امریکہ میں صدر ٹرمپ کے حامی اس بات پر بہت خوش دکھائی دیتے ہیں کہ صدر نے America firstیعنی سب سے پہلے امریکی مفاد کا نعرہ لگا کر ایسے اقدامات کا آغاز کر دیا ہے جس سے عنقریب وہاں امریکیوں کے حالات زندگی بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ ہم لوگ پاکستان میں چونکہ سابق صدر مشرف کے دور میں سب سے پہلے پاکستان( Pakistan First)کے نعرے کے اثرات دیکھ چکے ہیں اس لیے ہمیں کچھ باتیں ذرا زیادہ صاف دکھائی دے رہی ہیں۔ ویسے بھی ہم امریکہ کو دور سے دیکھتے ہیں اور اس طرح فاصلے سے اگر مشاہدہ کیا جائے تو چیزیں نسبتاً بہتر طور پر دیکھی جا سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر مجھے صدر ٹرمپ کے ابتدائی اقدامات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ امریکہ فرسٹ کے لیے نہیں بلکہ عوامی جمہوریہ چین کے مفاد کے لیے کام کر رہے ہیں۔
اس بات کو تو چھوڑیں کہ جنوری میں ورلڈ اکنامک فورم کے سوئٹزر لینڈ کے شہر Davosمیں ہونے والے اجلاس میں امریکہ کا کوئی اعلیٰ سطح کا نمائندہ موجود نہیں تھا جبکہ وہاں چین کی نمائندگی اس ملک کا صدر بذات خود کر رہا تھا کیونکہ جس وقت یہ اجلاس ہوا ٹرمپ نے ابھی حلف نہیں اٹھایا تھا لیکن قبل از حلف بھی اگر موصوف چاہتے تو وہاں اپنے کسی نہ کسی اہم نمائندے کو بھجوا سکتے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور ظاہر ہے اس برس ورلڈ اکنامک فورم پر عوامی جمہوریہ چین کا غلبہ رہا۔ اور پھر
چینی صدر کی تقریر میں عالمی تجارت میں Protectionismکی نفی کی گئی جبکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ صدر ٹرمپ Protectionismکا ایجنڈا لے کر وارد ہوئے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے حوالے سے دیکھا جائے اور اس صورت حال کو مبصرین کی نظر سے بھی دیکھا جائے تو لازماً دکھائی دے گا کہ وہاں امریکہ عالمی قیادت کا علمبردار ہونے کا محض دعویدار رہ گیا جبکہ چین عملی طور پر Davosمیں عالمی قیادت کا علمبردار دکھائی دیا ۔اس واقعے کے بعد دوسرا واقعہ جو چین کے حق میں گیا وہ صدارتی حلف اٹھانے کے چند دن بعد صدر ٹرمپ کا یہ اعلان تھا کہ وہ ایشیا بحرالکاہل کے 12ملکوں کے ساتھ تجارتی معاہدے کی بات چیت سے امریکہ الگ کر رہے ہیں۔ اس معاہدے کا نام Trams Pacific Partnershipہے جو TPPکہلاتا ہے۔ اس میں آسٹریلیا ملائشیا جاپان اور ویت نام جیسے اہم ممالک شامل تھے جبکہ چین کو قصداً اس معاہدے سے باہر رکھا گیا تھا۔
آپ خود سوچ لیں کہ ایک ایسا ممکنہ معاہدہ جس میں چین شامل نہیں تھا اور ایشیا بحرالکاہل کے بارہ ممالک امریکہ کی قیادت میں شامل تھے‘ اس سے علیحدہ ہونا کیا امریکہ کو فائدہ دے گا یا چین کو۔ یہ ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام چین کے لیے انتہائی نیک فال ثابت ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ کہتے تو یہی رہے ہیں کہ وہ چین کے بارے میں سخت پالیسیاں اختیار کریں گے مگر عملاً انہوں نے اتنے اہم علاقے میں قیادت عوامی جمہوریہ چین کو سونپ دی ہے۔ اب چین اپنی مرضی سے ان ملکوں کے ساتھ معاہدے کر سکے گا اور ممکن ہے کہ چین نے TPPکے مقابلے میں جو ایک متبادل تجارتی معاہدے کا انتظام کر رکھا تھا اس میں ان ملکوں کی مرحلہ وار شمولیت ہو جائے۔ اب کچھ ذکر آسٹریلیا کا یہ ملک امریکہ کا ہمیشہ ایک اہم اتحادی رہا ہے اس وجہ سے چین کے زیادہ قریب نہیں باور کیا جاتا۔ اب ہوا یہ کہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے صدر ٹرمپ کو ٹیلی فون کیا اور یاد دلایا کہ صدر اوباما نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ وہ 1250کے قریب ان عراقی مہاجرین کو امریکہ میں داخلے کی اجازت دے دیں گے جو آسٹریلیا کے ساحلوں پر واقع خصوصی Detention centersمیں موجود ہیں۔ یہ سن کر صدر ٹرمپ غصے میں آ گئے اور انہوں نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم پر Shoutکرتے ہوئے کہا کہ مجھے ان مہاجرین کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور یکدم فون بند کر دیا۔ ایسا کرنا ویسے تو عام لوگوں کے درمیان بھی آداب کے خلاف ہوتا ہے مگر جب ایک طرف حکومت کا سربراہ ہو تو پھر یہ ایک طرح سے بے عزتی کرنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آسٹریلیا میں بڑے پیمانے پر امریکی صدر کا یہ انداز سخت ناپسند کیا گیا ہے ارو بعض لوگوں نے تو مبینہ طور پر اس بارے میں سوال اٹھانے شروع کر دیے ہیں کہ آخر ان کے ملک کو امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق رکھنے کا کوئی فائدہ بھی ہے یا نہیں۔
ظاہر ہے اب اگر آسٹریلیا کی تھوڑی بہت قربت چین کی طرف ہو جاتی ہے تو وہ کوئی تعجب کی بات نہ ہو گی۔ ماحولیات کی جو جنگ عالمی سطح پر جاری ہے اس سے بھی صدر ٹرمپ ہاتھ کھینچ چکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ چین کو اس میدان میں بھی لیڈرشپ مل جائے گی۔ پھر چینی بڑی سمجھدار قوم ہے۔ وہ گرین ٹیکنالوجی کے میدان میں چینیوں کے لیے روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ باتیں ہیں جو ذرا فاصلے پر ہونے کی وجہ سے ہمیں دکھائی دے رہی ہیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ غفلت کا شکار ہے اور America Firstکا نعرہ لگا کر بظاہر دنیا میں چین کو قائدانہ کردار ادا کرنے کی دعوت دے رہی ہے۔ چین کو جلد ایسی دعوت قبول کرنے پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟