تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     17-03-2017

ڈرو مَت

یہ بلاشبہ رو ح پرور تجربہ تھا۔ شیخہ سلطانہ گرلز ڈگری کالج کا دو منزلہ آڈیٹوریم طا لبات اور ٹیچرز سے لبا لب تھا۔ اِدارے کے سر براہ محترم ڈاکٹر نعیم غنی صاحب خطبہِ استقبا لیہ پیش کر رہے تھے۔فرمایا میڈیا بر با دی کا سامان لے کر آ یا ہے۔ان کے غیر جذباتی دلائل خاصے معقول تھے۔ساتھ کہنے لگے آپ سے سالوں پہلے سا بق نگران وزیراعظم اور وکیل ملک معراج خالد ایسی ہی سالانہ تقریب میںآئے تھے۔اُن سے کہا تھا فیصلہ دیںقومی زوال پذیری کا ذمہ دار کون ہے۔وہ ٹال کر نکل گئے تھے مگر آپ فیصلہ دے کر جائیں گے۔میں روسٹرم پر پہنچا،فیصلے کے بارے میں کہا ،میں اور ہم سب ذمہ دار ہیں (دلائل یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں)۔میڈیا کے بارے ،میںنے ڈاکٹر غنی صاحب سے قطعاََاتفاق نہ کیا۔
ذرا اقتدار کے آخری ایوان تک چلئے وہاں کے میڈیا مینجر سب سے پا پو لر میڈیا یعنی سوشل میڈیا کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ایک خاتون وزیرِمملکت نے عدل کے آخری ایوان میںتصویر بنانے کے مجرم صحافی کا کیمرہ چھینا،آواز کا والیم آخری درجے تک اونچا کیا۔صحافی کو سالوں اڈیالہ جیل میںرکھنے کا اعلان فرما دیا ۔ صحافی کو دھمکیاں،جھڑکیاں،طعنے اور کو سنے سنائے ،کہا جانتے نہیںالیکٹرانک کرائم بِل میں ایسی گستاخی کی سزا کیا ہے؟ صحافتی تنظیموںنے سر کاری پریس کانفرنس میں اِحتجاج کیاتوسرکار بول اُٹھی ــــــ''آئی ایم سوری''۔قومی اسمبلی کے فلور پر سرکاری رکن نے وفاقی سرکار کی شان میںگستاخی کرنے والوں کویہ کہہ کر سرکاری سرٹیفکیٹ دیاتم غدارہو،تم غدار ہو۔باقی جو کچھ فرمایا وہ پارلیمنٹ کے مین گیٹ والے سی سی ٹی وی فوٹیج میں محفوظ ہے۔جس کی کاپیاںارکانِ پارلیمنٹ کے واٹس ایپ پر فراخ دِلانہ تقسیم ہو رہی ہیں۔سیلف سینسر شپ اصول کو مدِنظر رکھ کر اس سرکاری گفتگو کوکم ازکم ننگی گالیوں کی نئی پنجابی ڈکشنری کہا جا سکتا ہے۔اسی تسلسل میںجو پریس ٹاک پارلیمنٹ کی حدود میں ہوئی اُس سے کیمرہ سے لے کر کیمرہ مین تک،نیوز رپورٹر سے لے کرنیوز ایڈیٹر تک سب شرما کر رہ گئے ۔ اس لئے ایسی گفتگو جو نشر نہ ہو سکی اُسے ضبطِ تحریر میں لانے والا قلم کہاں سے آئے گا۔
نوجوانوں کی طاقت اور قوتِ اظہارِ کے خوف سے لرزاںبونوں کا ایک جَتھا خوف کو ہتھیار سمجھ بیٹھا ہے۔اسی تسلسل میںایک اور وزیرِمملکت نے دھمکی دی کہ وزیرِ اعظم کے خلاف مہم چلانے والے جیل جائیں گے۔کل شام سے اس بیان پر دو جگہ پر لو گوں کو ہنسی کے شدید دورے پڑے ۔ایک وہاںجہاں سکیورٹی لیکس کی ایجاد ہوئی ۔ دوسرے وہاںجہاں سے کروڑوں روپے روزانہ کے خرچ سے جعلی فیس بک اکائونٹس،فرضی ٹویٹراکائونٹس اور نمائشی ناموں سے خاندانی جمہوریت کے خلاف اُٹھنے والی موثر آوازوںکا مسلسل میڈیا ٹرائل ہو رہا ہے۔
پرانی کہاوت ہے کہ چھُری کا استعمال اُسے صحیح یا غلط بناتا ہے یا پھر وہ ہاتھ جو چُھری کے پیچھے ہوتا ہے۔ ماہر ڈاکٹر یا سرجن کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی چُھری کینسر، پیپ، ناسور، لاچاری اور بیماری کو کاٹ کر صحت مند جسم سے علیحدہ کر دیتی ہے لیکن بیمار، متشدد اور طاقت کے نشے میں بدمست بدبخت ہاتھ میں آنے والی چُھری انسانیت کے قتل کا باعث بن جاتی ہے۔ اظہار اور ابلاغ کا کوئی بھی ذریعہ حکمت اور خدمت سے خالی نہیں۔ یہ پرنٹ میڈیا ہو ، الیکٹرانک میڈیا یا نئے زمانے کی سب سے بڑی طاقت سوشل میڈیا ، سب جگہ اچھائی غالب ہے۔ خدمت غالب ہے اور حکمت کا راج ہے۔ خوف کو ٹیکنالوجی سمجھ کر اُسے اختلافی آوازیں دبانے والے سوداگروں کی مثال منطق سے یوں سمجھی جا سکتی ہے۔ اگر آپ کسی دیوار پر 50میٹر لمبا سفید کپڑے کا بینر لگائیں اور پھر کسی پان خور سے کہیں کہ وہ اس کے درمیان میں پان کی پیک تھوک دے ۔جو بھی رنگ پہچاننے کی حِس سے محرو م شخص اُس کپڑے کو دیکھے گا وہ 49 میٹر کی شفافیت، صفائی، سفیدی اور ستھرائی کو بھول جائے گا۔ وہ سیدھا داغ تک پہنچے گا اور پوچھے گا کہ یہ کیا ہے؟اس کا ایک مسلسل تجربہ مجھے اس وقت دیکھنے کو ملا جب 1980ء کی دہائی میں، میں نے وکالت کا آغاز کیا ۔ اقبال روڈ راوولپنڈی میں اپنا دفتر کھولا ۔اُس ددور میں مرحوم وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی ہدایت پر مجھے پنجاب اینٹی کرپشن کمیٹی کا رُکن نامزد کیا گیا۔ اس کے ایک اجلاس کی تصویر میں 20 رکنی کمیٹی کا گروپ فوٹو بنا، گروپ فو ٹو میں میرے اور نواز شریف صاحب سمیت 19 مرد اور ایک خاتون شامل تھے۔ پنڈی کے ایک معروف فوٹو گرافر اقبال زیدی مرحوم نے جو میرے کالج فیلو وقار زیدی المعروف وِکی لندن والا کے بڑے بھائی تھے‘ وہ فوٹو فریم کروا کر میرے لاء آفس پہنچائی جو میری نشست کے ساتھ دیوار پر آویزاں ہو گئی۔ دفتر آنے والوں میں سے 99فی صد مہربانوں نے اِس تصویر کے بارے میں صرف ایک ہی سوال پوچھا، سوال تھا ''یہ خاتون کون ہے ؟‘‘
وہ لوگ جو داغ کی تلاش میں رہتے ہیں ان کے لیے سوشل میڈیا کی ضرورت نہیں ویسے ہی جیسے علم کی پیاس بجھانے والوں کے لیے چشمے، نہریں، دریا اور سمندر زادِ راہ ہوتے ہیں۔ وہ ہستیاں جو عظمت کے میناروں سے بھی اونچی ہیں اُن کے حوالے سے قانون ساری دنیا بھر میں موجود ہے۔ کوئی تفصیل جاننا چاہے تو پی ایل ڈی 2012ء جرنل پارٹ میں شائع شدہ ناموس رسالتؐ کے قانون پر بطورِ وزیرِ قانون میرا تحریر کردہ فیصلہ ملاحظہ فرما لے۔ باقی رہے زُعمِ پارسائی کے مریض سیاست کار تو اُن کی خدمت میں عرض ہے سوشل میڈیا سے ڈرومَت ۔ اپنی حرکتوں پر کنٹرول کرو۔ سوشل میڈیا تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔ سوشل میڈیا آج کل امریکا کے طاقت ور ترین میڈیا ہائوسز سمیت طاقت کے مراکز کے اعصاب پر سوار ہے۔ نئے امریکی صدر ڈی جے ٹرمپ سوشل میڈیا کے ہاٹ ڈاگ یعنی مرغوب غذا ہیں۔ وزیرِ اعظم کی ٹیم ہمیشہ کہتی ہے کہ قائدِ اعظم ثانی سب سے پاپولر لیڈر ہیں۔ اتنے پاپولر آدمی کے ذکر کرنے پر پابندی عائد کرنا کہاں کا انصاف ہے۔؟ 
ویسے آپس کی بات ہے، سوشل میڈیا کا حال بھی لائوڈ سپیکر جیسا ہے۔ جس کے استعمال کے آغاز میں فرمایا گیا اس میں شیطان بولتا ہے۔ آج کل کون کہاں سے بولتا ہے یہ بات رہنے دیں کیونکہ اس پر شورِش کاشمیری کا فی ہے۔
آپ جو کچھ بھی کہیں رات ابھی باقی ہے
دن کے بے روک اُجالوں میں کمی باقی ہے
حلقۂ پا ہی سہی، حلقۂ گیسو نہ سہی
کوئی تو بات بہ فرمانِ شہی باقی ہے
قوم کے ساتھ ضروری ہے کوئی کھیل کرو 
کہ یہاں رسم و رہِ شیشہ گری باقی ہے
کوئی شوشہ کسی اندازِ نو سے چھوڑیں
شہر میں فہم و فراست کی کمی باقی ہے
جہدو ایثار غلط، ولولۂ شوق فضول
اِس قبیلے میں فنِ لابہ گری باقی ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved