آزادی کا حصول کٹھن ہوتا ہے مگر سفاک دشمنوں کی موجودگی میں اس کی بقا اور بھی مشکل۔ عزمِ صمیم کے علاوہ فکر و نظر کی راستی درکار ہوتی ہے، فکر و نظر کی راستی!
سی آئی اے کے ہزاروںکارندوں کو پاکستان کے ویزے جاری کرنے کی تحقیقات ہونی چاہیے مگر یہ کون کرے گا؟ وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے قرارداد پیش کی اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اتفاق کر لیا۔ کچھ سوالات مگر باقی ہیں۔ کیا اسمبلی میں ایسے ارکان موجود ہیں، جو اس طرح کی تفتیش کے اہل ہوں، تجربہ رکھتے ہوں؟
ایوان کے استحقاق نہیں، یہ صلاحیت کا سوال ہے۔ قانون کا ایک مسوّدہ ایوان میں موجود ہے، جس کا مقصود قومی سلامتی کے امور سے نمٹنا ہے۔ قانون سازی کی ضرورت واضح ہے۔ کیوں نہ آرڈی نینس جاری ہو، بعد میں باقاعدہ قانون۔
رحمٰن ملک کا ارشاد ہے کہ لگے ہاتھوں اسامہ بن لادن اور ڈان لیکس کی تحقیقات بھی کر لی جائیں۔ کتنے ہی اہم ہوں، یہ موضوعات اس معاملے میں کہاں سے در آئے؟ اسامہ سے میاں محمد نواز شریف کے تعلقات اس عہد کا قصہ ہیں، جب افغانستان میں آزادی کی جنگ جاری تھی۔ دنیا کی 122 اقوام پشت پر کھڑی تھیں۔ ملزم نہیں، اسامہ تب ایک ہیرو تھا۔ وہ لوگ جن کے بارے میں ریکارڈ شدہ امریکی تاریخ کے سب سے مقبول صدر رونالڈ ریگن نے کہا تھا: Moral equivalents of America's founding fathers۔ اخلاقی اعتبار سے امریکی آزادی کے ہیروز ایسی عظمت کے امین۔ ڈان لیکس پر الگ سے تحقیقات ہو چکی۔ سول ملٹری تحقیقات کو ہموار رکھنے کے لیے نئی فوجی قیادت فکرمند ہے؛ چنانچہ معاملے کو اٹھا ر کھا ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ گندگی قالین تلے دھکیل دی جائے۔ کہا گیا کہ کالم نگار کو سزا دی گئی تو اخباری دنیا ناراض ہو گی۔ سبحان اللہ، دلیل اگر یہ ہے تو دوسروں پر اطلاق کیوں نہ ہو۔ تاجر، صنعت کار، سیاستدان برادریوں، وکلا، ڈاکٹروں یا انجینئروں کو کمتر کیوں گردانا جائے۔ سرکار کا مسئلہ اپنے لوگوں کو بچانا ہے۔ باخبر لوگ جانتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کے قریبی لوگ قصوروار پائے گئے۔ ''ہمارے دو تین آدمی‘‘ تفتیش کرنے والوں میں سے ایک نے مجھے بتایا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ قومی سلامتی کے ضمن میں ہمارے اکثر لوگوں کا روّیہ غیر ذمّے دارانہ ہے۔
اخبار نویسوں میں ایسے ہیں، بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، برطانیہ اور امریکہ میں جو غیر محتاط پائے گئے۔ سرل المیڈا ان میں سے ایک ہے۔ انگریزی اخبارات میں قومی سلامتی کے تقاضوں کو مجروح کرنے والے مضامین ہی نہیں چھپتے‘ ساون کے اندھے اس پہ فخر بھی کرتے ہیں۔ صحافیوں نے این جی اوز بنا رکھی ہیں۔ ایک اخبار نویس اور این جی او؟ یعنی چہ؟... سیاستدانوں کا حال بھی مختلف نہیں۔
پانچ برس ہوتے ہیں، ایک متعصب بھارتی اخبار نویس کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خاں نے کہا: جنرل کیانی اور جنرل پاشا میرے ماتحت ہوں گے۔ سول اور فوجی قیادت کو متصادم کرنے اور پاک فوج کے خلاف نفرت پھیلانے والوں کے سامنے اس موضوع پر اظہارِ خیال کی ضرورت کیا تھی؟ ہمارے یہ داخلی معاملات ہیں۔ کیا کوئی بھارتی لیڈر پاکستانی صحافی سے ایسی گفتگو کرے گا؟ خان صاحب بھارت جا رہے تھے۔ فون پر پوچھا گیا کہ شام کے کھانے پر کس کس کو مدعو کیا جائے۔ کہا: کسی کو بھی۔ اتفاق سے یہ خاکسار وہاں تھا۔ عرض کیا: اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ بھی گزارش کی کہ ''را‘‘ والے تو نگران ہوں گے ہی، آئی ایس آئی بھی اندھی نہیں۔ الیکشن 2013ء سے قبل ایک دوسرے دورے سے واپسی پر کپتان نے بتایا: بھارتیوں نے مجھے وزیرِ اعظم کا پروٹوکول دیا۔ میں دنگ رہ گیا۔ لیڈر کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کا مدّعا کیا ہے۔
یہ نسبتاً محتاط آدمی کا روّیہ ہے، جو مرعوب کسی سے نہیں۔ بھارتی کاروباریوں سے وزیرِ اعظم براہِ راست مراسم رکھتے ہیں۔ ایک نہیں، پچھلی کئی حکومتوں نے دہلی کو موقع دیا کہ وہ پاکستانی سیاستدانوں، اخبار نویسوں، کاروباری اور ثقافتی طبقات کو ہموار کریں۔ ایک لیڈر کو سمجھانے کی کوشش کی: بھارت کی فلمی صنعت پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف پروپیگنڈے کا میدان ہے۔ صرف بھارتی نہیں، پاکستانی عوام کے ذہنوں میں بھی زہر اتارا گیا۔ موصوف نے سنی ان سنی کر دی۔ ان کے نزدیک یہ ایک سازشی کہانی تھی۔ غلیظ بھارتی فلمیں کیا ایک حقیقت نہیں؟
امریکہ اور اس کے زیرِ اثر یورپی یونین کے ممالک پاکستانی این جی اوز کو نقد امداد فراہم کرتے ہیں۔ ہماری بہبود کے لیے؟ جی نہیں، بھارت امریکہ کا تزویراتی حلیف ہے اور ظاہر ہے کہ اسرائیل بھی۔ مقبوضہ کشمیر کی ولولہ انگیز تحریک کو دبانے کے لیے اسرائیلی تعاون کوئی راز نہیں۔ ہمارے اخبار نویسوں، شاعروں، ادیبوں اور وکلا کو بھارتی ادارے کیا ازراہِ محبت مدعو کرتے ہیں؟
عینی شاہد کی گواہی ایک وزیرِ اعلیٰ تک پہنچائی کہ پنجابی کے جو 78 ادیب اور شاعر بھارت گئے تھے، ان میں سے 75 ''عالمِ پرواز‘‘ میں پائے گئے۔ وہ ٹھٹکے اور کہا: فلاں نے فہرست بنائی تھی۔ یہ صاحب پاکستان کے و جود پر یقین ہی نہیں رکھتے۔ محترمہ نصرت بھٹو سے رہ و رسم استوار کرکے وہ سینیٹر ہو گئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے آخری دورِِ اقتدار میں ایک ادبی ادارے کے سربراہ بھی۔ مولانا فضل الرحمٰن نے دہلی میں جب بنگلہ دیش، پاکستان اور بھارت کی فیڈریشن بنانے کی بات کی تو اس کی تحقیقات نہ کی گئی۔ عبدالصمد اچکزئی کئی سال کابل میں رہے۔ ایرانی انٹیلی جنس سے ان کے مراسم کی تحریری شہادت موجود ہے۔
اوّل دن سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی ایک طے شدہ حکمتِ عملی ہے کہ پاکستان کے جواز پر شکوک و شبہات پھیلائے جائیں۔ بنگلہ دیش اس لیے الگ ہوا کہ بنگالی قوم پرستی کو اجاگر کیا گیا۔ اوّل بنگالی دانشور، پھر سیاستدان اس کا شکار ہوئے۔ سندھو دیش اور پختونستان کے منصوبے اسی انداز میں بنائے گئے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک اسی طرح سینچی گئی۔ سرائیکی پٹی کے حقوق کا سو فیصد احترام لازم ہے۔ ''را‘‘ کو مگر فائدہ کیوں اٹھانے دیا جائے؟ اس کا ایک سیل پروپیگنڈے پر مامور ہے، افواہ ساز بھی۔ کے جی بی اور ''را‘‘ سے دیرینہ راسم رکھنے والی افغانستان کی تخریب کار ایجنسی این ڈی ایس بھی یہی کرتی ہے۔ پاکستانی اخبار نویسوں میں ایسے ہیں جو کابل، دبئی، دہلی، لندن اور نیو یارک میں وصولیاں فرماتے ہیں۔
دو طرح کے لوگ ہیں، فریب خوردہ اور کارندے۔ ایک کا علاج تعلیم و ادراک ہے، دوسرے کا سزا۔ ستم یہ ہے کہ نگرانی سرے سے نہیں۔ اللہ نے کرم کیا۔ پختونستان، سندھو دیش اور آزاد بلوچستان کی تحریکیں مر گئیں۔ ہم مگر اب تک ادراک نہیں کر سکے۔
جوانی میں تعلق رہا، جناب زرداری اصلاً اے این پی کی ذہنیت کے آدمی ہیں۔ امریکہ میں ان کی جائیداد ہے اور برسوں نیو یارک میں وہ مقیم رہے۔ حسین حقانی نام کے آدمی کو امریکی لیڈروں سے روابط کے لیے پالا گیا۔ بوجھ بنے تو انہیں اور ان کی بیگم صاحبہ کو جماعت سے الگ کر دیا گیا۔ اب وہ انتقام لے رہے ہیں ۔ نئی امریکی انتظامیہ سے مراسم استوار کرنے کی کوشش بھی... ایک تیر سے دو شکار۔
سب سے بڑا مسئلہ سول ملٹری تعلقات میں کشیدگی ہے؛ اگرچہ کم ہوئی مگر باقی ہے۔ فوج اور سیاستدان، دونوں نے پہاڑ ایسی غلطیاں کیں۔ سول ادارے مضبوط نہ ہو سکے۔ کرپٹ سیاستدان پھلے پھولے۔ باہم وہ عناد رکھتے ہیں۔ اگر ایک دوسرے کو وہ معاف نہ کریں گے تو قیمت ملک چکائے گا۔ خدا کے لیے پاکستان کو معاف کر دو۔
تحقیقات ہونی چاہیے مگر یہ کام قومی اسمبلی کا نہیں۔ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر کوئی موزوں افسر مقرر کرے تو یہ بہترین طریق ہو گا۔ قومی اسمبلی سفارش بھی کر سکتی ہے۔
آزادی کا حصول کٹھن ہوتا ہے مگر سفاک دشمنوں کی موجودگی میں اس کی بقا اور بھی مشکل۔ عزمِ صمیم کے علاوہ فکر و نظر کی راستی درکار ہوتی ہے، فکر و نظر کی راستی!