ایک ہی کہانی کے جب ایک سے زیادہ مختلف پہلو انسان کے سامنے رکھ دیے جائیں تو وہ کیا ردعمل ظاہر کر سکتا ہے؟ توانائی اور آبی مسائل کے ماہر اشفاق محمود کہتے ہیں کہ اگر بھارت نے اسی طرح پاکستان کے لئے پانی کی بندش کا سلسلہ جاری رکھا تو یہ ایک جوہری جنگ کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس مجموعی طور پر پانچ سو بم ہیں اور اگر بھارت کو کسی تیسرے فریق کی ثالثی منظور نہ ہوئی یا پھر مذاکرات پہ وہ تیار نہ ہوا تو اس صورت میں ان تمام بموں کے استعمال کا خدشہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اشفاق محمود پانی و بجلی اور ترقیات و منصوبہ بندی کی وزارتوں میں وفاقی سیکرٹری رہ چکے ہیں اور سن دو ہزار آٹھ تک وہ منصوبہ بندی کمیشن کے انرجی ونگ کے سربراہ بھی تھے۔ وہ ٹھوس مثالوں کے ذریعے ثابت کرتے ہیں کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔ عالمی بینک کی وساطت سے یہ معاہدہ کراچی میں انیس ستمبر سن 1960ء میں طے پایا تھا اور اس پہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستانی صدر ایوب خان کے دستخط ثبت ہیں۔ دوسری طرف ایک سابق بیوروکریٹ ہیں جنہیں زراعت کے شعبے کا ایک معتبر نام سمجھا جاتا ہے، انہوں نے ہمارے ایک مشترکہ دوست کو بتایا ہے کہ پاکستان چونکہ چھوٹے بندوں کی تعمیر میں مسلسل ناکام رہنے کی بدولت پانی کو سمندر میں بہہ جانے دے رہا ہے اس لئے پانی کے ضیاع کی تمام تر ذمہ داری بھارت پہ نہیں بلکہ خود پاکستان پہ عائد ہوتی ہے۔بھارت کا مؤقف یہ ہے کہ بگلیہار اور کشن گنگا ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے وہ بے شک بجلی بنانے کے لئے پانی کا استعمال کر رہا ہے لیکن پاکستان جانے والے دریائوں میں وہ
ہمیشہ اس پانی کو واپس چھوڑ دیتا ہے۔ پچھلے دنوں آکس برج سوسائٹی (جو آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل افراد کی ایک تنظیم ہے) کے زیر اہتمام پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ روکنے کے لئے آبی سفارت اور اس ضمن میں عالمی بینک، امریکہ، چین، یورپ اور دیگر ممالک کے کردار کے موضوع پہ ایک تقریب منعقد کی گئی تھی۔ اس تقریب میں اشفاق محمود صاحب نے کہا کہ بھارت اپنی جنگجویانہ روش کے باعث مسلسل سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزری کر رہا ہے۔ ''مسلسل ڈیموں کی تعمیر کے ذریعے بھارت ہمارا پانی چوری کر رہا ہے۔ لاہور میں زیرِ زمین پانی کی سطح کم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ دریائی پانی زیادہ تر بھارتی پنجاب کو سیراب کر رہا ہے اور ہمارے کسانوں کو زمینی پانی پہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے ہماری زمینیں خشک ہوتی جا رہی ہیں‘‘۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ سندھ طاس معاہدے کے مطابق ایسی صورت حال ایک تیسرے فریق کی ثالثی کی متقاضی ہو گی؛ تاہم بھارت کی جانب سے اس ضمن میں جو بیان بازیاں جاری ہیں وہ صورتحال کی بہتری میں ممد بالکل بھی نہیں۔ ''خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے‘‘ اور ''بھارت سندھ طاس معاہدہ منسوخ کر دے گا‘‘ جیسے بیانات سے انہیں گریز کرنا چاہئے۔ اشفاق محمود کہتے ہیں کہ جنگ کے حوالے سے دونوں ملکوں کی ذہنیت تبدیل ہونی چاہئے۔ بھارتی جنگی جنون لوگوں کے ذہنوں کو آلودہ کر رہا ہے۔ عالمی برادری کو اس جانب متوجہ ہونا چاہئے۔ اگر جوہری جنگ چھڑی تو صرف ہم سب ہی ملیامیٹ نہیں ہوں گے بلکہ دور دور تک اس کے اثرات جائیں گے۔ چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی بینک ایمانداری اور غیر جانبداری کے ساتھ صورتحال کو دیکھے اور ثالث کا کردار نبھائے۔ آکس برج سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل ارشاد اللہ خان کہتے ہیں کہ آبی سفارت کاری کا وقت کب کا گزر چکا ہے۔ ''بھارت کے ساتھ تمام معاہدے ہمیں خود منسوخ کر دینے چاہئیں۔ اسے صرف لاٹھی کی زبان سمجھ آتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم پاکستان کو ایک صحرا بنانا چاہتے ہیں‘‘۔ اس رویے کا نتیجہ ایک جوہری جنگ کی صورت میں
سامنے آ سکتا ہے‘ جو ساری دنیا کو نگل سکتی ہے۔ نریندر مودی کو خود پہ قابو رکھنا چاہئے۔ ہمارے انٹیلی جنس اداروں یعنی آئی ایس آئی اور ایم آئی کو چاہئے کہ یورپ اور امریکہ میں اپنی ہم منصب تنظیموں سے رابطہ کرکے انہیں بتائے کہ بھارت جو خطرناک کھیل کھیل رہا ہے وہ ایک جوہری جنگ کی آگ سلگا سکتا ہے۔ اس بارے میں ایک اور نقطہء نظر بھی ملاحظہ کیجئے‘ جو ایک پاکستانی نژاد امریکی کا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیوز میڈیا اور عوام کا خیال یہ ہے کہ بھارت تین مغربی دریائوں یعنی جہلم، چناب اور سندھ سے پاکستان کا پانی چوری کر رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہے؟ اس کا جواب منحصر ہو گا اس امر پہ کہ یہ سوال پوچھا کس سے گیا ہے۔ بھارت والے تو یقینا اس بات کی تردید کرتے ہیں جبکہ پاکستان کا مؤقف ان کی تردید کے برخلاف ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ وہ بجلی کی پیداوار اور آبپاشی کے لئے اس پانی پر اپنے حقوق کا استعمال معاہدے کے مطابق ہی کر رہا ہے۔ جن صاحب کا ہم نے تذکرہ کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ پچھلے پچاس برس سے بھارت ڈیم پہ ڈیم تعمیر کئے جا رہا ہے جبکہ پاکستان نے پانی کی کمی سے نمٹنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی تک نہیں کی۔ ایسے میں پانی سے مکمل طور پر محروم ہونے سے بچنے کے لئے پاکستان کو کیا کرنا چاہئے؟ مختصرالمیعاد پالیسی کے طور پر بھارت کے ساتھ دریائی پانی کے جملہ مسائل کی تحلیل کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اگر اس میں ناکامی ہوئی تو مرحلہ وار عسکری اقدامات پہ توجہ مرکوز ہونی چاہئے؛ تاہم طویل المیعاد حل کے طور پہ ہمیں پائیدار آبی ذخائر کی تعمیر اور سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے کے لئے اقدامات کرنا ہوں
گے۔ مختصر یہ کہ ہمیں سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنا ہو گا۔ ہر سال پانی کی ایک بہت بڑی مقدار سمندر میں بہہ جاتی ہے۔ برف پگھلنے سے اور مون سون کے موسم میں بارشوں سے سیلاب آتے ہیں۔ یہ پانی ضائع ہونے سے بچانا ہو گا۔ مطلب یہ کہ اس کے زیر زمین پہنچانے کا رستہ مہیا کرنا ہو گا تاکہ زیر زمین آبی وسائل کی سطح بحال ہو سکے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ بے شمار چھوٹے بڑے آبی ذخیرے جگہ جگہ تعمیر ہونے چاہئیں۔ پانی کی ممکنہ کمی ایک ایسی ہنگامی صورتحال ہے جس کا اندازہ عوام کو ہے اور نہ ہی لیڈروں کو۔ امریکہ میں وفاق کی جانب سے آئیووا، منیسوٹا، نبراسکا اور سائوتھ ڈیکوٹا جیسی ریاستوں میں کسانوں اور فارم مالکان کو مقامی طور پر انجینئرنگ کی معلومات فراہم کر کے ہر جگہ چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے میں مدد دی جاتی ہے۔ وہاں واقعتاً سینکڑوں ہزاروں ایسے ڈیم ہیں جو مقامی لوگوں نے خود اپنے فائدے کے لئے اپنے ہی پیسے سے تعمیر کئے ہیں، مزدوری بھی اس میں خود ہی کی ہے اور تمام ساز و سامان بھی ان کے لئے خود مہیا کیا ہے۔ ان میں ذخیرہ شدہ پانی زیر زمین جذب ہو کر زیر زمین پانی کے ذخائر کو خشک ہونے سے بچائے رکھتا ہے۔ جن سالوں میں بارشیں کم ہوں تو پھر یہی پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں ٹیوب ویلوں کا مسلسل استعمال زیرِ زمین پانی کی سطح کی کمی کا سبب بن رہا ہے اور پانی کے زیرِ زمین ذخیرے کی دوبارہ بھرائی کا بھی کوئی انتظام موجود نہیں۔ اپنی تجاویز کے حوالے سے انہوں نے اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں حکام سے بات کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن یہاں لوگ حقائق اور مسائل کا سامنا کرنے کی بجائے شتر مرغ کی طرح گردن ریت میں دبا لینے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ''میرے پاس الفاظ نہیں کہ اس مسئلے کی سنگینی کو اجاگر کر سکوں۔ حل اس کا یہی ہے کہ حکومت اور مقامی افراد مل کر سیلابی پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کی منصوبہ بندی کرکے سینکڑوں ہزاروں چھوٹے چھوٹے ڈیم تعمیر کریں۔‘‘ کیا ہماری آواز کسی کے کانوں میں پڑ رہی ہے؟