تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     15-03-2017

منبرومحراب کا بیانیہ

ٹام حسین عرب امارات کے ایک بڑے اخبار کے لیے اسلام آباد میں کام کرتے ہیں اور میں ان کی ماتحتی میں کئی سال کام بھی کرچکا ہوں اس لیے وہ مجھ پر حکم چلانے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ دوہزار تیرہ کے انتخابات کے بعد ایک روز مجھے ٹام حسین کا فون آیااور بغیر کسی تمہید کے انہوں نے اپنی انگریزی نما پنجابی میں پوچھا، ''دہشت گردی کے خلاف نواز شریف کی حکمت عملی کیا ہوگی، مذاکرات یا آپریشن؟‘‘۔ میں نے عرض کیا کہ میں حکومت کے قریب ہوں نہ نواز شریف کے اس لیے کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں۔ انہوں نے چند ناقابل اشاعت الفاظ انگریزی میںادا کر کے میری سہولت کے لیے ان کا پنجابی میں ترجمہ کیا اور فرمایا، '' میں تم سے تمہاری قربت کے بارے میں نہیں پوچھ رہا بلکہ ایک صحافی کے طور پر پوچھ رہا ہوں کہ نواز شریف کی ماضی کی دو حکومتوں کی روشنی میں وہ دہشت گردی سے کیسے نمٹیں گے؟‘‘ ان کا سوال واضح ہوا تو میں نے عرض کی کہ نواز شریف امن و امان کے معاملات کو سفید اور سیاہ کی طرح واضح دیکھتے ہیں، ان کا ماضی گواہ ہے کہ امن و امان کو ایک خالص قانونی اور انتظامی مسئلہ سمجھتے ہیں اس لیے وہ فلسفیانہ موشگافیوں یا بیانیے کی کسی بحث میں نہیں پڑتے بلکہ تھوڑا بہت سمجھانے کے بعد سیدھے انتظامی اقدامات کی طرف چلے جاتے ہیں ، انہوں نے سندھ میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کیا، کراچی میں آپریشن کیا، فرقہ واریت پر قابو پانے کے لیے سخت عدالتی اور انتظامی اقدامات کیے اور کسی سیاست کو خاطر میں نہیں لائے۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ مذہبی شدت پسند گروہوں سے ان کے مذاکرات مختصر ہوں گے اور ان گروہوں نے جلد ہی کوئی مثبت فیصلہ نہ کیا تو انہیں فوجی آپریشن کا سامنا کرنا پڑے گا ‘‘۔ میری بات سن کر ٹام بولے ، میں تمہاری یہ بات اپنی سٹوری میں شامل کررہا ہوں ، کل اخبار دیکھ لینا۔ یہ کہہ کر انہوں نے فون بند کیا اور میں اپنے کام میں لگ گیا۔ اگلے روز عرب امارات کے اس اخبار میں ان کی جو سٹوری چھپی اس میں نواز شریف حکومت کے بارے میں میرے اندازے کو بنیاد بنا کر ہی سرخی جمائی گئی تھی اور جلد ہی دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی توقع بھی کی گئی تھی۔ میرا یہ اندازہ پونے چار سال تک درست رہا ۔ مذاکرات، آپریشن، نیشنل ایکشن پلان اور مزید فوجی آپریشنز کا سلسلہ چلتا رہا اوردہشت گرد شکست کھاتے پیچھے ہٹتے رہے۔ پونے چار سال بعد چند دن پہلے گیارہ مارچ کو غلط ثابت ہوا جب میں نے جامعہ نعیمیہ میں وزیراعظم کو یہ کہتے سنا، ''دہشت گردی مذہب کی غلط تاویل کی وجہ سے جنم لیتی ہے ، اس لیے اس کے خلاف بیانیہ بھی منبرو محراب سے آنا چاہیے‘‘۔ وزیراعظم نے دہشت گردی کو قانونی اور انتظامی سطح سے اٹھا کر ایک فلسفیانہ مسئلہ قرار دے دیا تھا۔ یہی وہی غلطی تھی جو پیپلزپارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں کی تھی اور فلسفیانہ بحثوں میں وقت ضائع کرکے دہشت گردوں کو عوام کا خون بہانے کے لیے چھوڑ دیا تھا۔ وزیراعظم نے بھی (امید ہے کہ نادانستہ!) فلسفے کے اسی جال میں پاؤں رکھ کر دو غلطیوں کا ارتکاب کیا ہے، جن میں سے ایک واقعات کی ہے اور دوسری استدلال کی۔ 
واقعاتی غلطی یہ ہے کہ منبرومحراب کے اکابرین اور حکومت کے اہلِ حل و عقد نے سات ستمبر دوہزار پندرہ کو ایک اجلاس وزیراعظم ہاؤس میں منعقد کیا تھا جس میں مفتی منیب الرحمٰن ، مفتی محمد تقی عثمانی، قاری حنیف جالندھری، مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفر اور مولانا عبدالمالک پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ذمے دہشت گردی کے خلاف بیانیے کی ترتیب تھا۔ مفتی منیب الرحمٰن اور قاری حنیف جالندھری نے بیانیے کا ابتدائی مسودہ بنا کر مدارس کے تمام وفاقوں کو بھیجا جنہوں نے اس میں ترامیم کیں اور یوں ایک حتمی مسوّدہ بنا کر نیکٹا کے کوآرڈینیٹر احسان غنی اور اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کو بھیج دیا گیا۔ اس کے بعد یہ بیانیہ کہاں گیا‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں ۔ اس بیانیے کے سارے نکات مفتی منیب الرحمن نے روزنامہ دنیا میں چھپنے والے کالموں میں وضاحت کے ساتھ بیان بھی کردیے اور ساتھ یہ اطلاع بھی دی کہ علماء کے اس بیانیے میں حکومت کو نفاذ شریعت کے لیے اقدامات کی تجویز پسند نہیں آئی لہٰذا ایک نئے بیانیے کی خواہش سامنے آگئی ہے۔ غالباًحکومت یہ چاہتی ہے کہ صاحبانِ منبرومحراب اپنے ہاتھوں سے نفاذ شریعت کی دفعہ اس بیانیے سے نکال دیں، جو علماء ایسا کرسکتے ہیں ظاہر ہے وہ منبر ومحراب کی طرف واپس نہیں لوٹ سکتے اس لیے ان کا آخری ٹھکانہ حکومت ہی ہوگی، جس کی وہ تیاریوں میں مصروف بھی ہیں۔ 
وزیراعظم کے استدلال کی غلطی یہ ہے کہ دہشت گردی کوئی فلسفہ نہیں بلکہ گھناؤنا جرم ہے اورارتکابِ جرم کے خلاف ریاست کا بیانیہ نفاذِقانون کے سواکچھ نہیں ہوتا۔ یہ اتنی عیاں حقیقت ہے کہ نظر سے اوجھل نہیں ہوسکتی ، فراموش کردی جائے تو دوسری بات ہے۔ جرم ایک انفرادی یا زیادہ سے زیادہ گروہی فعل ہے جبکہ قانون معاشرے کا متفقہ منشور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مجرم جب اپنے انفرادی ''بیانیے‘‘ کے مطابق جرم کرگزرتا ہے تو معاشرے کے متفقہ بیانیے کے مطابق سزا پاتا ہے، معاشرے اور ریاست کی قائم کردہ عدالت مجرم کے ''بیانیے ‘‘ کو موضوع بنا کر اس سے فلسفیانہ بحث میں نہیں الجھتی بلکہ اسے طے شدہ اصولوں پر عمل کرتے ہوئے مناسب سزا دیتی ہے۔اگر جرم کے خلاف اور خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف بیانیے کی ضرورت اتنی شدید ہے تو یہ صرف مذہبی دہشت گردی تک ہی محدود کیوں رہے۔ کیا بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کا حق نہیں کہ حکومت ان پر گولیاں برسانے کی بجائے فلسفیانہ گفتگو فرمائے؟ پھر کراچی میں ایس ایس پی راؤانوار جیسے پولیس مقابلہ سپیشلسٹ کی بجائے معاملات کراچی یونیورسٹی کے شعبہء فلسفہ کے اساتذہ کو کیوں نہ سونپ دیے جائیں جو پانی کے ٹینکوں اور قبرستانوں میں اسلحہ چھپانے والوں پر ان کی منطق کا تضاد واضح کرنے کو کافی سزا سمجھیں؟ بات یہیں تک کیوں رکے، بھوک کے نام پر چوری، غیر ت کے نام پر قتل، ضرورت کے نام پر آمریت بھی کیوں نہ جائز قرار دے دیے جائیں کہ بھوک، غیرت اور ضرورت تو تعزیرات ِ پاکستان کے مقابلے میں کہیں طاقتور فلسفے اور جدید اصطلاح میں ''بیانیے ‘‘ ہیں۔ 
بیانیے کی بحثوں میں الجھنے کی بجائے اگر ہم اپنی توجہ دہشت گردوں کی سرکوبی اور اپنے قانونی نظام کی اصلاح پر مرکوز رکھیں تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پاکستان دہشت گردی سے پاک ملک بن کر ابھرے گا۔ اگر ہم نے دہشت گردوں کو نظریاتی سمجھ کر انہیں سیاسی کارکنوں کا درجہ دے دیا تو ہم اپنے لیے جہنم کے دروازے کھولنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے۔فوجی عدالتوں کو مذہبی دہشت گردوں کے لیے مخصوص کرکے ہم پہلے ہی یہ پیغام دے رہے ہیں کہ غیر مذہبی دہشت گردوں کو عام عدالتوں کی 'رعایت‘بدستور حاصل رہے گی۔ دہشت گردوں کو خانوں میں بانٹ کر دیکھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ پیچیدہ ہوگا۔ وزیراعظم کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کہیں ان کے حلقۂ دوستاں میں شامل ''بیانیہ دانشور‘‘ بیانیے ،بیانیے کی رٹ لگا کر دہشت گردی کی آڑ میں براہ راست منبر و محراب کو ہی تو نشانہ نہیں بنانا چاہتے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved