تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-03-2017

دھماکہ ایک منٹ بعد ہوتا ہے!

دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں اور سفارت کار حیران ہیں کہ سخت ترین سکیورٹی کے با وجود 10 جنوری2017 کی شام سات بجے کے قریب گورنر قندھار کے گیسٹ ہائوس کے دفتر کے اندر بم دھماکہ کیسے ہوگیا؟کیا امارات کے سفیر کی آمد سے پہلے گورنر کے گیسٹ ہائوس کے اس کمرے کی باقاعدہ سکیورٹی نقطہ نظر سے سرچنگ نہیں کی گئی تھی؟ ایک ایسے وقت پر جب گورنر قندھار، ڈپٹی گورنر قندھار، انسپکٹر جنرل پولیس اور متحدہ عرب امارات کے سفارت کار گورنر کے گیسٹ ہائوس کے اندرونی اور محفوظ حصے میں موجود تھے‘ وہاں پہلے سے بم کیسے نصب کیا گیا اور یہ کن لوگوں کی مدد سے ممکن ہوا؟ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے یہ معلوم کیا جا سکتا تھا کہ یہاں کس نے ڈیٹو نیٹر نصب کیا‘ اور یہ کن لوگوں کی غفلت سے ممکن ہوا‘ جس میں متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کاروں سمیت12 افراد جاں بحق اور18 شدید زخمی ہو ئے۔ ہلاک ہونے والوں میں واشنگٹن میں تعینات ایک افغان سفارت کار بھی شامل تھا۔ متحدہ عرب امارات کی نیوز ایجنسیWAM کے مطا بق ان کے سفارت کار افغانستان میں تعلیم کی بہتری اور یتیموں بیوائوں کیلئے گھروں سمیت بہت سے ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں اپنی حکومت کی جانب سے منظور کی گئی سکیموں کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے پہلے سے طے شدہ وقت کے تحت گورنر ہائوس پہنچے تھے۔ سب سے زیا دہ چونکا دینے والی بات‘ جس کی جانب بار بار اشارہ کیا جا رہا ہے ‘یہ ہے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس قندھار عبد الرازق‘ جو اس تقریب میں عرب امارات کے سفارت کاروں سے محوگفتگو تھے‘ دھماکہ ہونے سے آدھ منٹ پہلے وہاں سے اچانک کیوں چلے گئے تھے جبکہ اس دوران انہیں کسی بھی قسم کی فون کال یا SMS وصول نہیں ہوا تھا اور بعد کی تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہو ا کہ وہ مجلس سے اٹھ کر کسی واش روم میں نہیں گئے تھے‘ جس سے یہ کہا جا سکے کہ وہ واش روم استعمال کرنے کیلئے اچانک اس جگہ سے اٹھنے پر مجبور ہو ئے۔ ان کی اس میٹنگ میں مسلسل موجودگی بے حد ضروری تھی کیونکہ جن پروجیکٹس کا دوبئی حکام نے افتتاح کرنا تھا‘ ان کی سکیورٹی کے انتظامات بھی طے کئے جانے تھے۔ عبدالرازق تو بچ گئے لیکن بہت سے دوسرے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے‘ جن میں افغانستان کی نیشنل سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے انتہائی اعلیٰ افسر بھی شامل تھے جبکہ شدید زخمی ہونے والے امارات کے سفارت کار ایک ماہ بعد زخموں کی تاب نہ لیتے ہوئے چل بسے۔
گورنر ہائوس قندھار کے کچھ خدمت گاراس وقت مہمانوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھے۔ ان میں سے زخمی ہونے والے چند خدمت گاروں کا کہنا ہے کہ وہ حیرانی سے دیکھ رہے تھے کہ گورنر قندھار کے دفتر سے ‘ جہاں ان کے سب مہمان بیٹھے ہوئے تھے‘ انسپکٹر جنرل پولیس قندھار عبد الرازق نکل کروہاں سے تیز تیز قدموں سے جاتے ہوئے دیکھے گئے ۔ لیکن دھماکے کے اگلے ہی روز بدھ کو انسپکٹر جنرل قندھار پولیس عبد الرازق نے پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے حقانی گروپ اور پاکستان کی آئی ایس آئی کو قندھار کے اس دھماکے کا ذمہ دار قرار دینا شروع کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس کمرے میں یہ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہاں موجود صوفوں کے نچلے حصوںمیں دہشت گرد طالبان نے آئی ایس آئی کی مدد سے یہ بم نصب کئے گئے تھے۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ وہ جن بھوت تھے جو صوفوں کے اندر بم نصب کر کے چپکے سے وہاں سے چلے گئے؟ سبھی جانتے ہیں کہ عبد الرازق کا سابق افغان صدر حامد کرزئی اور بھارت سے براہ راست تعلق ہے اور وہ ان لوگوں میں شامل ہیں‘ جو اٹھتے بیٹھتے حامد کرزئی کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے
پاکستان کے خلاف اپنے دلوں کا غبار نکالتے رہتے ہیں ۔۔۔اور یہ کہ یہ بم دھماکہ بھارت کی خفیہ ایجنسیوں اور این ڈی ایس کی ملی بھگت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ بھارت پاکستان کے خلاف عرب اور اماراتی عوام کے دلوں میں نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے۔ 
گورنر قندھار اور آئی جی پولیس عبد الرازق کی بہت سی پالیسی معاملات میں آپس کی مخالفت کابل اور قندھار میں کسی سے بھی ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے اور اس کی ایک بڑی وجہ CUSTOM COLLECTION ISSUE تھا کیونکہ وہ تمام وصولیاں جو کسٹم ٹیکس کے زمرے میں آتی ہیں‘ ان پر انسپکٹر جنرل پولیس عبدالرازق نے اپنے خاص آدمیوں کو مقرر کیاہوا تھا تاکہ ان میں سے اپنا حصہ علیحدہ کر سکے جبکہ گورنر قندھار قاعدے قانون کے مطا بق اس کی ذمہ داری کسٹم حکام کو دینا چاہتے تھے تاکہ یہ سب افغان حکومت کے خزانے میں جا سکے۔ یہیں سے دونوں میں اختلافات پیدا ہوئے اور بڑھتے گئے۔
دھماکہ کسی بیرونی چار دیواری کے ساتھ نہیں بلکہ گورنر کے دفتر میں ہوا۔ اب یہ تو کسی کو بھی بتانے کی ضرورت نہیں کہ گورنر ہائوس کے اندر اور اس کے ارد گرد سکیورٹی کی تمام ذمہ داری آئیجی پولیس کی تھی اور تفتیشی ٹیمیں سرکاری دستاویزات کو دیکھنے کے بعد یہ بھی جان چکی ہیں کہ گورنر ہائوس میں موجود تمام سکیورٹی سٹاف آئی جی پولیس عبد الرازق کے احکامات سے ہی تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہائی سکیورٹی زون میں یعنی گورنر ہائوس کی چار دیواری کے اندر انتہائی حساس حصے میں بم دھماکہ ہو جانا ایک ہی سوال اٹھاتا ہے کہ اس کی تمام تر ذمہ داری سکیورٹی پر مامور ان لوگوں کی غفلت یا ملی بھگت کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکتی ہے‘ جو وہاںتعینات کئے گئے تھے۔ متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کاروں کی گورنر ہائوس کے اندر ہلاکت اور زخمی ہوجا نا کوئی معمولی بات نہیں تھی کہ ہمیشہ کی طرح افغان حکومت کی پاکستان پر الزام تراشیوں کے شور شرابے میں دب جاتی۔ جیسے ہی پاکستان کو اس دھماکے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ‘تو پاکستان نے خود امارات حکومت سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں کسی بھی غیر جانبدار ادارے سے تفتیش کرانے کی درخواست کی‘ جس پر دو مختلف تفتیشی ٹیمیں تشکیل دی گئیں تاکہ وہ سچ اور جھوٹ کو سامنے لائیں اور اصل مجرموں کو دنیا کے سامنے بے نقاب بھی کریں۔ اس سلسلے میں ایک ٹیم افغانستان کی نیشنل ڈیفنس سکیورٹی اور افغان حکومت کے اعلیٰ حکام پر مشتمل ہے تو دوسری ٹیم سکاٹ لینڈ یارڈ اور متحدہ عرب امارات کی انٹیلی جنس کے افسران پر مشتمل ہے۔چاہئے تو یہ تھا کہ عبدالرازق سکاٹ لینڈ یارڈ اور متحدہ عرب امارات کی تحقیقاتی ٹیموں سے مکمل تعاون کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ شاید وہ حامد کزرئی کی پشت پناہی کی بنا پر خود کو ہر قسم کی جواب طلبی سے مبرا سمجھے ہوئے ہیں‘ لیکن اس دفعہ بات نہیں بنے گی کیونکہ گورنر ہائوس کے اندر‘ جہاں کی سکیورٹی کے وہ ذمہ دار تھے‘ متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کاروں کی ہلاکت معمولی بات نہیں ہے۔ اس کیلئے امارات حکومت نے سکاٹ لینڈ یارڈ کی خدمات اسی وجہ سے حاصل کی ہیں کہ اپنے پانچ سفارت کاروں کے قاتلوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو سب کے سامنے لایا جا سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved