تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-03-2017

یہ ملک کوئی چراگاہ ہے؟

خطرہ میر جعفر اور میر صادق ہی سے ہوتا ہے۔ ایسوں کو نظراندازکرنے والے بھی مگر اتنے ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ڈان لیکس ایسے واقعات کو بھلایا کیسے جا سکتا ہے؟ یہ ملک کوئی چراگاہ تو نہیں۔
حسین حقانی پہ ترس آتا ہے۔ وہی چلتا ہوا جملہ : دولت کے سوا‘ جس کے پاس کچھ نہ ہو‘ کتنا وہ مفلس ہوتا ہے۔ اس غیر معمولی ذہانت‘ روشنیٔ طبع‘ تر دماغی اور معلومات کے وفور سے اسے کیاحاصل ہوا؟ اس دنیا میں آدمی نے اگر توقیر نہ پائی تو کیا پایا؟ سید خورشید شاہ کے الفاظ ایک بھالے کی طرح ہیں‘ جو سینے میں گاڑ دیا جائے۔ کہنے کو'' غدّار‘‘ ایک لفظ ہے‘ مگر اتنی بڑی سزا ہے کہ دشمن کو بھی اللہ اس سے محفوظ رکھے۔ 
طبیعت میں کبھی کشادگی ہو تو حریف کے لیے بھی دعا کرنی چاہیے۔ تلخی مزاج میں بہت ہو جاتی ہے۔ یار عزیز‘ ممتاز شاہ کے بقول : زہر آلود گفتگو اور تحریر۔ اس بارے میں سوچتا رہا۔ اصلاح کی تھوڑی سی کوشش بھی کی مگر افتاد طبع کا کیا علاج۔ کبھی عود کر آتی ہے‘ کبھی سوار ہی ہو جاتی ہے۔ 
میدان عرفات کی عبادت دعا ہے۔ تین‘ ساڑھے تین گھنٹے سرکارؐ نے ہاتھ اٹھا کر مناجات کی تھیں۔ تجربے سے معلوم ہے کہ دس پندرہ منٹ تک دعا کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ مگر وہ پیغمبر آخر الزماںؐ کی روح کا حیرت ناک گداز‘ وہ ناقابل یقین قوت۔ حج کے مبارک موقعہ پر‘ ایک سو اونٹ آپ نے قربان کئے تھے۔ ان میں سے 65 اپنے ہاتھ سے ذبح کیے۔ کیا تاریخ میں اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی کبھی ایسا ہوا ہو گا؟ کہا جاتا ہے ایک عرب پہلوان نے ایمان لانے کو شرط یہ رکھی کہ آپؐ اسے ہرا دیں۔ روایت ہے کہ فوراً ہی عالی جنابؐ نے اسے چت کر دیا۔
عرفات کا تجربہ بیان کرنے کی آرزو آج دل میں جاگی ہے۔ دعاآفتاب غروب ہونے تک کی جاتی ہے۔ ریتلے میدان میں‘ دھریک کے منحنی سے درختوں کے پس منظر میں‘ جو جنرل محمد ضیاء الحق نے بھجوائے تھے‘ سورج ڈوب رہا تھا۔ دیر تک التجا کے بعد بس میں جا سوار ہوا۔ پھر خیال آیا کہ اس مہلت کو رائیگاں نہ کیا جائے۔ ایک بار پھر نیچے اترا اور آخری دعا کی : یارب میرے دشمنوں پہ بھی رحم فرما۔ جن سے ناراضی اور اختلاف ہے‘ ان پر بھی۔ حسین حقانی بہت ناگوار ہیں مگر میں ان کے لیے دعا کرتا ہوں کہ اللہ ان پر رحم کرے۔ انہیں اپنی قوم اور ملک کی خدمت کا موقعہ عطا کرے۔ اس حال میں کس طرح اپنے رب کے پاس وہ جائیں گے؟ اس ملک کی مذمت اور تحقیر کرتے ہوئے‘ جو اللہ کے نام پر بنایا گیا۔ ہماری ہمہ وقت حماقتوں کے باوجود جس کا مستقبل منور دکھائی دیتا ہے۔
جو بیت گیا‘ وہ المناک بہت ہے۔ غوروفکر اس پہ لازم ہے۔ بہت سے سبق اس میں پوشیدہ ہیں۔ سانحہ ایبٹ آباد کے ہنگام‘ ازراہ کرم جسٹس جاوید اقبال نے خود فون کیا۔ اصرار کیا کہ حاضر ہو کر اپنے موقف اور معلومات سے کمیشن کو آگاہ کرنا چاہیے۔ وعدہ کر لیا مگر وفا نہ کر سکا۔ نیند ان دنوں اکھڑی ہوئی تھی۔ بارہ بجے سے پہلے گھر سے نکلنا ممکن نہ ہوتا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی سمیت‘ کئی اہم لوگوں سے تفصیل کے ساتھ بات ہوئی۔ جنرل نے بتایا کہ ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد میں اترا تو انہیں مطلع کیا گیا۔ پہلا خیال یہ تھا کہ اپنا ہی ہو گا۔ جلد ہی معلوم ہوا کہ امریکی ہے۔ اس وقت اندیشہ انہوں نے محسوس کیا کہ ایٹمی تنصیبات ہدف ہو سکتی ہیں۔ توجہ ہٹانے کا یہ ایک حربہ ہو سکتا ہے۔ فوراً ہی اہم ایٹمی مقامات سے رابطہ کیا۔ تسلی کر لینے کے بعد کہ کوئی خطرہ نہیں‘ ایبٹ آباد کی طرف وہ متوجہ ہوئے۔ وقت بیت چکا تھا‘ کامیاب کارروائی کا امکان کم تھا۔ اس کے لیے سرگودھا سے ایف 16 طیاروں کو اڑنے کا حکم دیا جاتا۔ ایک اندازہ یہ بھی ہے کہ جوابی اقدام میں تامّل کارفرما تھا۔ بعدازاں فوجی قیادت نے امریکہ سے تعلقات پر مکمل نظرثانی کا ارادہ بھی کیا۔ باقاعدہ طور پر اس کا جائزہ لیا گیا۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک کی معیشت مضبوط نہ ہو‘ اس کی خارجہ پالیسی بھی آزاد نہیں ہو سکتی۔ یہ نکتہ ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ جس کی بے پناہ قیمت ہم نے ادا کی ہے۔ آج بھی دس بلین ڈالر سالانہ کی منی لانڈرنگ ہوتی ہے۔ آج بھی ٹیکس وصولی نصف سے کم ہے۔ آج بھی ملک حکمران طبقات کی چراگاہ ہے۔ دیرپا منصوبہ بندی آج بھی ایک
خواب ہے۔ بہرحال جنرل کیانی نے اتنا تو کیا کہ جنرل مائیکل کو فون کیا اور یہ کہا : ایسا ایک بھی واقعہ اور ہو گیا تو پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ہوا میں ہوں گے۔ جنرل کیانی کو میں قائداعظم نہیں سمجھتا۔ مگر میں عینی شاہد ہوں کہ چیف آف آرمی سٹاف بن جانے کے بعد‘ جس ریاضت اور حب الوطنی کا انہوں نے مظاہرہ کیا اس کی مثالیں کم ہوں گی۔ یہ وہی تھے‘ دو بار نیٹو افواج کی رسد جنہوں نے روک دی۔ دوسری بار سات ماہ کے لئے۔ اسی لئے امریکی انہیں پسند نہ کرتے تھے۔ خاص طور پہ مائیکل ملن اور پیٹریاس۔ ثانی الذکر تو مزاجاً بھی بستہ الف کے تھے۔ ہلیری کلنٹن اور ہالبروک کو ایک حد تک انہوں نے ہموار کر لیا تھا۔ رتی برابر شبہ مجھے اس میں نہیں ہے کہ تاریخ جب لکھی جائے گی تو ان کے مقابلے میں‘ ہیرو بننے کا خبط جن پر سوار تھا‘ ان کی قامت بہت بلند ہو گی۔ سپہ سالار جنرل قمر باجوہ کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاک فوج کے سربراہ کا کردار کتنا اہم ہے۔ سیاست الگ‘ وہ ایک دوسری بحث ہے۔ اعلیٰ درجے کا میزائل اور ایٹمی پروگرام رکھنے والی پاک فوج پہ صرف اپنے وطن ہی نہیں‘ عالم اسلام کی طرف سے بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ 
تیس برس ہوتے ہیں‘ مدینہ منورہ میں مولانا علی میاں نے سرکارؐ کو خواب میں دیکھا۔ ایک سے زیادہ بار آپؐ نے سوال کیا : میری حفاظت کا بندوبست کیاہے؟ اے کے بروہی سے انہوں نے رابطہ کیا۔ بھارت جاتے ہوئے‘ کراچی رکے‘ جہاں جنرل ضیاء الحق نے ان کے اعزاز میں عشائیے کا اہتمام کیا۔ محمود غازی مرحوم نے مجھے بتایا : تنہائی میسر آئی تو مولانا علی میاںکے صبر کا پیمانہ لبریز تھا۔ ٹوٹ کر روئے اور جنرل کا گریبان تھام کر کہا : قیامت کے دن میں آپ کا دامن گیر ہوں گا کہ سرکارؐ کا پیغام میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے۔ جنرل بھی رویااور سعودی عرب کے لئے غالباً دو بریگیڈ بھجوائے گئے۔ مقدس مقامات کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ احادیث کے مطابق صہیونی ایک دن حجاز کا قصد کریں گے۔ پاک فوج کو اللہ نے ایک کے بعد دوسرے امتحان سے گزار کر صیقل کر دیا ہے۔ بلوچستان کے صحرائوں اور سیاچن کے برف زاروں میں داد شجاعت دینے والوں کو ایک دن مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ کی حفاظت کرنی ہے۔ یہ اس کی تقدیر ہے اور ترکیہ والوں کی بھی۔ مسلم برصغیر اور ترکوں کے بارے میں عالی جناب نے یہ ارشاد تب کیا تھا‘ جب ہندوستان میں ایک بھی مسلمان موجود تھا ۔ترکی نام کا کوئی ملک تھا ہی نہیں۔
حسین حقانی کو اپنی قوم سے معافی مانگنی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو بھی۔ بے دردی سے جو سی آئی اے والوں کو ویزے جاری کرتی رہی۔ بلیک واٹر والے بھاڑے کے ٹٹووں کو بھی۔ ان مہ و سال میں پاک فوج کے جنرل مضطرب تھے۔ ہود بھائی ایسے لوگ واشنگٹن کا دفاع کرتے۔ عاصمہ جہانگیر بتایا کرتیں کہ مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک کوئی منطقی اساس نہیں رکھتا۔
حسین حقانی‘ انکل سام سے اپنی خدمات کا صلہ چاہتے ہیں‘ مزید کوئی ممتاز مقام۔ شاید ایک مشیر کا کردار۔ یہ سوال پریشان کرتا ہے کہ زرداری صاحب ہی نہیں مدتوں نوازشریف بھی ان کی سرپرستی کرتے رہے؛ اگرچہ آخرکار انہوں نے پنڈچھڑا لیا تھا۔ میمو گیٹ‘ اسامہ بن لادن کے قتل اور پاکستان میں سی آئی اے کے کردار کی جزئیات تک تحقیقات ہونی چاہئیں۔ جو بیت گیا‘ اس سے سیکھنا چاہیے۔ امریکی عزائم پر چوکنا رہنا چاہیے کہ ایٹمی پروگرام ان کا ہدف ہے۔ یہ وزیراعظم کی ذمہ داری ہے‘ جنرل باجوہ اور جنرل نوید مختار کی بھی۔
ملک ابتلا میں ہے۔ اس ابتلا سے گزر کر انشاء اللہ ایک دن وہ عظیم طاقت بنے گا۔ مستقبل کی تشکیل میں‘ جس کا جو بھی کردار ہے‘ اللہ دیکھ رہا ہے اور اس کے بندے بھی۔ کل ہر ایک کو حساب دینا ہو گا۔
خطرہ میر جعفر اور میر صادق ہی سے ہوتا ہے۔ ایسوں کو نظراندازکرنے والے بھی مگر اتنے ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ڈان لیکس ایسے واقعات کو بھلایا کیسے جا سکتا ہے؟ یہ ملک کوئی چراگاہ تو نہیں۔
پس تحریر : بہت دن چھٹی کر لی۔ دنیا ٹی وی سے ایک نیا پروگرام انشاء اللہ جلد شروع ہو گا۔ ناچیز کے علاوہ دو ممتاز اخبار نویس بھی شامل ہوں گے۔ انشاء اللہ

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved