تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     15-03-2017

وزارت خارجہ کے بابوؤں کے کمالات....!

ابھی کسی نے ٹوئیٹر پر حیرانی سے مجھ سے پوچھا ہے کہ پاکستان کا فارن سیکرٹری تو دنیا بھر میں پھیلے تمام سفیروںکا باس ہوتا ہے۔ وہ بھلا فارن سیکرٹری لگنے کے بعد دوبارہ پاکستان کا کسی ملک میں سفیر کیسے لگ سکتا ہے؟ 
اس کا اشارہ اعزاز چوہدری کی طرف تھا۔ نوجوان مجھ سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آیا دنیا کے دیگر ملکوں میں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ پہلے سیکرٹری خارجہ ہوں اور جو سفیر آپ کے نیچے کام کر رہا ہو، آپ اگلے دن اس کے نیچے کام پر لگ جائیں۔ کیا ذاتی اخلاقیات یا پروفیشنل ایشوز کی کوئی وقعت نہیں رہی؟ اعزاز چوہدری اس وقت ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں اور اب انہیں امریکہ میں پاکستان کا سفیر لگا دیا ہے۔ اب وہ اپنی جونیئر تہمینہ جنجوعہ کے نیچے کام کریں گے۔
ویسے حیران نہ ہوں یہ کام اکثر ہوتا ہے۔ شاید لوگوں کو بھول گیا ہو آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت اپنے بعد جنرل علی قلی کو آرمی چیف لگانا چاہتے تھے۔ جنرل کرامت، جنرل مشرف سے چڑتے تھے۔ دونوں کے ایک دوسرے سے بہت سخت ایشوز تھے۔ جونہی جنرل مشرف آرمی چیف لگے کچھ عرصے بعد وہی جنرل جہانگیر کرامت جن سے جنرل مشرف کئی درجے جونیئرتھے، ان کے نیچے امریکہ میں سفیر لگ گئے۔ جنرل مشرف تو چھوڑیں، جہانگیر کرامت دوبارہ گریڈ بائیس کے ایک سیکرٹری خارجہ کے نیچے کام کررہے تھے۔ جنرل کرامت کو جنرل مشرف کے نیچے لگ کر کیا فرق پڑگیا تھا کہ آج اعزاز چوہدری کو پڑجائے گا ؟ ہر کسی کو صرف پوسٹنگ چاہیے‘ چاہے اپنے جونیئرکے نیچے ہی کیوں نہ ہو۔ جو کل تک آپ کو باس کہتے تھے‘ اب آپ ان کو باس کہیں گے، کیا فرق پڑتا ہے۔ 
اعزاز چوہدری‘ جب تک فارن سیکرٹری رہے‘ ان کے دور میں پاکستان کی فارن پالیسی کا معیار بہت نیچے گیا۔ فارن آفس ایک ڈاک خانہ بن کر رہ گیا ہے۔ فارن آفس کی حالت دیکھیں کہ وزیراعظم نے اپنے ایک پرانے بنکر دوست کے بیٹے کو قطر میں گیس ڈیل سے پہلے سفیر لگانے کا فیصلہ کیا۔ وہ موصوف برطانوی شہری ہیں۔ اس پر فارن آفس سے سمری بھجوانے کی بجائے طارق فاطمی کے ایک تحریری نوٹ پر اس نوجوان کو قطر میں سفیر لگا دیا گیا۔ فارن آفس میں جرأت نہ ہوئی کہ اس پر کوئی احتجاج کرتا۔ حالانکہ توقیر صادق کی مشکوک تعیناتی پر یوسف رضا گیلانی کے خلاف ایک ریفرنس بنا جس میں پانچ فیڈرل سیکرٹریز بھی ملزم ٹھہرے۔ اعزاز چوہدری کے دور میں ہی بدترین سکینڈل سامنے آیا جب اربوں روپے کا ایک دس کنال کمرشل پلاٹ فارن آفس کی این جی او جس کو سفیر صاحب کی بیگم چلارہی تھیں‘ نے ایک پرائیویٹ سکول کے مالک کو مفت میں دے دیا۔ اس نے اس پلاٹ سے پہلے تین لاکھ روپے این جی او کو عطیہ دیا اور یہ جا وہ جا ۔ اس طرح پاکستان میں غیرملکی سفارت خانوں سے این جی او کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کا کام شروع ہوا۔ طارق فاطمی کی بیگم ایم این اے تو اتنی خوش قسمت نکلیں کہ ان کی این جی او کو جاپان نے ستر لاکھ روپے فوراً ادا کر دیے۔ اعزاز چوہدری کی بیگم نے بھی غیرملکی سفارت خانے سے اکٹھے کیے گئے لاکھوں روپوں میں سے تین لاکھ روپے اپنے خاوند اعزاز چوہدری کے باس طارق فاطمی کی بیگم کی این جی او کو ان کے حصہ کے طور پر پیش کیے جو شکریہ کے ساتھ قبول کر لیے گئے۔ 
جب میں نے سکینڈل بریک کیا تو معاملہ سینیٹ کی کمیٹی برائے کابینہ تک پہنچا ۔ اس کے چیئرمین سینیٹرطلحہ محمود اس بات کیلئے معروف ہیں کہ پہلے وہ ہر سکینڈل پر تیزی دکھاتے ہیں ۔ جب سکینڈل زدہ لوگ ان سے ملاقات کرلیں تو پھر وہ ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں ۔ سینیٹر طلحہ محمود نے جس طرح کا حال اربوں روپے کے اس پلاٹ سکینڈل کا کیا ہے اس کے لیے افسوس جیسے الفاظ بہت معمولی ہیں۔ سابق سینیٹر سعدیہ عباسی نے اس پر ایک احتجاجی خط چیئرمین سینیٹ تک کو لکھا۔ دو سال ہونے کو ہیں ۔ طلحہ محمود نے ابھی تک اپنی کمیٹی سے فارن آفس کے بابوئوں اور ان کی بیگمات کے اس بڑے سکینڈل کو دبا کر رکھا ہوا ہے اور کوئی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ۔ لطیفہ یہ بن گیا ہے کہ سکینڈل میں پھنس گئے ہو تو طلحہ محمود سے مل لو سب ٹھیک کردیں گے ۔ 
تاہم داد دینا ہوگی چند سینیٹر ممبران کو جن میں کلثوم پروین، یوسف بادینی، کامل علی آغا شامل ہیں جنہوں نے اب تک فارن آفس کے اس سکینڈل پر کمیٹی کے چیئرمین طلحہ محمود کو مٹی نہیں ڈالنے دی ۔ کیسے کیسے لوگ کہاں پہنچ کر ہماری قسمتوں کے فیصلے کرتے ہیں۔ اگر یہ دیکھنا ہو تو سینیٹر طلحہ محمود کو دیکھ لیں اور اس سکینڈل کی روداد پڑھ لیں کہ موصوف نے کتنے پینترے بدلے ہیں۔ سب کا ثبوت میرے پاس موجود ہے۔
ہماری کرپٹ ایلیٹ مل جل کر راج کررہی ہے اور جب یہ باتیں باہر نکلتی ہیں تو پھر حکومت کے وزرا ناراض ہوتے ہیں کہ ان کا میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے اور اس کے خلاف ایکشن ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ جو حکومت اعزاز چوہدری، طارق فاطمی اور ان کی بیگمات کی این جی اوز وغیرہ کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتی اور انہیں جیل بھیجنے کی بجائے انہیں بڑے بڑے عہدوں سے نوازتی ہے وہ کس منہ سے میڈیا کے خلاف کارروائی کی دھمکی دیتی ہے؟ اگر ان سب کے خلاف سکینڈلز میں ملوث ہونے پر حکومت کارروائی کرتی تو یہی میڈیا اور سوشل میڈیا ان کی تعریف کرتا کہ حکومت نے غلط لوگوں کو ان کے غلط کام پر سزا دے کر اچھی روایت قائم کی۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ لوگ کرپشن بھی کریں، کرپٹ لوگوں کو ترقیاں دے کر اعلیٰ عہدے بھی دیں اور الٹا دھمکیاں دیں کہ کارروائی ہوگی ۔ اگر آپ لوگوں میں اتنی جرأت ہے تو پھر آپ ان کے خلاف کارروائیاں کریں جن کے بقول آپ کے پاس ہزاروں ثبوت ہیں۔ چوہدری نثار علی خان کیوں ان فائلوں کو دبا کر بیٹھے ہیں جن پر انہیں کارروائی کرنی چاہیے۔ ایف آئی اے کی وہ فائل چوہدری نثار نے کیوں چھپا کر رکھی ہوئی ہے جس میں ان ہزاروں طاقتور پاکستانیوں کے نام تھے جنہوں نے سمند پار پاکستان سے منی لانڈرنگ کر کے جائیدادیں خریدیں اور ایف آئی اے نے اجازت مانگی کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اس پر دو برس سے خاموشی ہے۔ 
ویسے ہمیں دھمکیاں دینے کی بجائے جو فائلیں آپ نے پیپلز پارٹی کو بلیک میل کرنے کے لیے رکھی ہوئی ہیں ان پر ایف آئی اے کو کہیں کہ کارروائی کرے۔ جو لوگ کرائسز مینجمنٹ سیل کے کروڑوں روپے، سیکرٹ فنڈز سے لندن کی ٹکٹیں، سیر سپاٹے، اپنی سیکرٹری کو دو کروڑ روپے کیش اور پنڈی کی جیولری شاپ سے ہیرے جواہرات اور زیورات خرید کر تحائف کے طور پر بانٹتے رہے ان کے خلاف کارروائی کریں یا پھر اگر چوہدری نثار میں جرأت ہے تو پھر خانانی اینڈ کالیا سکینڈل میں پیپلز پارٹی دور کے جن دو بڑوں نے ایک ارب روپے لے کر اس سکینڈل کی فائلیں غائب کی تھیں ان کے خلاف کارروائی کرکے دکھائیں اور عدالتوں اور میڈیا کو ڈرانا بند کریں! 
سب کو پتہ ہے ماضی کی طرح آپ نے ڈیل کر کے ایک دفعہ پھر بھاگ جانا ہے، مصیبت اسی میڈیا نے ہی بھگتنی ہے جس کو آپ آج دھمکا رہے ہیں۔ پھر یہی وزیر نئے بادشاہ کا خطبہ پڑھ رہے ہوں گے ۔
چلتے چلتے ایک دفعہ پھر فارن آفس کو بدترین لیول پر چھوڑ کر جانے اور اربوں روپے پلاٹ کے سکینڈلز میں گھرے اعزاز چوہدری کو داد دینا چاہتا ہوں جو پہلے پروموشن لے کر فارن سیکرٹری لگے اور اب خود ہی اپنی تنزلی کر کے دوبارہ سفیر لگ گئے ہیں ۔جنہیں کٹہرے میں ہونا چاہیے وہ امریکہ میں ہمارے سفیر لگ گئے ہیں۔ 
ماشاء اللہ ‘کیا ترقی ہے، کیا تنزلی ہے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved