تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     17-03-2017

رویے میرے حضورﷺ کے اور مروجہ سیاسی رویے

میرے حضورﷺ کا اخلاق کس قدر عظیم ہے؟ احادیث اور سیرت کی کتابوں میں بے شمار واقعات ہیں جو بتلاتے ہیں کہ ہمارے حضورﷺ کے اخلاق اس قدر بلندوبالا ہیں کہ انسانی تاریخ ایسے واقعات پیش کرنے سے تہی دامن ہے مگر تحقیق کرتے ہوئے اپنے حضورﷺ کے ایک فرمان پر میری نظر پڑی تو حضورﷺ کا اخلاقی رویہ مجھے آسمان کے افق پر ایک ایسے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے حسین سمندر کی صورت میں نظر آیا، جسے میں دیکھتا ہی رہ گیا اور حیرتوں کے جہان میں انگشت بدنداں ہو کر حضورﷺ کی محبتوں کے نورانی دریا میں تیراکی کرنے لگا۔ لوگو! میرے حضورﷺ نے صحابہؓ کو مخاطب کر کے اک نصیحت آموز جملہ ارشاد فرمایا!
لَاتَسُبُّوْا الشَّیْطَانَ وَتَعُوْذُوْا بِاللّٰہِ مِنْ شَرِّہٖ
'' شیطان کو گالی مت دو‘‘ ہاں! اتنا ضرور کہ اس کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ مانگتے رہا کرو
مذکورہ حدیث شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اپنے سلسلہ صحیحہ میں لائے ہیں اور اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ 
قارئین کرام! شیطان کو گالی دینے سے میرے حضورﷺ نے منع کیا۔ ہاں ہاں! اس کو گالی دینے سے منع کیا جو برائیوں کا منبع ہے، جو فساد کی جڑ ہے۔ انسانی قتل اور بربادیوں کا سرچشمہ ہے۔ میرے حضورﷺ نے اسے بھی گالی دینے سے منع کیا۔ ہاں ہاں! میرے حضورﷺ کی شریعت میں جب شیطان کو بھی گالی دینا جائز نہیں تو کسی برے آدمی کو گالی دینا کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ کوئی آدمی چاہے جس قدر بھی برا ہے، شیطان جتنا برا تو نہیں پھر انسان کو گالی کیوں؟ شیطان کو گالی دینے سے اس لئے میرے حضورﷺ نے منع کیا کہ شیطان اگرچہ بے شمار گالیوں کا مستحق ہے مگر حضورﷺ کے امتی کے اخلاق کا تقاضا ہے کہ اس کا اخلاقی معیار اونچا رہے، وہ پست نہ ہونے پائے۔ اس کا شیطان کے معاملے میں اخلاقی معیار گر گیا تو پھر یہ گرتا ہی چلا جائے گا۔ اصل مسئلے کے حل کی جانب میرے حضورﷺ نے توجہ دلائی کہ شیطان کی شرارتوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ یہ ایک مہذب طریقہ ہے یہ فرض بھی ہے اور انسان کی ضرورت بھی ہے۔ جی ہاں! اپنا مہذبانہ فریضہ ادا کیا جائے مگر اخلاقی معیار بالا رکھا جائے۔ اس کو بٹہ نہ لگنے دیا جائے، داغ نہ پڑنے دیا جائے اور نقصان نہ پہنچنے دیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی سورۃ ''الانعام‘‘ میں توحید کو خوب خوب بیان فرمایا ہے اور پھر توحید والوں کو ایک سبق بھی یاد کروایا ہے، فرمایا ''(مسلمانو!) جن معبودوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں تم انہیں گالی نہ دینا۔ جواب میں یہ لوگ نادانی میں اللہ تعالیٰ کو گالی دے ڈالیں گے۔‘‘ (108) یعنی بت پرست مشرک اگر اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے تو اس کا باعث وہ مسلمان بنے گا جو مشرکین کے کسی بت کو گالی دے گا۔ اللہ اللہ! یہ ہے ہر اس مسلمان کا اخلاقی معیار جو قرآن پر ایمان رکھتا ہے۔ اسی طرح امام بخاری ''ادب‘‘ کے عنوان میں ایک حدیث لائے ہیں جس کے مطابق حضورﷺ اس شخص پر تعجب کرتے ہیں جو اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے۔ صحابہ نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! ایسا بدنصیب کون ہے جو اپنے ماں باپ کو گالی دے گا، فرمایا جب کوئی کسی کے ماں باپ کو گالی دے گا تو جواب میں وہ بھی گالی دے سکتا ہے یوں کسی کے ماں باپ کو گالی دینے والے نے دراصل اپنے ماں باپ کو گالی دی۔ سبحان اللہ! یہ ہے وہ اخلاقی معیار جو حضرت محمد کریمﷺ نے انسانیت کو دیا۔
بخاری اور مسلم میں احادیث موجود ہیں کہ عرب کے حکمران، مدینہ کی سرکارحضرت محمد کریمﷺ کی خدمت میں یہودیوں کا ایک وفد ملاقات کے لئے گھر میں حاضر ہوا۔ آتے ہی انہوں نے ''اَلسَّامُ عَلَیْکُم‘‘ کہا۔ ''سام‘‘ کا معنی موت ہے یعنی ان بداخلاق لوگوں نے حضورﷺ کے پاس آ کر بدتہذیبی کا مظاہرہ کیا۔ حضرت عائشہؓ نے فوراً جواب دیا، موت تم پر ہو اور اللہ کی لعنت بھی ہو۔ اس پر حضورﷺ نے فوراً اپنی اہلیہ محترمہ کو ٹوکا اور فرمایا، اے عائشہؓ! اللہ تعالیٰ ہر معاملے میں نرم خوئی کے حامل اخلاقی رویے کو پسند فرماتے ہیں۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے عرض کی، اے اللہ کے رسولﷺ آپ نے سنا تو ہے کہ وہ کیا کہہ گئے ہیں۔ فرمایا، میں نے صرف ''وَعَلَیْکُم‘‘ کہہ دیا۔ اب اگر تم نے ان کو جواب دینا ہی تھا تو جیسا انہوں نے کہا اتنا ہی جواب دیتیں۔ لعنت کا جو لفظ استعمال کیا، یہ زیادتی کر دی، لہٰذا زیادتی کیونکر کی؟ اللہ اللہ! یہ ہے میرے حضورﷺ کا عظیم اخلاق جس کی آپﷺ اپنی پوری امت کو تلقین فرما رہے ہیں کہ میری امت کے ہر شخص اور ہر خاتون کو تہذیب کے ایسے اعلیٰ مقام پر ہونا چاہئے کہ زیادتی کا جواب دینا بھی ہو تو صرف اسی قدر جس قدر زیادتی ہوئی ہے اور عظمت اخلاق کا نبوی تقاضا بہرحال یہ ہے کہ برابر کا جواب بھی نہ ہو۔
امریکہ کے سابق صدر بش کو عراق میں جب ایک شخص نے جوتا مارا تھا تو بعض جذباتی مسلمانوں نے اس پر مسرت اور خوشی کا اظہار کیا تھا مگر میں نے اس پر سخت برا منایا تھا، اس لئے کہ یہ انسانیت کی توہین تھی۔ انسانیت کی تکریم کے خلاف تھا، وہ قرآن جو میرے حضورﷺ پر نازل ہوا اس نے واضح بتلایا کہ ''ہم نے آدمؑ کی اولاد کو تکریم عطا فرمائی۔‘‘ (القرآن) بُش بھی اولادِ آدم میں سے ایک شخص ہے لہٰذا اسے جوتا کیوں؟ یہ طرز عمل میرے حضورﷺ کی تعلیم کے خلاف ہے۔ روم کا بادشاہ یعنی اپنے دور کا بش جو تھا، میرے حضورﷺ نے اسے خط لکھا تو ''عظیم الروم‘‘ لکھا یعنی رومیوں کا عظیم حکمران... جی ہاں! حضورﷺ نے اسے عزت و تکریم کے ساتھ مخاطب فرمایا۔ آہ! ہم اپنے حضورﷺ کے مبارک رویّوں سے دور چلے گئے۔ اس کے بعد کتنے ہی لیڈروں کی طرف جوتے اچھالے گئے مگر آغاز کس نے کیا۔ میرے حضور کا کلمہ پڑھنے والے نے۔ (انا للہ وانا الیہ راجعون) ہم دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم بدتہذیب لوگ ہیں۔ لوگو! اپنے دین کو بدنام نہ کرو، اپنے حضورﷺ کی مبارک سیرت کو سامنے رکھو۔ یاد رکھو! گولی کا زخم جسم پر لگتا ہے، وہ زخم مندمل ہو جاتا ہے۔ جوتے کا توہین آمیز زخم دل پر لگتا ہے۔ یہ زخم کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ ایسا زخم کمینگی ہے اور بدتہذیبی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
حکمرانو! ایک بات پر غور کرو، اللہ تعالیٰ کی سب سے محبوب اور کائنات کی عظیم ہستی حضرت محمد کریمؐ کہ جنہوں نے انسانیت کو اخلاق کا اعلیٰ ترین درس دیا۔ بتلائو! ان کی اگر کوئی توہین کرے تو وہ کتنا بڑا بدبخت ہے۔ انسانیت کا مجرم اور پرلے درجے کا ملعون ہے۔ ایسے ملعون کو اللہ کا قرآن بھی ملعون کہتا ہے۔ ایسے بدترین جانوروں نے جو بلاگز بنائے، بتلائو، تم نے ایسے لوگوں کا کیا کیا؟ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں پاک فوج کے محبِ رسول آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کہ ان کے سکیورٹی اداروں نے ایسے بدبختوں کا پتہ چلایا اور ان کے مزاجوں کو دھلائی کے پراسس سے گزارا۔ ابھی تو وہ پراسس میں تھے کہ بعض نام نہاد آزادی کے سرخیل بول پڑے اور سیاسی حکمرانوں نے بیرونی پریشر پر ان کو ملک بدر کر دیا۔ حکمرانو! اللہ کے لئے سوچو، یہ تم نے کیا کیا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج محترم شوکت عزیز صدیقی کو عقیدت بھرا سلام کہ انہوں نے اس پرخوب خوب ایکشن لیا اور سوئی ہوئی وزارت داخلہ کی بھی آنکھ کھلی۔ اللہ کرے کہ حرمت رسولؐ کے مجرم جو بھگا دیئے گئے واپس لائے جائیں اور جو موجود ہیں وہ اپنے انجام کو پہنچیں۔ محسن انسانیتؐ کی حرمت و عزت کا تحفظ کرنے والے دونوں جہانوں میں سرخرو ہوں گے۔
قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے ایک ممبر نے اپنے کولیگ کو جس طرح کے طعنے دیئے، گالیاں دیں، آج کل میڈیا پر جگ ہنسائی اور حکمران جماعت کی تذلیل کا جو سامان ہو رہا ہے، میں اس منظر کو حرمت مصطفیؐ کی نظر سے دیکھتا ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ حکمرانوں نے حرمت رسولؐ کے دفاع سے غفلت اور کوتاہی کا جو ارتکاب کیا اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ کا ایک معمولی جھٹکا ہے۔ قابلِ غور بات ہے کہ پاکستان کے بانی حضرت قائداعظم رحمہ اللہ کا اپنا نام ''محمد علی‘‘ ہے۔ انہیں تو نام محمد سے اس قدر پیار تھا کہ لندن میں قانون کے اس ادارے میں داخلہ لیا جس کے بلیک سٹون پر دنیا کے عظیم قانون دانوں کے نام کی فہرست میں پہلا نام ''حضرت محمد کریمﷺ‘‘ کا تھا۔ آج ان کی مسلم لیگ کے سربراہ میاں محمد نوازشریف صاحب کی حکمرانی میں توہین رسالت کے مجرم باہر بھاگ جائیں۔ یقین نہیں آتا کہ میاں نواز شریف کے دور میں کہ جنہیں سکون ملتا ہے تو حضورﷺ کے پڑوس ''ریاض الجنۃ‘‘ میں۔ ان کے دور حکمرانی میں گستاخ اس قدر دلیر ہو جائیں کہ سکون کے ساتھ باہر پرواز کر جائیں۔ یاد رہے! 23مارچ کو لاہور کے میدان میں حضرت قائداعظم محمد علی جناح جس پنڈال میں قیامِ پاکستان کی بات کر رہے تھے۔ اس سائبان کی جھالر پر پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا۔ آج اس مارچ میں امید ہے کہ میاں محمد نوازشریف صاحب کی حکومت حرمت رسولﷺ کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved