اردو ہماری قومی زبان ہے اور اب کہیں جا کر اس کی حیثیت تسلیم کئے جانے کے آثار پیدا ہوئے ہیں۔ اسے پڑھنے لکھنے اور بولنے کے علاوہ اس کی حفاظت بھی ہم پر فرض ہے جس سے لگا تار کوتاہی برتی جا رہی ہے ۔خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں اس کے املا اور تلفظ سے انتہائی غفلت برتی جاتی ہے‘ مثلاً بلند بانگ دعوے کو بلند و بام دعوے اورمَرض مرُض اور غَرض کو غرضُ وغیرہ لکھنا۔کار پرداز ان ٹیلی وژن کو اس قباحت کو دور کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ یہ اغلاط مستقل ہو جائیں گے اور بالآخر زبان کا بیڑہ غرق ۔ علاوہ ازیں اکثر کالم نگار خواتین و حضرات اپنی تحریر کی سجاوٹ کے لیے اسے اشعار سے بھی مزّین کرتے ہیں لیکن بسا اوقات شعر غلط درج کر جاتے ہیں اور مصرع بے وزن ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ وبا اس قدر عام ہے کہ اب ہم نے اس کا نوٹس لینا ہی چھوڑ دیا ہے لیکن اگر کوئی شاعر ایسی غلطی کرے تو وہ ناقابلِ معافی ہے۔ مثال کے طور پر اگلے روز جناب منصور آفاق نے اپنے کالم میں جو شعر نقل کیا اسے اس طرح لکھا ؎
ہم ان سب کتابوں کو قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
یہ اکبر الہ آبادی کا مشہور شعر ہے جو اصلاً اس طرح سے ہے ؎
ہم ایسی سب کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
مصرعۂ ثانی میں لفظ بیٹے کی بجائے لڑکے تو قابلِ برداشت ہے لیکن مصرعۂ اولیٰ کی انہوں نے ٹانگ ہی توڑ کر رکھ دی جو بے وزن ہو کر رہ گیا۔ یہ ٹائپ کی غلطی نہیں ہو سکتی کیونکہ ٹائپ کی غلطی میں کوئی لفظ چُھوٹ جاتا ہے یا آگے پیچھے ہو جاتا ہے لیکن یہاں تو معاملہ ہی اور ہے یاد رہے کہ موصوف نہ صرف شاعر ہیں بلکہ صاحبِِ دیوان شاعر!
اگلے روز مُحبی ڈاکٹر ناصر عباس نیّر کا فون آیا کہ میرے پاس اس وقت جناب شاہد صدیقی بیٹھے ہیں جو اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اور عرفان صدیقی صاحب کے بھائی۔ آپ کے بڑے مداح ہیں اور ملنا چاہتے ہیں‘ کیا ہم ملنے کے لیے آ سکتے ہیں ؟ میں نے کہا بسرو چشم لیکن اُردو سائنس بورڈ کے دفتر سے یہاں پہنچنے میں کم از کم ایک گھنٹہ ضرور لگے گا اور آپ جانتے ہیں کہ میں فارم ہائوس پر ہی دستیاب ہوں۔ کچھ دیر بعد پھر فون آیا کہ انہوں نے واپس بھی جانا ہے اور ان کے پاس وقت کم ہے‘ پھر کبھی سہی۔ آج ہی ان کا رسالہ''اردو سائنس میگزین‘‘ موصول ہوا ہے جس کے وہ چیف ایڈیٹر ہیں۔ جنوری تا مارچ2017کو محیط ہے۔ اس میں سموگ پر خصوصی لیکچر ہے اور سائنس کے موضوع پر کئی دیگر مفید مضامین اس کی ایک اور خاص چیز اسلم کولسری پر گوشہ ہے جن کا تھوڑا عرصہ پہلے انتقال ہوا تھا اور جو اسی ادارے میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں اور مرحوم شاعر کو خراج پیش کرنے والوں میں امجد اسلام امجد ‘ عطاء الحق قاسمی‘ محمد خلیق‘ زبیر وحید‘ ہارون الرشید اور محمد اظہار الحق شامل ہیں۔ اس کے علاوہ شگفتہ طاہر کے قلم سے تبصرۂ کتب ہے اور ذوالفقار علی کی طرف سے اردو سائنس بورڈ کی سرگرمیاں۔ سرورق کے ایک کونے میں اسلم کولسری کی تصویر ہے اور اس کی قیمت فی شمارہ 80روپے رکھی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اہم نوٹ بھی کہ مجلّے میں غیر مطبوعہ تحریریں شامل کی جاتی ہیں جن کی اشاعت پر شکریے کے ساتھ اعزازیہ بھی مضمون نگاروں کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔ سفید کاغذ اور عمدہ ٹائٹل یہ ادارہ آٹھ سو سے زائد کتب شائع کر چکا ہے۔ اس کا ماٹو ہے‘ سائنس سلامتی کے لیے‘‘۔
اگلے روز افضال نوید کا فون آیا‘ کالم پر شکریہ ادا کر رہے تھے حالانکہ اس میں شکریے والی کوئی بات ہرگز نہیں تھی۔ اپنے نئے اندازِ بیان کو اپنے گردوپیش کا شاخسانہ قرار دے رہے تھے کوئی ڈیڑھ برس بعد وطن واپسی کا بھی امکان ہے۔ ہر صُبح واک کے بعد ایکسر سائز کرتے وقت موصوف کی یاد قدرتی طور پر آ جاتی ہے کہ جب وہ پچھلی بار آئے تو مجھے سانس کی ایکسر سائز بتائی تھی جو اس طرح سے ہے کہ لمبا سانس کھینچ کر چار گننا ہے اور پھر خارج کرنا ہے۔ یہ مشق تیس یا پچاس بار کرنی ہے۔ اس کے بعد بائیں نتھنے سے لمبا سانس کھینچ کر دائیں نتھنے سے خارج کرنی ہے‘ پھر بدل بدل کر اسے بھی تیس یا پچاس بار دُہرا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور بھی تھی کہ سانس تیز تیز لینا اور خارج کرنا لیکن بعد میں میں نے اسے ترک کر دیا کہ میرے ڈاکٹر کے بقول دل کے مریضوں کے لیے یہ نقصان دِہ ہے۔
اور اب آخر میں افضال نوید کی ایک اور تمثال دار غزل:
اک رات چاندنی کے سمندر میں جا رہا
طوفان نکل تغافلِ ساغر میں جا رہا
اکثرکہیں کہیں تری آہٹ رہی مجھے
اکثر سے میں نکل پڑا اکثر میں جا رہا
لاحدِ لایقین اڑاتا رہا غبار
لاحدِ اعتبار کے محور میں جا رہا
اور جا نہ بنتی تھی کہیں جاکو بنا لیا
اور سامنے نہ ٹھہرا حدِ سر میں جا رہا
تن کو اتارنا پڑا ملبوس کم پڑا
ہر سو اُڑاتے عکس بھرے گھر میں جا رہا
اور میں بھی جبر سے رہا عاری وجود میں
اور میرا جھومنا بھی قلندر میں جا رہا
نیچائی روحوں کی کہاں اوپر کو اُٹھ سکی
بدتر سے جو مُکر گیا کمتر میں جا رہا
سُر سے لگائی لو تو کھلا عالمِ نشاں
گانے کا لطف نغمۂ جی بھر میں جا رہا
تذکیر سے نہ کھل سکی تانیث تذکرہ
واحد جمع سے لد گیا مصدر میں جا رہا
کہنے کو کوئی بھی نہ تھا کلیوں بھرا پیام
اُترا جو مہر رخنۂ دوبھر میں جا رہا
اگلی صفوں پہ کرنوں کا اژدھام تھا غلط
پڑھتے ہوئے نماز قلندر میں جا رہا
ایسا ہوا کہ باندھ لیا تجھ بدن سے میں
ایسا ہوا کہ میں متواتر میں جا رہا
تو آ گیا نظر تو نہ پرواہ اپنی کی
گنتا جنوں کو ہالۂ منتر میں جا رہا
کھنچتا رہا ہر آنکھ کی گہرائی میں نوید
انجامِ کار چشمۂ کوثر میں جا رہا
مقطع
خود کِھلا غنچۂ لب اُس کا‘ ظفرؔ
یہ شگوفہ نہیں چھوڑا میں نے