تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-03-2017

گوادر کس نے ایجاد کیا؟

پاکستان میں نظامِ عدل سے انصاف کے حصول میں وجیہہ عروج کو17 برس کا عرصہ لگ گیا۔ اب بھی شاید فیصلہ حتمی نہیں ہے۔ پاکستان اور کینیڈا کی دوہری شہریت رکھنے والی وجیہہ عروج نے 17برس قبل پنجاب یونیورسٹی لاہور کے خلاف ایک دیوانی عدالت میں ہتکِ عزت کا دعویٰ کیا تھا۔اس ماہ کی 8تاریخ کو لاہور کی ایک اپیلیٹ عدالت نے پنجاب یونیورسٹی لاہور کی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے لاہور کی دیوانی عدالت میں دائر وجیہہ عروج کی درخواست پر وجیہہ کے حق میں آنے والے فیصلے کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے۔درخواست میں وجیہہ عروج نے دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور نے انہیں ایم اے انگریزی کے ایک پرچے میں غلط طور پر غیر حاضر ظاہر کر کے پورے امتحان میں فیل قرار دے دیا تھا۔ ان کے اس اقدام سے نہ صرف معاشرے میں ان کی ہتک ہوئی بلکہ یونیورسٹی کے عملے کی طرف سے مبینہ طور پر ان کی کردار کشی بھی کی گئی۔ان کا دعویٰ تھا کہ یونیورسٹی کے ایک کلرک نے ان کی موجودگی میں ان کے والد سے یہ کہا تھا کے ''آپ کو کیا معلوم کہ آپ کی بیٹی کیا کرتی رہی تھی؟‘‘ تاہم عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ وجیہہ عروج کی جانب سے یونیورسٹی کے اس کلرک کے خلاف انفرادی طور پر کارروائی کرنے کا نہیں کہا گیا اور نہ ہی اس جملے کی مزید وضاحت میں شواہد سامنے آ سکے۔گزشتہ سال لاہور کی ایک دیوانی عدالت نے وجیہہ عروج کی درخواست کو نمٹاتے ہوئے، ان کے مؤقف کو صحیح مانتے ہوئے پنجاب یونیورسٹی کو انہیں 8 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف یونیورسٹی نے اپیل دائر کر دی تھی۔کئی برسوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے کے بعد رواں ماہ عدالتی فیصلہ وجیہہ عروج کے حق میں آ تو گیا ہے مگر اب ان کی عمر 21 برس نہیں بلکہ 38 برس ہے اور ان کے سامنے پاکستان کی سول سروس میں شمولیت کے نہ پورے ہونے والے خواب ہیں۔وہ پچھلے دس سال سے کینیڈا کے شہر کنگسٹن میں اپنے خاوند اور تین بچوں کے ساتھ مقیم ہیں۔ ان کی بڑی بیٹی کی عمر 14برس 
ہے۔ آج سے 17برس قبل وہ لاہور میں ایم اے انگریزی کی طالبِ علم تھیں ،جب پنجاب یونیورسٹی لاہور نے پہلے سال کے امتحانات کے ایک پرچے میں غیر حاضر قرار دے کر انہیں فیل کر دیا تھا جو کہ بعد ازاں عدالت میں غلط ثابت ہوا۔ایک طرف فیل ہونے کا دھچکہ تو دوسری طرف یونیورسٹی کی جانب سے پرچے سے غیر حاضری کے غلط بیان نے وجیہہ عروج کو ایک خطرناک صورتحال سے دوچار کر دیا۔ انہیں لوگوں کی طرف سے اپنے کردار کے حوالے سے سوالات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
کینیڈا سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وجیہہ عروج نے بتایا کہ جب ان کے سامنے یونیورسٹی کے کلرک نے ان کے والد سے کہا کہ ''آپ کو کیا پتہ کہ آپ کی بیٹی نے پرچہ دیا بھی تھا یا وہ کہیں اور تھی؟‘‘ تو ان کا سر شرم سے جھک گیا۔''وہ سوال تیر کی طرح لگے مجھے۔ میرے والد صاحب کو مجھے بتاتے ہوئے پسینہ آ رہا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھا کہ میں کہاں چلی جاؤں؟میں اتنی زیادہ ڈپریشن میں چلی گئی کہ دو دن تک رو رو کے میری حالت برُی ہو گئی۔ اپنے تعلیمی کیریئر میں میں کبھی فیل نہیں ہوئی تھی۔ مجھے پتہ تھا کہ میں نے کیسا پرچہ دیا تھا؟ بہت زیادہ اچھا نہیں تو وہ اتنا ضرور تھا کہ میں آرام سے پاس ہو جاتی۔‘‘وجیہہ عروج کا کہنا تھا کہ ان ابتدائی دنوں میں وہ اس قدر ذہنی اذیت کا شکار ہوئیں کہ ایک مرتبہ ان کے ذہن میں خود کشی کرنے کا خیال بھی آیاتھا۔' 'پھر اپنی امی جو کہ پہلے ہی سے بہت علیل تھیں ان کو مزید دکھ نہ دینے کا سوچ کر میں انتہائی قدم اٹھانے سے باز رہی۔‘‘ ان کا کہنا تھا ان کے خاندان کے افراد نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ جب انہوںنے اپنے والد صغیر محمد خان جو کہ خود ایک جج رہ چکے ہیں کی پیروی میں ، لاہورہائی کورٹ میں یونیورسٹی کے دعوے کو چیلنج کیا تو تقریباً چار ماہ بعد یونیورسٹی کے اس وقت کے افسران، ان کا پرچہ بھی ڈھونڈ کر لے آئے اور انہیں پاس بھی کر دیا گیاتھا۔تب تک ان کا کافی نقصان ہو چکا تھا۔ ان چار ماہ کے دوران ان کو جس اذیت سے گزرنا پڑا اور ان کی جو کردار کشی یا ہتک کی گئی، اس کے لئے نہ تو تب اور نہ پھر کبھی ،یونیورسٹی نے ان سے معذرت کی۔ لہٰذا 2000ء میں انہوںنے پنجاب یونیورسٹی لاہور کے خلاف 25لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ کر دیا۔یونیورسٹی اس کے خلاف ہائی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ آف پاکستان تک گئی مگر ہر جگہ سے اس کی اپیل مسترد ہوتی رہی۔ بالآخر 2016ء میں دیوانی عدالت نے وجیہہ عروج کے حق میں فیصلہ دیا۔ تاہم عدالت نے ہرجانے کی رقم 25 لاکھ سے کم کر کے 8لاکھ تک کر دی۔پنجاب یونیورسٹی نے اس فیصلے کو پھر سے اپیل کورٹ میں چیلنج کیا ،جس کا فیصلہ رواں ماہ میں پھر سے ان کے خلاف آیا۔ تاہم اب بھی یونیورسٹی اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا حق رکھتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ جیسے ہی ان کو عدالتی فیصلے کی کاپی وصول ہوتی ہے تو وہ دیکھیں گے کہ اگر طالبہ حق پر ہے تو وہ لازماً عدالتی حکم پر عملدرآمد کریں گے۔ تاہم اگر ان کو لگا کہ اس میں یونیورسٹی حق پر ہے تو وہ اگلے فورم پر اپنی صفائی دیں گے۔
یہ رپورٹ پڑھ کے مجھے اندازہ ہوا کہ اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟ میںعمرعزیز کے 79برس پورے کر چکا ہوں۔ اس دوران پاکستانی ریاست نے بارہا اسلام قبول کیا اور مجھے ہر اسلام کی پابندی کرنا پڑی۔ اب ایک بار پھر ایک منصف یہ سکھانے آئے ہیں کہ مجھے مسلمان ہونے کے لئے پھر سے کیا کیا شرائط پوری کرنا پڑیں گی؟ پاکستان کے پہلے آئین میں علمائے کرام کے متعدد نکات شامل کئے گئے۔ میرے لئے وہ اس بنا پر قابل قبول تھے کہ میں پیدائشی مسلمان تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مسلمان ہونے کی شرائط کڑی سے کڑی ہوتی گئیں۔ جس حکومت کو اضافی اختیارات کی ضرورت پڑی، اس نے اسلام کے نام پر مزید پابندیاں عائد کر دیں اور جس ملک میں، جن عقائد کے حکمران آئے، انہوں نے اس اسلام کی تشریح بھی اپنی اپنی ضروریات کے مطابق کر دی۔ میں نے صدر قذافی کا لبیا دیکھا ہے۔ وہاں دکانوں پر بچوں کے ملبوسات کے سوا کوئی لباس موجود نہیں تھا۔ پتہ چلا کہ قذافی صاحب نے مسلمان ہونے کی شرط پوری کرنے کے لئے جن ملبوسات کی اجازت دی تھی، وہ اچانک حضرات و خواتین کے ملبوسات کا سرکاری ڈیزائن تیار نہ کر پائے۔ سرکار کی طرف سے جس ڈیزائن کی بھی اجازت ہوتی، اسے لوگ پسند نہیںکرتے تھے۔ مجبوراً انہیں ایک بیہودہ سا لباس پہن کر گھروں سے نکلنا پڑتا اور پسند کے ملبوس گھروں میں پہن کر گزارہ کر لیاجاتا۔ مگر قذافی صاحب کے اسلام کایہی ڈیز ائن تھا۔ مردوںکے لئے انگریزی طرز کا سوٹ جائز سمجھا گیا۔ لیکن خواتین نے جس بدوی ڈھنگ کا لباس پہن کر گزارہ کیا، آپ آج بھی عرب ممالک کی دیہی زندگی میں دیکھ سکتے ہیں۔ آج اخبارات میں نیم اسلامی شرائط کی پابندی کے جو احکامات شائع ہوئے، انہیں پڑھ کر میں سوچ میں پڑ گیا ہوں ۔ علمائے کرام کے 22 نکات کی روشنی میں تیار کئے گئے آئین کو دیکھا، تو مجھے پھر سے مسلمان ہونا پڑا۔ اس کے بعد ضیاالحق اور پھر ان کے زیرسایہ پروان چڑھنے والے حکمران اقتدار میں آئے تو میں یہی سمجھنے سے ڈر رہا ہوں کہ مجھے اپنی زندگی میں مزید کتنے اسلام دیکھنا پڑیں گے؟ مگر اب 
مجھے کوئی خوف نہیں۔ کیونکہ میری باقی زندگی خرچ ہو چکی ہے، چند روز باقی رہ گئے ہیں۔ لیکن عمر کے ان آخری دنوں میں بھی ایک نیا اسلام، اسلام آباد کی عدالت سے جاری ہو رہا ہے اور قیام پاکستان کے قریباً70سال کے بعد ہمارے وزیراعظم نے گوادر ایجاد کیا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ جناب وزیراعظم وہ پہلے شخص ہیں،جنہوں نے پاکستان کے جغرافیے میں گوادر شامل کیا۔ مجھے ان کا احسان مند بھی ہونا پڑے گا۔ کیونکہ میں احسان فراموش نہیں۔ اگلے چند روز میں ہمیں مرغی ذبح کرنے کا جائز طریقہ بھی سکھایا جائے گا۔ جب تک ہمیں جائز طریقے سے مرغی ذبح کرنا نہیں آتی، ہم جتنی مرغیاں بھی کھائیں گے، مشکوک ہی رہیں گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved