سے وہ بہت محظوظ ہوتا تھا۔ شام کو چہل قدمی کے لیے نکلتے تو خالد کے محافظ اس کے ساتھ ہوتے۔ ایک شام باتوں ہی باتوں میں حضرت عبداﷲ خالد کو اس کے ساتھیوں سے دور پہاڑی کی جانب لے گئے۔ جب عام لوگوں سے کافی فاصلے پر پہنچے تو اپنی روایتی پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس شیطان کا سر اڑا دیا۔ مقتول کا سر اٹھا کر ایک پہاڑی غار میں جا چھپے۔ جب خالد کے ساتھی اور محافظ وہاں پہنچے اور اپنے سردار کا بے سر دھڑ دیکھا تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ حضرت عبداﷲ کو کافی تلاش کیا مگر ان کا کہیں نام و نشان نہ ملا۔
اس مشکل مہم کو اس کامیابی کے ساتھ سر کرنے کے بعد آپؓ نے فوراً واپسی کا ارادہ کیا اور وہاں سے راتوں رات چل پڑے۔ پہاڑوں کے درمیان حضرت عبداﷲ رات کو سفر کرتے اور دن کو گھنے درختوں کے جھنڈ میں چھپ جاتے۔ اس سارے عرصے میں بنو ہذیل ان کا کھوج لگاتے رہے۔ اٹھارہ راتوں کی مہم کے بعد حضرت عبداﷲ دشمن کا سر کاٹنے کی خوش خبری لیے مدینہ وارد ہوئے۔ آنحضورؐ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ اپنے جاں نثار کو دیکھتے ہی پکار اٹھے ''تو سرخرو ہو گیا ہے۔‘‘ جواب میں انہوں نے عرض کیا: ''یا رسول اﷲ یہ سرخروئی تو آپ ہی کے لیے ہے۔‘‘ پھر انہوں نے دشمن کا سر آنحضورؐ کے قدموں میں رکھ دیا۔ یہ خبر گردونواح کے قبائل میں پھیل گئی کہ قبیلہ ہذیل کا سردار محمدؐ کے ایک فدائی کے ہاتھوں قتل ہو گیا ہے۔ اس واقعہ سے اسلام دشمن قوتوں پر ہیبت طاری ہو گئی۔ اپنے بہادر سردار اور سپہ سالار کے قتل کے بعد دونوں قبائل میں خوف وہراس اور سراسیمگی پھیل گئی۔ چنانچہ ذھیل اور لحیان کے قبائل کا اکٹھ منتشر ہو گیا اور مدینہ پر ان کے حملوں کے ارادے خاک میں مل گئے۔
مؤرخ ابن سعد طبقات الکبریٰ میں اس واقعہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عبداﷲ بن انیسؓ کی کامیاب واپسی پر آنحضورؐ اتنے خوش ہوئے کہ آپ نے انہیں ایک عصا عطا فرمایا اور کہا ''لو اس کے ساتھ جنت میں شاہانہ انداز میں داخل ہو جانا۔‘‘ یہ عصا حضرت عبداﷲ کے پاس رہا۔ انہوں نے اپنے اہل و عیال کو وصیت کی کہ موت کے بعد یہ عصا ان کے کفن کے اندر رکھا جائے اور ان کے ساتھ دفن کیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔مؤرخین نے حضرت عبداﷲ بن انیسؓ کا سال وفات ۵۴ھ لکھا ہے۔ ان کی وفات حضرت معاویہ بن ابوسفیان کے دور حکومت میں شام میں ہوئی تھی۔(تفصیل کے لیے دیکھیے طبقات الکبریٰ جلد دوم ص ۵۱، سیرۃ ابن ہشام، القسم الثانی، ص۶۱۹-۶۲۱)
صحابہ کے ان جنگی کارناموں کے دوران آنحضورؐ کو دشمنان اسلام کے ایک اور گٹھ جوڑ کے بارے میں خبریں ملیں کہ وہ مدینہ پر حملہ کرکے لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ نجد کے علاقے میں مقیم غطفانی قبائل تھے۔ حضورؐ نے خود قیادت کرتے ہوئے ان کی سرکوبی کا فیصلہ کیا۔ آپؐ مدینہ منورہ سے ماہِ جمادی الاولیٰ ۴ھ میں چار سو مجاہدین کے ساتھ دشمن کی طرف روانہ ہوئے۔ نجد کے علاقے میں قبیلہ بنو غطفان کی بڑی تعداد تھی۔ یہ ہزاروں جنگجو میدان میں نکال سکتے تھے۔ حضورؐ کا یہ اقدام جرأت مندی کی ایک نادر مثال ہے۔ احد کے زخم کے بعد اتنے بڑے قبیلے کے مقابلے کے لیے خود اس قبیلے کے علاقے میں پیش قدمی بڑا جان جوکھوں کا کام تھا مگر وقت کا تقاضا تھا کہ یہ دلیرانہ فیصلہ کرکے اسے عملی جامہ پہنایا جائے۔
مدینہ منورہ سے روانگی سے قبل آنحضور نے حضرت عثمان بن عفانؓ کو قائم مقام امیر مقرر فرمایا۔ آپ نے نجد کی جانب یہ سفر بہت سرعت کے ساتھ کیا۔ مدینہ سے دو منازل کے فاصلے پر ایک مقام نخل کے نام سے معروف ہے۔ اس مقام تک بنو غطفان کی فوجیں آ پہنچی تھیں۔ ادھر سے اسلامی دستہ آیا تو بنو غطفان حیران رہ گئے۔ متحارب فوجوں نے ایک دوسرے کے سامنے ڈیرے ڈال لیے۔ ہر جانب سے حملے کا خطرہ اور امکان تھا۔ فریقین دن رات چوکنے رہتے تھے مگر حملے میں پہل کوئی بھی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد بنو غطفان اپنی روایتی بہادری کے باوجود حوصلے ہار بیٹھے اور ان کے سرداروں کی آراء میں اختلاف پیدا ہو گیا۔ آخر ایک دن بنو غطفان پہاڑوں کی وادیوں اور گھاٹیوں میں منتشر ہو گئے۔ حضورؐ نے اسے کامیابی سے تعبیر کیا اور حقیقت میں یہ تھی بھی بہت بڑی کامیابی۔ بنو غطفان کا لشکر جرار چار سو مجاہدین کے سامنے بے بس ہو گیا تھا۔ مسلمانوں کے ہاتھ کوئی بہت بڑا مال غنیمت تو نہ آیا مگر بنو غطفان کے کچھ اونٹ اور چند لوگ ہاتھ آئے جو جنگی قیدی بنا لیے گئے۔
تقریباً پندرہ دن رات کے بعد آنحضورؐ مدینہ منورہ واپس لوٹے اور اہل مدینہ نے آپ کا استقبال کیا اور اس کامیابی پر آپ کو مبارکباد پیش کی۔ اپنی آمد سے قبل آپ نے ایک صحابی حضرت جمال بن سراقہ کو خوشخبری کے ساتھ مدینہ بھج دیا تھا۔ انہوں نے سارے واقعات اہل مدینہ کو بتا دیے تھے۔ مدینہ پر حملہ کرنے کے ارادہ سے پیش قدمی کرنے والی فوج کا راہ فرار اختیار کرنا اہل اسلام کے لیے حوصلہ افزا تھا جبکہ دشمنان اسلام کی ہمتیں اس واقعہ سے پست ہو گئی تھیں۔ اس جنگ کو غزؤ ذات الرقاع کہا جاتا ہے۔ رقاع رقعہ کی جمع ہے۔ رقعہ کا معنی ہے پیوند، زمین کا ٹکڑا، کاغذ کا پرزہ، چیتھڑا وغیرہ۔ ''ذات الرقاع‘‘ کے نام سے موسوم کیے جانے کی وجۂ تسمیہ مؤرخین اور محققین نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق بیان کی ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے ذیل میں مختلف وجوہات کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔
۱- اس جنگ کو ذات الرقاع کہا جاتا ہے کیونکہ مسلمانوں نے اس میں اپنے پرچم پھاڑ کر ایک ایک پرچم سے کئی کئی علم بنا لیے تھے۔۲- اس علاقے میں ایک خاص قسم کا درخت کثرت سے پایا جاتا ہے۔ اس درخت کا مقامی نام ذات الرقاع ہے۔۳- مسلمانوں کے گھوڑوں میں سفید اور سیاہ رنگ کے گھوڑے تھے۔ اس لیے اس جنگ کو ذات الرقاع کہا گیا۔۴- اس علاقے کے پہاڑ سفید اور سیاہ رنگ کی پٹیوں پر مشتمل ہیں جن کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے دو رنگ کے کپڑوں کی پیوند کاری کی گئی ہو۔ ان پہاڑوں کی وجہ سے جنگ کا یہ نام پڑ گیا۔۵- اس جنگ کے دوران میں صلوٰۃ خوف کا حکم اور طریقہ بتایا گیا۔ نماز دو حصوں میں منقسم ہو گئی۔ اس لیے جنگ کو ذات الرقاع کہا گیا۔یہ مختلف وجوہات تاریخ کی امہات کتب میں پائی جاتی ہیں۔اس جنگ کی وجہ تسمیہ جو امام بخاریؒ نے بیان کی ہے وہ درج ذیل ہے۔۶- ابوموسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور اکرمؐ کے ساتھ (بنو غطفان سے) جنگ کے لیے نکلے۔ ہمارے پاس سواری کے جانور کم تھے۔ ایک ایک اونٹ پر چھ آدمی باری باری سوار ہوتے تھے۔ لمبے سفر اور مشکل راستوں کی وجہ سے ہمارے پاؤں زخمی ہو گئے اور ناخن اتر گئے تھے۔ ہم اپنے پاؤں پر چیتھڑے لپیٹنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
امام بخاری ذات الرقاع کی وجہ تسمیہ حضرت ابوموسیٰ کی اس روایت کو قرار دیتے ہیں۔ اسی روایت میں وہ حضرت ابوموسیٰ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں کہ انہیں یہ روایت بیان کرنے کے بعد بہت افسوس ہوا کہ انہوں نے اﷲ کی راہ میں اٹھائی گئی مشقت کا تذکرہ لوگوں کے سامنے کیوں کیا (تفصیل کے لیے دیکھیے صحیح بخاری جلد پنجم ص ۱۴۴-۱۴۵ باب غزوۃ ذات الرقاع)۔اسی غزوہ میں صلوٰۃ الخوف پڑھنے کا حکم آیا تھا۔ چونکہ صلوٰۃ الخوف میں امام کے ساتھ مقتدی دور رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیتے تھے اور باقی مقتدی امام کے ساتھ آکر شامل ہوتے تو دو رکعت وہ بھی پڑھ لیتے۔ یوں امام کی چار رکعت ہوتی تھیں اور مقتدی قصر نماز نماز پڑھتے تھے۔ اس وجہ سے بھی اسے غزوۂ ذات الرقاع کہاجاتا ہے۔ یہ حکم سورۂ النساء کی آیات ۱۰۱ تا۱۰۳ میں آیا ہے۔