تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-03-2017

غور کرنے والوں کے لیے نشانی ہے

کوئی چیز‘ کوئی واقعہ‘ کوئی شخص الگ سے ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ سب کچھ زندگی سے پھوٹتا اور اسی میں مدغم ہوتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں۔ 
کچھ ایسی غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں کہ معافی ان کی ممکن نہیں ہوتی‘ تلافی کرنا پڑتی ہے۔ قیمت چکانا ہوتی ہے۔نون لیگ کے رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف نے مراد سعید کے بارے میں‘ اس خاندان کی معزز و محترم خواتین کے بارے میں جو کچھ کہا‘ وہ ناقابل فراموش ہے۔ یہی نہیں‘ چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ تحریک انصاف کے جواں سال لیڈر کو قصور وار ٹہرانے کی شرمناک کوشش کی۔ عیاری کے ہمالیہ پر کھڑے ہو کر ارشاد کیا کہ وہ انہیں معاف کرتے ہیں۔ کیا جناب جاوید لطیف نے قومی سیاست کو گندگی کا ڈھیر سمجھ لیا تھا؟بلکہ اس سے بھی کم تر۔ جملہ ایسا نہیں کہ نقل کیا جا سکے۔ ان کے نزدیک پاکستانی سیاست میں کوئی بھی عزت کا مستحق ہی نہیں۔ قومی اسمبلی ایسے آدمی کو گوارا کیسے کر سکتی ہے؟۔ اس ایوان کی اگر کوئی عزت وحمیت ہے اور یقیناً ہے۔ اگر زندگی کی کوئی رمق اس میں باقی ہے ‘ خیال ہے کہ باقی ہے تو اس آدمی کو اسے اگل پھینکنا ہو گا۔ 
چیزوں کہ سمجھنے کا ایک طریق یہ ہے کہ دوسرے کی جگہ آدمی کھڑا ہو جائے۔ مشکل بہت ہے مگر ادراک میں ایسی آسانی اور کسی چیز سے نہیں ہوتی۔ فرض کیجئے‘ یہی بات تحریک انصاف کے کسی لیڈر نے میاں محمد نوازشریف کے بارے میں کہی ہوتی؟ ظاہر ہے کہ ایک طوفان اٹھ چکا ہوتا۔ اس سے کہیں زیادہ‘ جو اس وقت برپا ہے۔ایک کے بعد دوسرا اخبار نویس چیخ رہا ہے کہ میاں صاحب مکّرم فیصلہ صادر کریں۔ محترمہ مریم نواز ردعمل ظاہر کریں۔ وہاں مگر ایک اٹوٹ سناٹا! کیا یہ بے حسی کو چھوتی ہوئی بے نیازی نہیں؟ جی نہیں‘ کوئی اسے گوارا نہ کرے گا۔ کتنی ہی مجبور اور بے بس ہو‘ ایسی بھی گئی گزری یہ قوم نہیں کہ اتنی بڑی گالی گوارا کرے۔ جب تک میاں صاحب اقدام نہ کریں گے‘ واقعہ کا ذکر ہوتا رہے گا۔ تعفن اٹھتا رہے گا۔ ایک کے بعد دوسرے ٹی وی پروگرام کی طرف سے بائیکاٹ کا اعلان ہوتا رہے گا۔ نقصان نون مسلم لیگ کو پہنچتا رہے گا۔ بہت مشکل ہو گا کہ آئندہ الیکشن میں میاں صاحب اس آدمی کو پارٹی کا ٹکٹ دے سکیں۔ دیا گیا تو میڈیا شور مچائے گا۔ ساکھ ان کی مجروح ہو گی۔ امیدوار جیت نہ سکے گا۔ بہ فرضِ محال جیت گیا تو پارٹی کے لیے ناسور کا سا طعنہ بن کر رہے گا۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے ہنگام محترمہ مریم نواز کے بارے میں بعض خواتین رہنمائوں نے بے تکی ہانکی تو کس نے ان کا دفاع کیا تھا؟ اس ناچیز اور کچھ دوسرے اخبار نویسوں نے۔ احسان نہیں کیا‘ ہم نے اپنا فرض پورا کیا تھا۔ اب بھی کریں گے‘ انشاء اللہ!
بہترین یہ ہے کہ جاوید لطیف قوم سے معافی مانگیں اور سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیں۔ قوم انہیں معاف کر دے گی۔ زخم مندمل ہونے لگے گا۔ نون لیگ کی اخلاقی پوزیشن بحال ہوتی جائے گی۔ پھر دبائو کا آغاز تحریک انصاف پہ ہو گا کہ شائستگی اختیار کرے۔
میاں صاحب نے یہ پہلو نظرانداز کیسے کر دیا کہ واقعہ پر‘ زیادہ شدید احتجاج‘ ان اخبار نویسوں نے کیا‘ عمران خان کے جو ناقد ہیں اور مستقل ناقد۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قوم میں زندگی کے آثار باقی ہیں۔ وہ پلٹ سکتی ہے‘ نشوونما پا سکتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی وقت بالیدگی بھی حاصل کر لے۔ اس کا ادبار تمام ہونے لگے۔ اس کی شادابی لوٹ آئے۔ عظمت کی آرزو وہ پال سکے۔
بے سبب اقبالؔ کو ''حکیم الامت‘‘ کا لقب نہیں دیا گیا۔ ایک صدی ہوتی ہے‘ جب انہوں نے کہا تھا ؎
امید کیا ہے سیاست کے پیشوائوں سے
وہ خاک باز ہیں‘ رکھتے ہیں خاک سے پیوند
ممکن ہے‘ شاعر کو احساس ہوا ہو کہ پوری بات وہ کہہ نہیں سکا پھر کسی اور کردار کی زبان سے کہلوایا ؎
ابلیس کے فرزند ہیں ارباب سیاست
اب باقی نہیں میری ضرورت تہہِ افلاک
برصغیر میں سیاسی عمل کا آغاز ہوا تو اس امر کی پرواہ نہ کی گئی کہ سماج کا بہتر عنصر بروئے کار آئے۔ کیوں استعمار اس کے لیے فکر مند ہوتا؟۔ ادنیٰ لوگ انہیں سازگار تھے۔ جھاڑ جھنکار اگا تو فکری رہنمائی کے دعویداروں نے بھی غور و فکر سے گریز کیا۔ ماتم اگرچہ کرتے رہے۔ تب کیا‘ اب بھی سوچ بچار اس موضوع پر نہیںکہ معاشرے کو اپنے رہنما کا انتخاب کیسے کرنا چاہیے؟
فرمایا : سیّد القوم خَادمہم:۔ قوم کا خادم‘ اس کا رہنما ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں قائد کی خصوصیات کے بارے میں ارشادات ہیں : صاحبِ علم‘ شائستہ کلام‘ صحت مند اور ایثار کیش آدمی۔ قیادت کیا‘ لوگوں کی ایک بڑی تعداد‘ پیروی کی بھی پوری طرح اہل نہیں ہوتی۔ صحیح بخاری میں حدیثِ رسولِ اکرمؐ ہے : لوگ کیا ہیں‘ اونٹوں جیسے‘ سینکڑوں میں سے‘ ایک بھی سواری کے قابل نہیں۔
فرمایا : دوسروں کے بتوں کو برا نہ کہو کہ تمہارے پروردگار پہ زبانِ طعن دراز کریں۔ جاوید لطیف کے ساتھ جو لوگ مراد سعید کی مذمت کے درپے ہیں‘ معاف کیجئے‘ انصاف سے کام نہیں لے رہے۔ مراد اگر صبر کرتے۔ احتجاج میں کامل شائستگی کو ملحوظ رکھتے تو ان کا قد بالا ہوتا۔ ایسے میں یہ امید مگر کتنے لوگوں سے کی جا سکتی ہے؟ کھردرے ماحول کے لیے کپتان بھی قصور وار ہے مگر جو لوگ یک طرفہ عمران خان کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں‘ وسیع تر پس منظر کو وہ نظراندازکرتے ہیں۔ یہ نون لیگ کی حکومت تھی‘ جس نے جمائما خان پہ نادر ٹائلوں کی سمگلنگ کا جھوٹا مقدمہ بنایا‘ حتیٰ کہ سال بھر وہ پاکستان نہ آ سکی۔ یہ وہی تھے‘ جنہوں نے پولیس کے ذریعے تحریک انصاف کے دفاتر بند کیے۔ ان کے بینر اتارا کرتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ عمران خان میں انتقام کا جذبہ طاقتور ہوتا گیا۔ اگر وہ معاف کر سکتا تو سیاست دان سے بڑھ کر ولی اللہ ہو جاتا۔ نظرانداز کر سکتا تو قائداعظمؒ کی یاد تازہ ہو جاتی۔ وہ مگر ایک فاسٹ بالر ہی تو ہے۔
معاشرے کا المیہ ہے کہ اپنے لیڈر وہ چنتا نہیں‘ اس پر مسلّط ہو جاتے۔ دو یا تین عدد ناقص لیڈروں میں ایک کو زرداری صاحب‘ دوسرے کو میاں صاحب یا مولانا فضل الرحمن نے ٹکٹ دیا ہے۔ جی نہیں‘ قرینہ یہ نہیں‘ بالکل برعکس ہے۔ ہر حلقہ انتخاب میں پارٹی کے مقامی وفود Delegates امیدوار چنتے ہیں۔ بعض اوقات جماعت سے اس کا تعلق تک نہیں ہوتا‘ جیسے کہ ڈونلڈ ٹرمپ‘ جیسے کہ بہت سے دوسرے۔ پاکستان میں پارٹیاں نہیں‘ لیڈر پائے جاتے ہیں۔ قائداعظمؒ آخری آدمی تھے جنہوں نے مسلم لیگ کو جماعت بنانے کی کوشش کی۔ بوڑھا بیمارآدمی‘ ایک نیا ملک بنانے کی تحریک اور اس کے ہنگام بے پناہ جذباتیت۔ اس کے باوجود پارٹی میں الیکشن ہوا کرتے اور قاعدے قرینے سے۔ ایک آدھ استثنیٰ مثلاً جماعت اسلامی کے سوا‘ اب یہ لیڈر پہ ہوتا ہے کہ جسے چاہے‘ ٹکٹ بخش دے۔ کوئی قاعدہ نہ قانون کوئی ریکارڈ نہ معلومات۔
نتیجہ ظاہر ہے کہ جاوید لطیف جیسے لوگ ایوانوں میں جا پہنچتے ہیں۔ لیڈروں کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ اس طرح کے کارندے ہم پر مسلّط کریں؟بجائے خود بیماری نہیں‘ وہ معاشرے کی علالت کے مظہر ہیں۔ غور کیا جائے تو بہت سے سبق اس واقعہ میں پوشیدہ ہیں۔ جاوید لطیف تو کوئی پڑھے لکھے‘ ذمہ دار آدمی نہیں‘ سرکاری پارٹی میں‘ دوسری جماعتوں میں‘ قومی اسمبلی اور سینٹ میں دوسرے تو ہوں گے‘ تدّبر انہیں تو کرنا چاہیے۔ رہے سرکاری اخبار نویس تو اس کے سوا اور کیا عرض کیجئے ؎
ہوسِ لقمۂ تر کھا گئی لہجے کا جلال
اب کسی حرف کو حرمت نہیں ملنے والی
اللہ کے سوا‘ جب کسی کو رزّاق سمجھ لیا جائے تو کیسی تب و تاب اور کہاں کا کلمۂ حق!
کوئی چیز‘ کوئی واقعہ‘ کوئی شخص الگ سے ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ سب کچھ زندگی سے پھوٹتا اور اسی میں مدغم ہوتا ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں۔ 
پس تحریر : جاوید لطیف کے معاملے پر مستقل اور موثر دبائو کے لیے‘ اگر تحریک انصاف حکمتِ عملی تشکیل نہیں دے سکتی‘ تو ہرگز وہ ایک سیاسی پارٹی نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved